ایک 2007ء والا پاکستان تھا۔ سوات سے لے کر شمالی اور جنوبی وزیرستان ‘ فاٹا ‘ بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردوں نے یا تو اپنی حکومتیں قائم کر لی تھیں یا شہروں کا امن و امان بری طرح سے تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔ مارشل لا کے نتیجے میں ایک فوجی آمر کی حکومت قائم تھی ‘ جو عوامی حمایت کھو چکا تھا۔ الیکشن کمیشن اور نیب اس کے گھر کی لونڈی تھی ۔ دنیا پاکستان کو ایک ناکام ملک قرار دے چکی تھی ۔ اس کے بعد وہ کچھ ہوا‘صرف ایک عشرے میں اس قدر بڑی تبدیلیاں آئیں کہ آج بھی ذہن ان کو تسلیم نہیں کرتا۔
ملک میں ججوں کی بحالی کی ایک تحریک چلی ۔ اس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو آج کوئی حکمران اپنی بات ماننے پر مجبور نہیں کر سکتا ۔نوبت یہاں تک پہنچی کہ بادشاہ جب اپنے اثاثوں کی وضاحت پیش نہ کر سکا‘ تو اسے جیل کی ہوا کھانی پڑی ۔ 2007ء میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔فوج نے سوات‘ جنوبی اور شمالی وزیرستان ‘کراچی‘ بلوچستان اور فاٹا میں پے درپے آپریشن کر کے امن بحال کر دیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی اداروں میں دم خم پیدا ہوا ہے ۔ میڈیا آزاد ہے ۔ مخصوص ایجنڈوں پر کام کرنے والے بھی موجود ہیں‘ لیکن جو آزادصحافت کرنا چاہیں ‘ انہیں کوئی روک نہیں سکتا ۔ الیکشن کمیشن آزادی سے فیصلے کر رہا ہے ۔ نیب کے چیئرمین نے بیان جاری کیا ہے کہ بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالیں گے۔ جنرل مشرف کے دور میں بالآخر نیب کا کام صرف ان کے سیاسی حریفوں کو تنگ کرنا اور انہیں گھیر گھار کے قاف لیگ میں شامل کرنا تھا۔
یہ وہ حالات ہیں ‘ جن میں ملک بہتری کی طرف بڑھ رہا ہے ۔منی لانڈرنگ کے ایک مقدمے میں ایف آئی اے زرداری صاحب اور ان کی ہمشیرہ کو طلب کر رہی ہے ۔ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ آصف علی زرداری اور نواز شریف نے قمر زماں چوہدری‘ جیسے خوشامدی افسر کو چیئرمین نیب لگایا تھاکہ دونوں جماعتوں کی لیڈرشپ سمیت اشرافیہ کو گناہوں سے پاک کرنے کا م تیز کیا جائے ؛حتیٰ الامکان انہوں نے احکامات کی تعمیل کی ۔
جہاں یہ سیاسی اور انتظامی کامیابیاں سامنے آئی ہیں ‘ وہیں یہ المیہ بھی کہ جنرل پرویز مشرف اور قاف لیگ کی معاشی کارکردگی بعد میں آنے والی سب حکومتوں سے بہتر رہی ۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے معاشی طور پر ایک تباہ حال پاکستان تحریکِ انصاف کے حوالے کیا ہے ۔ ملکی قرض اس وقت 26ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے ۔ ان قرضوں کی قسطوں اور ان کے سود کی ادائیگی ہی اس قدر بڑا چیلنج ہے کہ ایک عام شخص‘ جس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
چند برس قبل چوہدری نثار علی خان نے ایک بہت طاقتور شخص پہ ہاتھ ڈالا تو وہ سندھ کی طرف فرار ہوا۔صوبہ سندھ میں ہزاروں ایکڑ زمینیں الاٹ کی گئیں ؛حتیٰ کہ اداروں نے محسوس کیا کہ پورا صوبہ ہی اونے پونے داموں نہ بیچ دیا جائے گا۔ ادارے بھرپور حرکت میں آئے ‘ ہزاروں ایکڑ زمینوں کی الاٹمنٹ منسوخ ہوئی ۔ چوہدری نثار کے بھرپور تعاون کے بعد نے نیب پر دبائو ڈالا ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ سندھ رینجرز نے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سمیت اہم عمارتوں پر چھاپے مارے تھے‘ جس پہ بڑی ہاہا کار مچی تھی۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے بعد زرداری صاحب طویل عرصہ دبئی میں دبک کر بیٹھے رہے تھے۔
چوہدری نثار علی خان کو متکبر کہا جا سکتاہے ‘ انا پرست کہا جاسکتاہے ۔ منتقم کہا جا سکتاہے۔ بزدل اور نکما نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے اسلام آباد میں کئی دہائیوں سے ریاست کے اندر ریاست بنے ہوئے ایک غنڈے پر ہاتھ ڈالا اور اسے جیل میں ڈالا۔ دوسرے شخص پہ ہاتھ ڈالا‘ جو ہر کسی کو خرید لیتا تھا اورآخر کار اسے زرداری صاحب کے پاس کراچی میں پناہ لینا پڑی‘ یعنی چوہدری نثار علی خاں نے کبھی بھی نواز شریف جیسوں کے بوٹ نہیں چاٹے ۔
خیر مرکز اور پنجاب میں تحریکِ انصاف حکومتی سازی کی طرف بڑھ رہی ہے ۔ اب یہ اس کا سر درد ہے کہ ایک بہت بڑے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے ملک کو معاشی بحران سے پانچ سال میں بتدریج باہر نکالے۔ عوام کا کام ووٹ دینا تھا‘ وہ اس نے دے دیا ۔ اب عمران خان صاحب یہ ثابت کریں کہ ان کے پاس مسائل کا کوئی حل موجود تھا‘ جس کے بل پر وہ 22سال تک عوام سے انہیں وزیر اعظم بنانے کی فرمائش کر تے رہے ۔ تاریخ میں بے شمار ایسی قوموں کی رودادموجود ہے ‘جو اس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ معاشی صورتِ حال کا سامنا تھا۔ تحریکِ انصاف کے لیے اصل چیلنج معاشی بحران ہے ‘ جبکہ ان کے سیاسی دشمن‘ بالخصوص مولوی صاحبان ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے ۔
جو لوگ دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں ‘ ان میں اس وقت سب سے زیادہ دلچسپ حرکات مولوی حضرات‘ بالخصوص مولانا فضل الرحمن کی ہیں ۔کوئی پیپلزپارٹی سے پوچھے کہ اس الیکشن میں آپ نے 43سیٹیں جیتی ہیں ۔2013ء میں تو یہ صرف 31تھیں ۔ جماعت ِ اسلامی نے 2013ء میں صرف چار سیٹوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہی ہے کہ اس کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے ۔ سوائے جنرل پرویز مشرف کے دور میں افغانستان میں امریکی جنگ کے نتیجے میں ملنے والی غیر معمولی کامیابی کے‘ مولوی حضرات نے کب قومی سطح پر کامیابی حاصل کی ہے ۔ اے این پی کو گزشتہ انتخابات میں قومی اسمبلی کی صرف 2سیٹیں ملی تھیں ۔ 2008ء میں اگر انہیں صوبائی حکومت ملی ‘تو صر ف اس وجہ سے کہ عمران خان الیکشن لڑ ہی نہیں رہا تھا ۔ اس سے پہلے یا بعد میں کب اے این پی یا جمعیت علمائے اسلام نے ملک بھر میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ؟
آج کا سب سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن عمران خان کو ڈانٹ کے کہہ رہے ہیں کہ کابینہ سازی سے باز رہیں اور دوسری جماعتوں کو حکومت بنانے کا موقعہ دیں ۔دینی جماعتوں کا یہ اتحاد کل ملا کر 12سیٹیں جیت سکا ہے اور 116سیٹوں والے کو حکم دے رہا ہے کہ حکومت سازی نہ کرے ۔ عمران خان کے خلاف بننے والے اس عظیم اتحاد ‘ بالخصوص ایم ایم اے اور اے این پی والوں کی حالت یہ ہے کہ گنجی دھوئے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ یہ سب اب سیاسی بونے بن چکے ہیں ‘ جن کے شورو غل کی اب کوئی اہمیت نہیں ۔ تحریکِ انصاف کے لیے اصل خطرہ معیشت ہے ۔ ملکی قرض 26ہزار ارب روپے سے تجاوز کر چکا ۔ ہر سال بجٹ خسارہ بڑھتا چلا جارہا ہے ۔برآمدات اور درآمدات کا فرق انتہا کو پہنچ چکا ہے ۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے ملک کو معاشی طور پر مکمل تباہ کر کے تحریکِ انصاف کے حوالے کیا ہے ۔ صرف دس سال پہلے یہ اندرونی اور بیرونی قرض صرف چھ ہزار ارب روپے تھا۔
عمران خان معیشت کی طرف توجہ دیں ۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کا ڈنک نکل چکا ہے ۔ظاہر ہے کہ عمران خان‘ نون لیگ میں فارورڈ بلاک نہیں بنائیں گے ۔ میاں شہباز شریف جو 2008ء سے 2013ء قاف لیگ کے فاورڈ بلاک کی مدد سے پنجاب میں حکومت کرتے رہے ‘ انہیں بھی قوم سے معافی مانگنی چاہیے ۔ تحریکِ انصاف کوپنجاب میں لازماً حکومت بنانی چاہیے ۔ شریف برادران تین عشروں سے پنجاب میں حکومت کر رہے ہیں ۔ ایک ذرا برابر بہتری وہ لا نہیں سکے ۔ اب کس برتے پر دوبارہ حکومت بنانے کے درپے ہیں ؟