صحت بہتر نہ ہوئی‘ تو نواز شریف
لندن جا سکتے ہیں: پرویز رشید
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''صحت بہتر نہ ہوئی‘ تو نواز شریف لندن جا سکتے ہیں‘‘ اور جن لوگوں نے یہ افواہ اڑائی ہے کہ نواز شریف کی حالت اب بہتر ہے‘ یہ ایک سازش ہے‘ جس کا مقصد نواز شریف کے لندن جانے کی راہ میں روڑے اٹکانا ہے‘ جبکہ لندن جا کر ہی وہ موجودہ مسائل سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں‘ جسے ڈیل کا غلط رنگ دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت بنانا تحریک کا حق ہے‘‘ اور اس میں روڑے اٹکانا‘ نواز لیگ کا حق ہے۔ اس لیے دونوں کو اپنا اپنا حق استعمال کرنا چاہئے کہ یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی سے اپوزیشن لیڈر سمیت کسی بات پر اتحاد نہیں کرینگے‘‘ کیونکہ اس نے پہلے ہی انکار کر رکھا ہے ‘اس لیے یکطرفہ طور پر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ آپ اگلے روز ایک ادارے سے ٹیلیفونک گفتگو کر رہے تھے۔
پنجاب کے عوام سے رابطے جاری‘ تنہا
نہیں چھوڑیں گے: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پنجاب کے عوام سے رابطے جاری‘ تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘ اگرچہ پنجاب کے عوام ہم سے تنہا اور الگ رہنا ہی پسند کریں گے‘ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی کھال ہی اتروانی ہے‘ تو نواز لیگ کیا بری ہے ‘جو بیچاری آج کل خود مصیبت میں پھنسی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جلد دوبارہ شہر شہر جائوں گا‘‘ اور اگر دوسری بار بھی کسی نے بات نہ سنی‘ تو تیسری بار جائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ''اگلے انتخابات کی تیاری ابھی سے کرنا ہوگی‘‘ کیونکہ حالیہ انتخابات کی تیاری بھی ہم نے ایک سال پہلے شروع کر دی تھی‘ جس کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلا‘ کیونکہ پارٹی کا نام سنتے ہی والد صاحب اور انکل یوسف رضا گیلانی کا چہرہ ان کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
فارم 45 اپنی مرضی سے بھر کر نیٹ پر لوڈ کر دیا گیا: اسفند یار ولی
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے کہا ہے کہ ''فارم 45 اپنی مرضی سے بھر کر نیٹ پر لوڈ کر دیا گیا‘‘ جبکہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیا گیا‘ جس کا مقصد صرف مجھے ہرانا تھا؛حالانکہ میں نے اور مولانا فضل الرحمن بیچارے نے کسی کا کیا بگاڑا تھا؟ ہم اپنی اپنی پارٹی کے سربراہ تھے‘ کم از کم ہمارا تو لحاظ کیا جانا چاہئے تھا۔ اس کے علاوہ ایسا لگتا ہے کہ ووٹرز کی نیت میں بھی کافی فتور آ چکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''تمام سیاسی پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر ہیں‘‘ لیکن پلیٹ فارم پر پہنچنے سے پہلے ہی ٹرین روانہ ہو چکی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''عدلیہ نوٹس کیوں نہیں لیتی‘‘ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ کو بھی ہماری مظلومیت کا کوئی احساس نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمیں پتا تھا کہ چور نے کس طرح چوری کی ہے‘‘ لیکن ہم بتاتے‘ اس لیے نہیں تھے کہ چغل خوری کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ آپ اگلے روز چارسدہ میں احتجاج کے دوران گفتگو کر رہے تھے۔
سیاسی جماعتیں عمران کا ساتھ دیں‘ ورنہ
اگلا چہرہ جمہوریت کا نہیں ہو گا: جاوید ہاشمی
مسلم لیگ ن کے سینیٹر اور برائے نام رہنما مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''سیاسی جماعتیں عمران خان کا ساتھ دیں ‘ورنہ اگلا چہرہ جمہوریت کا نہیں ہو گا‘‘ اور جہاں تک نواز لیگ کا تعلق ہے ‘تو اس نے مسلسل مجھے نظر انداز کرنے کا مزہ چکھ لیا ہے اور میری بددعائوں کا اثر بھی دیکھ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سال کے اندر وہ چہرہ سامنے آ جائے گا‘‘ جبکہ مجھے تو وہ ابھی سے نظر بھی آ رہا ہے اور یہ سب مجھے نظر انداز کرنے کے شاخسانہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ ڈھانچہ 9 سے 12 ماہ نکالے گا‘‘ اور پھر دمادم مست قلندر ہو جائے گا‘ یعنی ‘ ہور چُوپو آم! انہوں نے کہا کہ ''شاہ محمود کہہ رہے ہیں کہ ان کی پارٹی نے ان سے گیم کی‘‘ جبکہ یہی گیم میرے ساتھ ن لیگ نے بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران کے پاس کچھ نہیں‘‘ ماسوائے ووٹوں کے۔ آپ اگلے روز ملتان میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ایک پنکچر نہیں‘ سارا ٹائر پنکچروں سے بھرا ہوا ہے: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''ایک پنکچر نہیں‘ سارا ٹائر پنکچروں سے بھرا ہوا ہے‘‘ البتہ یہ بیان دینے کے بعد مجھے یاد آیا کہ پنکچر ٹائر نہیں‘ ٹیوب پر لگتے ہیں‘ جس کی میں نے دوسرے بیان میں تصیح بھی کر دی تھی‘ لیکن میڈیا میرا وہ بیان ہی کھا گئی‘ جس کا مطلب ہے کہ میڈیا ابھی عمران خان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''لاڈلے کے لیے باقاعدہ جھُرلو پھیرا گیا‘‘ جس سے وہ سنہرا زمانہ یاد آ گیا‘ جس میں جھُلو پھرا کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان کو جتوانے کے لیے فل پنکچر لگائے گئے‘‘ (ٹیوب پر) جن میں سے دو چار ہماری ٹیوب پر بھی لگائے جا سکتے تھے‘ لیکن کسی کو اتنی توفیق ہی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ پنکچر عمران خان کے تمام حلقوں میں لگائے گئے‘‘ ورنہ یہ آج تک نہیں ہوا کہ کوئی امیدوار پانچ حلقوں سے جیتا ہو۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے اپنا بیان جاری کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
سب سمجھتے ہیں کہ جس سے ملتا جلتا رنگ ہے
لاکھ تُو کہتا پھرے میرا تو اپنا رنگ ہے