انتخابات کے بعد عوام نے عمران خان کو اپنا وزیر اعظم منتخب کر لیا ہے‘ جس کے بعد نہ صرف پاکستان‘ بلکہ عالمی میڈیا میں خان صاحب کو بے حد پذیرائی مل رہی ہے۔ اسی حوالے سے ''بلومبرگ‘‘ کا ایک تجزیاتی مضمون پیش خدمت ہے۔
''جب نریندر موددی کو وزیر اعظم منتخب کیا گیا‘ تو اس وقت میں نے لکھا کہ بھارت آزادی کے بعد سے اب تک‘ اپنے سب سے زیادہ شر انگیز دور میں داخل ہو رہا ہے۔ جس کسی کو بھی بھارت کی زد پذیر معیشت کے بارے علم تھا اور وہ ہندو ازم کو بالا دست بنانے کے مودی کے عزائم اور ارادوں سے آگاہ تھا‘ اس کا مودی کے وزیر اعظم بننے پر خوف محسوس کرنا بالکل درست تھا۔ آج جبکہ مودی بھارت میں نوجوانوں کے لئے نئی نوکریوں کے مواقع پیدا کرنے میں ناکام ہو چکا ہے اور بدعنوانی کے خاتمے کے سلسلے میں بھی اس کی پسپائی واضح ہے‘ تو مودی حکومت نے اقلیتوں کے خلاف پُر تشدد واقعات کی آگ کو پھر سے بھڑکانا شروع کر دیا ہے خصوصاً مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ اب جبکہ عمران خان پاکستان میں وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں‘ تو یہ خوف بھی بلا جواز نہیں کہ پورا جنوبی ایشیا 1947ء کے بعد کے دور میں‘ سب سے زیادہ پُر آشوب دور میں داخل ہو سکتا ہے۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ مودی کے برعکس‘ عمران خان کا حکومت کرنے کا کوئی داغ دار ریکارڈ موجود نہیں‘ اور نہ ہی اس نے اپنے بچپن سے اب تک کبھی کسی انتہا پسندانہ نظریے کے ڈھول پیٹے ہیں۔ عمران نے جب سیاست میں قدم رکھا تو ان کی عمر چالیس سال سے زیادہ ہو چکی تھی۔ ان کے پاس کرکٹ کا شاندار کیریئر تھا۔ انہوں نے بطور کپتان کرکٹ ورلڈ کپ بھی جیتا۔
عمران خان کا یہ وسیع تجربہ‘ اخلاقی اور اپنی ذات سے لطف اندوز ہونے کے حوالوں سے‘ کسی سے بھی یہ بات منوائی جا سکتی ہے کہ شدت پسند کہنے کے بجائے‘ انہیں شک کا فائدہ دے کر‘ نظریاتی طور پر لچکدار قرار دیا جا سکتا ہے۔ عمران سماجی انصاف کی بات‘ اور اس کو یقینی بنانے کے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے معاشرے میں جو اس طرح کے معاملات سے بے خبر ہے۔ یہ عزم بلا شبہ سراہے جانے کے قابل ہے۔ اس کے باوجود وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کے انتظار کے دوران‘ انہوں نے بعض ایسے میلانات کا اظہار کیا جو اضطراب کا باعث ہیں۔ سیاست میں شخصی امتیازات بمشکل ہی غیر اہم قرار دئیے جاتے ہیں۔ اس کے یقیناً اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جیسے ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کے سب سے طاقتور شخص ہونے کے ناتے‘ اپنے آپ کو ظاہر کیا۔ عمران خان‘ جو مین سٹریم سیاست میں اجنبی ہیں‘ان کے میلانات اہم اشارے ہیں کہ وہ وزارت ِعظمیٰ کی کرسی پر خود کو کتنا پُرسکون رکھ سکیں گے؟ عمران خان کی انا کسی طرح بھی ڈونلڈ ٹرمپ سے کم نہیں ہے۔ کرکٹ میں حاصل ہونے والی کامیابیوں اور بعد ازاں کچھ پروجیکٹس کی تکمیل نے‘ عمران کی انا کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ عمران خان نے 1990ء کی دہائی میں سیاست میں قدم رکھا‘ اس سوچ کے ساتھ کہ پاکستان میں سیاسی طاقت اور اختیار حاصل کرنا ان کا پیدائشی حق ہے۔ یہی سوچ پاکستان میں حکمرانوں کے پشت در پشت سلسلے کی کڑی ہے ‘ جس کو عمران ہدف تنقید بناتے ہیں۔
عمران خان کو یقین ہے کہ انہیں پاکستان میں تبدیلی لانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اس سوچ کے تحت انہوں نے پاکستان کے کمزور جمہوری اداروں کو آڑے ہاتھوں لیااور ملکی سیاست میںایک معاندانہ طرزِ بیان متعارف کرایا‘ جس کا گراف دہائیوں تک جاری رہنے والی آمرانہ حکومتوں اور سیاسی شعبدہ بازیوں کی وجہ سے‘ پہلے ہی صفرکے قریب پہنچ چکا ہے۔ کچھ لوگوں کیلئے وہ انقلابی ہو سکتے ہیں ‘ جو پاکستان کے موروثی اشرافیہ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔عمران خان مغرب زدہ لبرلز کے برعکس ‘ حقیقی لبرل بن کے حامی ہیں‘ لیکن انہوں نے اپنے حامیوں کوسوشل میڈیا پر مخالفین‘ خصوصی طور پر خواتین اور مغرب زدہ لبرلز ‘ پر حملوں سے روکنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کئے۔ پاکستان کی آبادی دنیا بھر میں سب سے زیادہ نوجوانوں پر مشتمل آبادی ہے۔ 64فیصد افراد 30سال سے کم عمر ہیں۔ اپنے بھارتی ہم عصروں کی طرح‘ جنہوں نے مودی کے 56انچ کی چھاتی ہونے کے دعوے کو تسلیم کر لیا ہے‘ پاکستانی نوجوان بھی خود کو اس سیاست دان کا ہم خیال تصور کرتے ہیں ‘جو دانش ورانہ‘ اظہارِ خیال اور سیاسی صلاحیت دکھانے کے بجائے ‘مردانہ وجاہت کی نمود پر زیادہ یقین رکھتا ہے۔ لیکن عمران خان کی جانب سے ہر شخص کو طاقتور بنانے کے خوابوں اور ٹھوس زمینی حقائق کے درمیان کافی فرق ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور اس کا انحصار ان چینی قرضوں پر ہے‘ جو نظر کچھ آتے ہیں اور حقیقت میں کچھ اور ہیں۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان نے جو تقریر کی‘ اس کو عوام کی جانب سے بے حد پذیرائی ملی۔ اس تقریر میں عمران خان نے اپنے ان ارادوں اور مقاصد کا اعادہ کیا‘ جن کو پیشِ نظر رکھ کر انہوں نے دو دہائیاں قبل سیاست شروع کی تھی۔ عوام اب یہ امید کرنے لگے ہیں کہ وہ ''نیا پاکستان‘‘ تشکیل دینے کیلئے عمران کے ساتھ مل کر سخت محنت کریں گے۔ عمران خان کے بیانات اور اقدامات نے عوام کو یہ یقین دلانے میں مدد کی ہے کہ ''نیا پاکستان‘‘ پُرانے پاکستان سے بدرجہ بہتر اور خوبصورت ہو گا‘ جہاں عوام کو تمام تر بنیادی سہولتیں میسر آئیں گی۔ علاوہ ازیں پاکستان کو درپیش بہت سے چیلنجز قابل تعامل ہیں‘یعنی ان کا ردعمل بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ ووٹروں کی توقعات بہت بلند ہیں اور عمران خان کی سیاسی صلاحیتیں بھی لامحدود اور اخلاقی اتھارٹی مسلمہ ہے۔
بھارت میں مودی کی مثال کو سامنے رکھا جائے‘ تو اس کے برعکس ‘ حوصلہ مند عمران خان نے سیاسی کھیل کو آسان کر دیا ہے۔ انہوں نے بہت اچھا آغاز کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت یا دوسرے لفظوں میں یوںکہئے کہ کل انسانی آبادی کے پانچویں حصے کی قسمت ‘مردانگی سے بھرے ان دو لیڈروں کے ہاتھ میں ہے۔بہر حال حوصلہ مند عمران ‘ عوام کو مایوس نہیں کریں گے‘‘۔