چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ دنوںکراچی میں ایک پرُ ہجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے خطاب کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سردار رضا سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ 25 جولائی 2018ء کو منعقدہ انتخابات پر انہیں تحفظات ہیں۔نوجوان چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو‘ اگرمنا سب سمجھیں ‘تو وہ اپنے والد گرامی آصف علی زرداری کی لاہور بحریہ ٹائون میں واقع بلاول ہائوس میں 2013ء کے انتخابات کے تیسرے دن 14 مئی کو لاہور کے سینئر صحافیوں اور اخبارات کے ایڈیٹرز سے کی جانے والی گفتگو کا وہ حصہ ایک بار ضرور غور سے سن لیں‘ جس میں انہوں نے پورے یقین اور وثوق سے کہا تھا کہ 2013ء کے یہ انتخابات نہیں ‘بلکہ ریٹرننگ آفیسرز کا کارنامہ ہیں اورہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ نتائج کہیں دوسری جگہ بیٹھ کر تیار ہوئے ہیں‘ لیکن جمہوریت کی خاطر ہم اس پر چار سال تک خاموش رہیں گے اور اگلے انتخابات سے ایک سال پہلے اپنی سیا سی مہم شروع کرتے ہوئے میدان میں اتریں گے۔انہوں نے ایک سینئر صحافی کے سوال کے جواب میں ایک معنی خیز قہقہہ لگاتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ نواز شریف کو ووٹ تھمائے گئے ہیں‘ ان کے حق میں ڈالے نہیں گئے۔ اب بلا ول بھٹو زرداری کو یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں کہ جب ان کے والد گرامی یہ سب کچھ کہہ رہے تھے ‘تو وہ اس وقت کسی پارٹی کے صدر کے طور پر نہیں‘ بلکہ صدرِ پاکستان کی حیثیت سے 2013ء کے انتخابات میں کی جانے والی بد دیانتی اور دھاندلی کاانکشاف کر رہے تھے اور وہ بھی اُس وقت جب انتخابات کروانے والی نگران حکومتوں کے وہ خود نگہبان ہونے کی وجہ سے ملک میں ہونے والی ایک ایک بات سے با خبر رہتے تھے۔
عزیز ی بلاول بھٹو زراداری! کیا آپ اپنے والد گرامی سے پوچھیں گے کہ جب وہ جانتے تھے کہ یہ آر اوز کے الیکشن تھے‘ تو اس وقت انہوں نے یا آپ کی پارٹی نے چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطا لبہ کیوں نہیں کیا تھا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کو بھی سندھ سے اس دھاندلی کا بہت بڑا حصہ مل چکا تھا۔ عزیزی !اس وقت کے چیف الیکشن کمیشن کے کروائے گئے‘ انتخابات پر ان پر مستعفی ہونے کا دبائو ڈالنے کی بجائے خاموش رہنے کا جواب آپ کے پاس نہ تو ہے اور نہ ہی آپ دینے کی ہمت رکھتے ہیں‘ کیونکہ میثاق جمہوریت کے تحت لندن میں ہی نواز لیگ اور پی پی پی کو ایک ساتھ بیٹھا کر سختی سے سمجھا دیا گیا تھا کہ پہلے پانچ سال زرداری لیگ کے اور اگلے پانچ سال نواز لیگ کے ہوں گے اور اس میثاق ِجمہوریت پر کیا جانے والا عمل سب نے اپنی آنکھوں سے پانچ برس میں دیکھ ہی لیا ہے اور یہ کوئی راز نہیں‘ بلکہ سب کے سامنے ہے اور کسی سے کچھ بھی پوشیدہ اور مخفی نہیں۔
بلاول صاحب‘ آپ ایک باشعورنوجوان ہیںاور دنیا کی مشہور یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں ۔آپ کو اپنی عظیم سیا ستدان ماں کے قریب رہنے کا شرف بھی حاصل تھا‘ اس لئے آپ کا آج پانچ برس بعد چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ سمجھ سے با لا تر ہے؟کیا پی پی پی میں ابھی تک وہی پرانی سوچ چلی آ رہی ہے ؟ کیا آپ کے قیادت سنبھالنے سے اس میں تبدیلی کی جو توقعات کی جا رہی تھیں‘ وہ سب فریب ہیں؟سندھ اور کراچی اور سندھ کے سات سے زائد انتخابی نتائج‘ جنہوں نے آپ کو کامیابی دی ہے‘ ان کو اگر دھاندلی کی نظروں سے دیکھا جائے ‘تو الیکشن کمیشن کو ایک دو ہزار ووٹ ادھر ادھر کرنے میں کیا رکاوٹ تھی؟دُور نہ جائیں ‘آپ کے گھر لاڑکانہ سے جی ڈی اے کے امیدوار عادل الطاف کے مقابلے میں پی پی پی کے امیدوارنے صرف 1400ووٹ سے کامیابی سمیٹی ہے۔سوچئے کہ اگر ان چودہ سو ووٹوں کو آپ کے الزامات کی روشنی میں‘ اگر جی ڈی اے کے حوالے کر دیا جائے‘ تو ان کیلئے کیا مشکل تھا‘جبکہ سندھ کے تمام سروے پہلے سے ہی بتا رہے تھے کہ لاڑکانہ کی اس صوبائی نشست سے پی پی پی کو واضح طور پر شکست ہو گی۔
عزیزم بلاول بھٹو زرداری! آپ کو2018ء کے انتخابات میں جو کامیابی ملی ہے‘ کیا اس کا آپ نے پانچ سال قبل تصور بھی کیا تھا؟ آپ کے اپنے صوبہ سندھ میں پانچ برس قبل آپ نے اس قسم کی کامیابی حاصل کی تھی؟اس کے با وجود آپ کا یہ کہنا کچھ زیب نہیں دیتا کہ حالیہ الیکشن منصفانہ نہیں ہوئے؟ اگر موقع ملے ‘تو 2018ء کے ساتھ ساتھ2013 ء میں تمام غیر ملکی مبصرین کی ان انتخابات کے متعلق جاری کردہ رپورٹ‘ جس کا میں حوالہ دے رہا ہوں ‘ایک مرتبہ غور سے پڑھنے کی کوشش کیجئے گا ۔ یورپی یونین کے مبصرین کی ٹیم ‘جس کی سربراہی مائیکل گاہلر کر رہے تھے‘ نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہماری ٹیم 300 سے زائد مقامات پر پہنچی‘ جن میں87 انتخابی حلقے آتے ہیں ۔ان کی جانب سے 27 جولائی کو جاری کردہ رپورٹ کے مندرجات آپ کے سامنے ہیں‘ جن کے مطا بق وہ لکھتے ہیں کہــ پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہات ان کی راہ دیکھتی رہی کہ ووٹرز اور سٹاف کو سکیورٹی مہیا کرنے والے ادارے کے اہل کار ہر ووٹر کا پہلے قومی شناختی کارڈ چیک کرتے ‘پھر اسے قطار میں اپنے پولنگ بوتھ کے اندر پہنچایا جاتا‘ جہاں وہ اپنی مرضی اور آزادی سے اپنا ووٹ کاسٹ کرتا رہا۔ ہمارے مشاہدے کے مطابق ‘ تمام دن انتخابات انتہائی شفاف طریقوں سے ہوتے رہے‘لیکن صرف ایک کمی ‘جو ہم نے نوٹ کی‘ وہ یہ تھی کہ انتخابات کے بعد نادرا کا آر ٹی ایس کا نظام نا جانے کیوں صحیح کام نہیں کر رہا تھا‘ جس سے پریزائڈنگ افسر کو اپنے مرتب کردہ نتائج متعلقہ آر او زتک جلد پہنچانے میں دشواری ہوئی۔اب رہی بات آر ٹی ایس کی‘ تو اس کیلئے چیف جسٹس صاحب کو نادرا اور پنجاب آئی ٹی کے ان اعلیٰ ترین افسران کے خلاف کارروائی کرناچاہیے‘ جنہوں نے اس سسٹم کو ایک اطلاع کے مطا بق کریش کرنے کی مبینہ کوشش کی ۔
2018ء کی یورپی یونین کی رپورٹس کے بعد 2013ء کی رپورٹ بھی ملاحظہ کریں ‘ جس پر سب سے بڑی گواہی بلاول بھٹو ‘ آپ کے کے والد گرامی نے 14 مئی کو عام انتخابات کے تیسرے روز لاہور کے سینئر صحافیوں اور اخبارات کے مدیروں کے سامنے یہ کہتے ہوئے خود دے چکے ہیں کہ یہ آر اوزکا پہلے سے ہی فکس کیا ہوا‘ الیکشن تھا۔۔۔اور کچھ نہیں۔اب آیئے 25جولائی کے انتخابات پر مولانا فضل الرحمن کی آل پارٹی کانفرنس کے بعد کی جانے والی پریس کانفرنس کی جانب تووہ اور ان کے اتحادی بلوچستان سے قومی اسمبلی کے حلقہ267 قلعہ عبد اﷲ سے جمعیت العلمائے اسلام کے کامیاب ہونے والے کی میڈیا ٹاک‘ جس کی ویڈیو میرے پاس موجو دہے ‘جسے کسی بھی وقت سن لیجئے ‘جس میں وہ نو منتخب رکن قومی اسمبلی کلمہ پڑھتے ہوئے خدا کی قسم کے ساتھ سب کے سامنے کہتے ہوئے دیکھے اور سنے جا سکتے ہیں کہ اس سے بہتر اور شفاف الیکشن انہوں نے اب تک نہیں دیکھا۔جو لوگ ان انتخابات کے خلاف آوازیں لگا رہے ہیں ‘ان سے درخواست ہے کہ وہ کچھ خدا کا خوف کریں۔
عزیزی بلاول بھٹو زرداری‘ جس طرح پی پی پی نے حالیہ انتخابات میں سندھ کی بیورو کریسی اور پولیس کے علا وہ تعلقہ داروں کو اپنے حق میں استعمال کیا‘ اس کی گواہی لاڑکانہ‘ شکار پور‘ سکھر‘ بدین ‘ خیر پوراور نوابشاہ میں سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر دی ہے اور اس کی حقیقت آصف علی زرداری سے بھی کسی طور بھی پوشیدہ نہیں ہے۔اس کو ذہن نشین رکھتے ہوئے کیا آپ کا مذکورہ مطالبہ جائز ہے؟