تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     02-08-2018

… تازہ ہوا چلی ہے ابھی !

قوم جس سیاسی استحکام کی متمنی اور متلاشی تھی‘ وہ اس حد تک تو حاصل ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ سکون کا سانس لیا جاسکے۔ حالیہ عام انتخابات کے نتائج اب شرح و بسط کے ساتھ سامنے آچکے ۔ ان نتائج کا پوری دیانت اور غیر جانب داری سے تجزیہ کیا جائے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک بھر میں تبدیلی کی ایک جاندار لہر اٹھی ہے۔ یہ لہر کس حد تک جائے گی یہ کہنا آسان نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بہت سے معاملات درست ہو بھی جائیں اور قوم کے آنسو قابلِ ذکر اور قابلِ اطمینان حد تک پُنچھ بھی جائیں‘ مگر خیر‘ ابھی سے توقعات کا پہاڑ کھڑا کرنا درست نہیں‘ کیونکہ یہ پہاڑ جن کاندھوں پر جا بیٹھے گا اُن پر اور بھی بہت سے معاملات کا بوجھ ہے۔ اہلِ وطن کو ضرورت اور گنجائش سے زیادہ خوش فہمیاں اور خوش گمانیاں پروان چڑھانے پر حقیقت پسندی کو ترجیح دینا ہوگی۔ معاملات کو زمینی حقائق کی روشنی میں دیکھا اور پرکھا جائے تو راتوں رات کسی بڑی تبدیلی کی توقع رکھنے سے اجتناب کی گنجائش پیدا ہوگی اور یوں دِل شکنی کی گنجائش بھی بہت کم رہ جائے گی۔ 
یہ تو ہوا گھر کا معاملہ۔ آئیے‘ اب ذرا باہر کی طرف دیکھتے ہیں۔ خیال کیا جارہا تھا کہ عمران خان کی آمد پر پڑوس میں زیادہ حوصلہ افزا ردعمل دکھائی نہ دے گا‘ مگر خوشگوار حیرت کا مقام ہے کہ بھارت نے مثبت اشارے دیئے ہیں۔ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے آثار نمایاں ہوتے ہی بھارت کے بہت سے سیاست دانوں نے دو طرفہ تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے امید افزا باتیں شروع کردی ہیں۔ برکھا دت اُن بھارتی صحافیوں میں سے ہیں‘ جو پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے خاصی پُرجوش اور متحرک رہی ہیں۔ انہوں نے انتخابی نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان سے دوستی بڑھانے کے حوالے سے اظہارِ رائے شروع کردیا اور ایک شاندار و امید افزا مضمون لکھ کر بھی حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ 
مقبوضہ جموں و کشمیر کی سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر زور دیا ہے کہ وہ عمران خان کی طرف سے بڑھایا جانے والا دوستی کا ہاتھ تھام لیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی نے محبوبہ مفتی کے مشورے پر کان دھرا ہے‘ کیونکہ ان کی طرف سے بھی مثبت اشارے ملے ہیں۔ نئی دہلی کے پالیسی میکرز اور دیگر ''نیشنل سٹیک ہولڈرز‘‘ معاملات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ بہر کیف‘ انتہائی خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں قیادت کی سطح پر رونما ہونے والی نمایاں تبدیلی کو بھارت میں شک کی نظر سے دیکھنے والے زیادہ بڑی اور نمایاں تعداد میں سامنے نہیں آئے۔ کھلاڑی اور اداکار دونوں ہی طبقے اس تبدیلی کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ اہلِ دانش بھی کہہ رہے ہیں کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ اچھا‘ گھبرائیں کیا! 
پاکستان کے گلشن ِ سیاست میں چلنے والی تازہ ہوا کو امریکا نے اب تک پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ اور اب تک کے ریکارڈ کی روشنی میں اہلِ پاکستان کو امریکی رویّے پر زیادہ حیرت ہونی چاہیے نہ تاسّف۔ پہلے مرحلے میں انتخابی عمل کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کرکے دودھ میں مینگنیاں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان کیا کر پائیں گے اور معاملات کو کس حد تک درست کر پائیں گے اس حوالے سے امریکی اور برطانوی میڈیا میں اب تک شکوک و شبہات ہی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف امریکی قیادت نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ وہ پاکستانی معیشت کو بحال کرنے کی کوششوں کو بھی زیادہ کامیاب دیکھنا پسند نہیں کرے گی۔ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈز کی جانب سے کسی ممکنہ بیل آؤٹ پیکیج کے حوالے سے کہا ہے کہ امریکا ایسے کسی بھی بیل آؤٹ پیکیج کے خلاف جائے گا‘ جس کے ذریعے چین غیر معمولی فائدہ اٹھا سکتا ہو۔ سی این بی سی سے انٹرویو میں مائک پومپیو یہ بھی کہا کہ پاکستان کو دیئے جانے والے بیل آؤٹ پیکیج سے چین کے قرضے چکانے کی اجازت کسی طور نہیں دی جائے گی۔ اس سے ایک دن قبل برطانوی اخبار فائنانشل ٹائمز نے اطلاع دی تھی کہ پاکستان کے کلیدی مالیاتی حکام 12 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے کے حوالے سے مساعی پر غور کر رہے ہیں۔ مائک پومپیو کا کہنا تھا کہ کوئی کسی خوش فہمی میں نہ رہے۔ امریکا صورتِ حال پر باریکی سے نظر رکھے ہوئے ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق آئی ایم ایف کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے کسی بھی طرح کے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے تاحال باضابطہ درخواست دی ہے‘ نہ اُس کے کسی اعلیٰ افسر نے رابطہ کرکے کوئی بات کی ہے۔ 
محکم رائے رکھنے والے جہاں دیدہ تجزیہ کاروں اور کلیدی کاروباری شخصیات کا کہنا ہے کہ پاکستان کو پانچ سال میں دوسری بار بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت پڑے گی ‘تاکہ مالیاتی بحران کو کنٹرول کیا جاسکے۔ مزید یہ کہ امریکہ نہیں چاہتا کہ ترقی پذیر ممالک کو بنیادی ڈھانچا بہتر بنانے کے لیے پیکیجز دیئے جائیں ‘کیونکہ اس کے نتیجے میں اُن پر قرضوں کا بوجھ بڑھے گا۔ 
اس صورتِ حال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے لیے اقتدار پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا جانے والا حلوہ نہیں‘ جسے مزے لے لے کر چپاچپ کھالیا جائے۔ اس نوالے میں کئی کنکر بھی ہیں۔ کھانے کا مزا کِرکِرا کرنے کا کوئی بھی سنہرا موقع مخالفین اور بدخواہ ہاتھ سے جانے نہ دیں گے۔ خان صاحب کو یہ نکتہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اقتدار برقرار رکھنا تنے ہوئے رسّے پر چلنے سے کم پیچیدہ عمل نہ ہوگا۔ 
شمع جلتی ہے تو پروانے کِھنچے چلے آتے ہیں۔ عمران خان بھی بزمِ اقتدار میں جل اٹھنے والی نئی شمع ہیں۔ پروانوں کی آمد شروع ہوچکی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ پروانے جان نچھاور کرنے سے زیادہ شمع کو بدنام کرنے پر تُلے ہوئے ملیں گے۔ تحریکِ انصاف کے سربراہ کو لٹھ لے کر پیچھے پڑ جانے والے پروانوں سے بچنا اور کسی نہ کسی طور اپنے آپ کو روشن رکھنا ہے۔ 
قوم تازہ ہوا کا بھرپور لطف لے رہی ہے۔ ایک نیا‘ خوشگوار موسم دل و نظر کی دہلیز پر قدم رکھ چکا ہے۔ ایک بار پھر امیدوں پر شباب کا عالم ہے۔ قوم نے ایک بار پھر آنکھوں میں سو طرح کے خوش کُن خواب سمولیے ہیں۔ فضا معطّر محسوس ہوتی ہے۔ بقول ناصرؔ کاظمی ؎ 
دل میں اِک لہر سی اُٹھی ہے ابھی 
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی 
اس بدلے ہوئے موسم کو ‘یعنی خوش دکھائی دینے والی تبدیلی کو برقرار رکھنے کے لیے عمران خان کو گام گام احتیاط کا دامن تھامے رہنا ہوگا۔ دشمن اور بدخواہ اندر بھی ہیں اور باہر بھی۔ ایسے میں اُن کے لیے سُکون کا سانس لینے کی گنجائش کم ہے۔ اور وقت تو اور بھی کم ہے اور مقابلہ سخت ہے‘ یعنی کئی کام پڑے ہیں جو بہر طور کرنے ہیں۔ وہ کھلاڑی رہے ہیں‘ اس لیے اچھی طرح جانتے ہیں کہ فیصلے اور عمل کے معاملے میں ٹائمنگ کی کیا اہمیت ہے۔ سیاست کے گلبن میں جشن ِ بہاراں کا دورانیہ بڑھانے کے لیے تحریکِ انصاف کے سربراہ کو اپنے صلاحیت اور سکت سے بھرپور انصاف کرنا ہوگا‘ یعنی رُکے بغیر‘ سانس لیے بغیر کام کرتے رہنا ہوگا۔ تازہ ہوا ضرور چلی ہے‘ مگر اس کے جھونکوں کے مزے لیتے ہوئے‘ جشن ِ فتح مناتے وقت یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ بادِ صَرصَر بھی تعاقب میں ہے۔ عمران خان کرکٹ کی زبان زیادہ سمجھتے ہیں۔ اب اُنہیں کہیں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنا ہوگی‘ کہیں ون ڈے کرکٹ سے کام لینا پڑے گا اور ضرورت پڑنے پر کہیں کہیں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کے بھی درشن کرانا ہوں گے۔ ہماری دعا ہے کہ عمران خان کو اب جو میدان ملا ہے‘ اُس میں کہیں بھی رسمی کارروائی جیسے تین روزہ میچ کی کیفیت پیدا نہ ہو۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved