اس دنیا کی ہر بات نرالی ہے‘ جسے کچھ نہ ملے وہ بھی پریشان اور جسے بہت کچھ مل جائے‘ وہ بھی الجھنوں سے دوچار۔ جس کی زندگی میں خلاء ہو‘ وہ بھی اداس پھرے اور جس کی زندگی بھری پُری دکھائی دے ‘وہ بھی اندر سے کھوکھلا ملے۔
ہم نے اب تک کے‘ جیسے تیسے ذاتی مشاہدے کی مدد سے یہی اندازہ لگایا ہے کہ بولنے والا پھنس جاتا ہے۔ جس نے زیادہ ایمان داری دکھانے کی کوشش کی وہی بے ایمانی کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہوا۔ جو اپنے فرائض نبھانے کے معاملے میں زیادہ ایمان دار اور متحرک ہو‘ اُس کے حوالے سے عوامی زبان میںکہا جاتا ہے :جو بولے وہی کنڈی کھولے۔ ہم نے ہر اُس انسان کو کنڈی کھولنے کی ذمہ داری نبھاتے دیکھا ہے ‘جس نے بر وقت بولنے کی کوشش کی ہے‘ اوراپنے حصے کا کام بھرپور انداز سے کرنا چاہا ہے۔
برطانیہ سے ایک ''روح فرسا‘‘ خبر یہ آئی ہے کہ 20 لاکھ سے زائد افراد کو ان کے اداروں نے سالانہ اور دیگر تعطیلات کے حوالے سے دھوکا دیا! ٹریڈ یونین کانگریس نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد خاصی زیادہ ہے‘ جو کام میں غیر معمولی حد تک مستغرق رہنے کے باعث چُھٹّی نہیں لے پاتے۔ اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ کم وبیش 12 لاکھ افراد کسی بھی نوع کی سالانہ تعطیلات حاصل نہ کرسکے۔ دوسری طرف ایسے لوگوں کی تعداد کم و بیش 10 لاکھ ہے جو سالانہ کم از کم ساڑھے پانچ ہفتوں کی تعطیلات سے محروم رہے۔ مزید یہ کہ مجموعی طور پر سالانہ اربوں گھنٹے اضافی کام لیا گیا‘ مگر اس کی اجرت ادا کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ ملازمین کو کام کے بوجھ تلے رکھنے اور چُھٹّی کی درخواست ''انڈر پروسیس‘‘ رکھنے کا چلن عام ہوتا جارہا ہے۔
ان تمام مظلومین ... معاف کیجیے گا‘ ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ ملنے والی چُھٹّیوں کی مد میں مجموعی طور پر 3 ارب پاؤنڈ کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ ٹریڈ یونین کانگریس کے سیکریٹری جنرل نے اِس صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملازمین قانون کے مطابق یقینی بنائی جانے والی چُھٹّیاں حاصل نہ کر پائے تو بیمار پڑیں گے اور کمزوری سے دوچار ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں اُن کی کارکردگی بُری طرح متاثر ہوگی۔
ایک ترقی یافتہ معاشرے میں نا انصافی کی کیفیت آپ نے دیکھ لی۔ آئیے‘ اب اپنے ہی جیسے ایک پس ماندہ معاشرے کی طرف چلتے ہیں ‘تاکہ کچھ اندازہ ہو کہ جو اپنے طور پر جیتے ہیں وہ اپنی دنیا کس طور پیدا کرتے ہیں۔ بھارت کی ریاست بہار کے ضلع سارن سے خبر آئی ہے کہ تحصیل لہلاد پور کے گاؤں تمن پورہ میں ایک سرکاری سکول ٹیچر نے کلاس روم میں بھرپور نیند کے مزے لے کر ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ سکول ٹیچر کلاس روم میں کرسی پر خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا تھا کہ لڑکوں نے ویڈیو بنا ڈالی۔ معاملہ ویڈیو بنانے تک محدود نہیں رہا۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی گئی‘ جو خیر سے وائرل بھی ہوگئی ہے۔ ویڈیو بنائے جانے کے دوران لڑکوں نے ٹیچر کے گرد خاصا شور بھی برپا کیا‘ مگر اُس اللہ کے بندے نے جاگنا تو دور کی بات ہے‘ کسمسانے اور کروٹ بدلنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی! جب کلاس روم میں پوری کی جانے والی نیند کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی‘ تو سکول انتظامیہ سے جواب طلبی ہوئی۔ انتظامیہ نے جواز یہ پیش کیا کہ ٹیچر شوگر کا مریض ہے‘ اس لیے اُسے نیند زیادہ آتی ہے۔ سکول انتظامیہ کے اس جواب سے یہ بھیانک ''انکشاف‘‘ بھی ہوا کہ اس خطے کے بیشتر سکول ٹیچر اور کسی بیماری میں مبتلا ہوں نہ ہوں‘ شوگر کے مریض ضرور ہیں!
ویسے آپس کی بات ہے‘ ہم جس خطے میں رہتے ہیں‘ وہاں سرکاری سطح پر ٹیچنگ کا جو معیار ہے اور ٹیچرز کی قابلیت کی جو سطح ہے‘ اُسے دیکھتے ہوئے بچوں کو کچھ سیکھنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے لازم ہے کہ ٹیچر کلاس میں سو جائے! بعض کیسز میں تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بچے بے چارے گھر میں اپنے طور پر کچھ نہ کچھ پڑھ اور سیکھ کر آتے ہیں اور کلاس روم میں ٹیچر کی ''قابلیت‘‘ کے ہاتھوں وہ سب کچھ ''ان سیکھا‘‘ ہو جاتا ہے! پاکستان میں بھی بیشتر دیہی علاقوں کے سرکاری سکولز کی مجموعی حالت دل و دماغ پر ہتھوڑے برسانے کے لیے کافی ہے۔ بہت سے ٹیچرز سے کچھ دیر کی گفتگو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اُن سے ''پڑھنے‘‘ پر نئی نسل کا کیا بنے گا!
خیر‘ یہ تو جملۂ معترضہ تھا۔ ترقی یافتہ معاشروں میں قابلیت ؛چونکہ حتمی تجزیے میں انتہائی درجے کی نا اہلی ثابت ہوتی ہے اور انسان سے کام لیتے رہنے کی روایت اُسے کسی کام کا نہیں رہنے دیتی‘ اس لیے قرین ِ عقل یہی دکھائی دیتا ہے کہ کام سے گریز کرتے ہوئے اپنی چُھٹّیوں کو دُگنا کیا جائے! ترقی یافتہ معاشروں میں انسان کا جو استحصال کیا جارہا ہے‘ اُس سے بچنے ہی کے لیے ہمارے ہاں بہت سے منفرد طریقے اپنائے گئے ہیں‘ مثلاً :بیشتر دفاتر اور کارخانوں میں کام دیر سے شروع کیا جاتا ہے اور کام کی مقدار و معیار کا گراف بھی نیچے رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ تاکہ مزید کام کی گنجائش رہے۔ ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ دفاتر میں آمد کے بعد پہلا ایک گھنٹہ تو رسمی گفتگو کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد چائے آتی ہے‘ تو گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور یوں ابتدائی دو گھنٹے شدید بے عملی کے گڑھے میں دھکیل دیئے جاتے ہیں۔ ہم نے بارہا سوچا ہے کہ سب کچھ یونہی چلتا رہا تو یہ ملک‘ یہ معاشرہ کیا خاک ترقی کرے گا۔ پھر خیال آتا ہے‘ جن معاشروں نے ترقی کی ہے‘ وہاں شہریوں کا کیا حال ہے۔ ع
اُسے چُھٹّی نہ ملی جس کو سبق یاد ہوا
والی کیفیت ہے۔ جہاں کام کی اہمیت ہے وہاں انسان کو قانونی طور پر منظور شدہ چُھٹّیاں بھی نہیں مل پاتیں۔ پس ثابت ہوا کہ جہاں کام کی اہمیت ہو وہاں انسان کی کچھ وقعت باقی نہیں رہتی۔ جب یہ کیفیت ہو تو پس ماندہ معاشرے ''حفظِ ماتقدم‘‘ کے طور پر کام سے پہلے‘ بلکہ کام کے بجائے آرام کے چلن ہی کو تو حرزِ جاں بنائیں گے! آفرین ہے بہار کے اُس ٹیچر پر جس نے بھری جماعت میں بھرپور نیند کے مزے لے کر اُن سب کو ''راہِ نجات‘‘ دکھائی ہے‘ جو ''کام‘ کام اور صرف کام‘‘ کے اُصول پر کاربند رہنے کی صورت میں پھر کسی کام کے نہیں رہتے!
ترقی یافتہ معاشروں میں انسان کا جو استحصال کیا جارہا ہے‘ اُس سے بچنے ہی کے لیے ہمارے ہاں بہت سے منفرد طریقے اپنائے گئے ہیں‘ مثلاً :بیشتر دفاتر اور کارخانوں میں کام دیر سے شروع کیا جاتا ہے اور کام کی مقدار و معیار کا گراف بھی نیچے رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ تاکہ مزید کام کی گنجائش رہے۔