تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-04-2013

واعِظ کے مُنہ سے آنے لگی بُو شراب کی!

گرمی بڑھتے ہی سیاست کی گرم بازاری بھی بڑھنے لگی۔ بہت کچھ واضح ہو جانے کے باوجود ہر طرف بے یقینی، انتشار اور بد حواسی چھائی ہوئی ہے۔ جیسے ٹرین شہر سے باہر سگنل پر رُک گئی ہو! قوم کو اپنی باری کا انتظار ہے یعنی ووٹ ڈالنے کے لیے بے تاب ہوئی جاتی ہے۔ انتظار کے لمحات خاصے جاں گُسل ہوتے ہیں۔ جاں نثار اخترؔ نے کہا ہے ؎ ہائے یہ انتظار کے لمحے جیسے سِگنل پہ رُک گئی ہو ریل! محسوس ہوتا ہے کہ قوم کی ٹرین منزل سے کچھ دور بے یقینی کے ویرانے میں رُکی ہوئی ہے۔ معاملہ بے یقینی کے ویرانے کا ہے تو جمہوریت کی جمع پونجی کے لُٹ جانے کا خوف بھی بڑھتا جارہا ہے۔ بہت کچھ ہے جو سمجھ میں نہیں آ رہا۔ آسانی سے سمجھ میں آ جانے والی بات یہ ہے کہ مُلک کی رہبری کے دعویدار نہیں چاہتے کہ لوگ کچھ سمجھیں! شعوری کوشش ہے کہ بد حواسی، بلکہ بے حواسی برقرار رہے۔ یعنی عوام میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت پیدا نہ ہو اور اگر یہ صلاحیت موجود ہو تو بروئے کار نہ لائی جاسکے۔ انتخابات کا زمانہ کیا وارد ہوا، قوم کے لیے تو تماشوں کا اہتمام ہوگیا۔ قدم قدم پر دنگل ہو رہے ہیں۔ اور دنگل بھی نُورا کشتی کے! مفاہمت کی سیاست عجیب رنگ بکھیر رہی ہے اور عجیب تر گُل کِھلا رہی ہے۔ رُوٹھنے کا ناٹک رچایا جارہا ہے اور مَنانے کی اداکاری ہو رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہیں جیسے وہ ایک دوسرے کو دھوکا دے رہی ہیں۔ اور یہ سب کچھ خاصی بے فکری اور اِس یقین کے ساتھ کیا جارہا ہے کہ قوم تو کچھ سمجھے گی نہیں۔ ہاں، قوم تو جیسے گھاس کھاتی ہے! نام نہاد جمہوریت کو تسلسل سے ہمکنار رکھنے کے نام پر ہونے والا ہر تماشا دیکھ کر لوگ حیران ہیں۔ جمہوری تماشے کے مرکزی کرداروں نے ایک بڑی کامیابی تو حاصل کرلی۔ قوم واقعی فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچلی ہے! کوئی اندازہ نہیں لگا پارہا کہ کون کتنا بڑا اداکار ہے! عوام یہ سوچ سوچ کر حیران ہیں کہ یہ سارے ڈرامے کیا کیا سین دِکھائیں گے؟ ہر ڈراما درجنوں کہانیاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ ہر سین میں درجنوں سین اور ہر ایکٹ میں بیسیوں ایکٹ پیوست ہیں! یہ سارے تماشے مل کر کچھ ایسا منظر پیش کر رہے ہیں جیسے پردے پر اُلٹی فلم چل رہی ہو! کچھ عرصہ قبل ’’نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کا غلغلہ بلند ہوا تھا۔ اصطلاح نئی ضرور تھی مگر الفاظ جانے پہچانے تھے۔ بس، ذرا ترتیب بدل گئی تھی۔ ہم پانچ سال سے ’’سٹیٹ نان ایکٹرز‘‘ کو بھگتتے تو آئے ہیں! اب سٹیٹ تو پتہ نہیں کِس کونے کُھدرے میں جا چُھپی ہے۔ اور ہمارے سامنے صرف ایکٹرز رہ گئے ہیں! اور اِن میں بھی خاصے بھونڈے قسم کے اوور ایکٹرز زیادہ ہیں! پاکستان کے عوام نے اپنا سیاسی مُقدّر خاصی محنت کے بعد تراشا ہے۔ جمہوریت کے نام پر شخصیت پرستی کا طوق گلے میں ڈال کر چند چہروں کی غلامی اختیار کرلی گئی ہے! حالات بہتر بنانے کے وعدوں سے بہل جانے کی وبا عام ہے۔ طبیعت زیادہ گھبرائے تو پنجابی فلموں کی معروف و مقبول جُگت اور بڑھک کے چٹخارے والے دعووں سے لُطف اُٹھائیے! ہزار مَنّتوں، مُرادوں کے نتیجے میں جمہور کی سُلطانی (!) کا زمانہ آتا ہے مگر کوئی بھی نقش کُہن مِٹ نہیں پاتا یعنی جمہور کُش اقدامات کِسی صورت جان نہیں چھوڑتے۔ جمہوریت کے نام پر نازل ہونے والے ایسی مار مارتے ہیں کہ لوگ طالع آزماؤں کی دُہائی دینے لگتے ہیں۔ عوام کے بے حد اِصرار پر تشریف لانے والے طالع آزما ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ بے چارے عوام گھبراکر پھر اُنہی کو یاد کرنے لگتے ہیں جو جمہوریت کا صرف راگ الاپتے ہیں، مفادِ عامّہ کے لیے کرتے کچھ نہیں۔ اب کچھ برسوں سے شاید باری طے ہوگئی ہے! جمہوری معاشروں میں ویسے تو سیاست دان عوام سے رابطے میں رہتے ہی ہیں مگر جب انتخابات سر پر ہوتے ہیں تو یہ سلسلہ تیز کردیا جاتا ہے۔ عوام ووٹ کے ذریعے احتساب کے خواہش مند ہوتے ہیں اور چار یا پانچ سال تک مُلک کا نظام چلانے والے خود کو خوشی خوشی احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں۔ (ذرا سوچیے کہ ایسے ماحول میں جمہوریت کا کیا خاک لُطف آتا ہوگا!) ہم شاید کِسی اور دُنیا کا جمہوری کلچر رکھتے ہیں۔ یہاں سیاست دان‘ عوام اور اُن کے مفادات کو سَرد خانے میں ڈال کر آپس میں رابطے بڑھاتے ہیں! اچھا ہے، پہلے طے کرلیں کہ قربانی کے بکروں کو کِس طرح ذبح کرنا ہے! جن کی شکل دیکھنا گوارا نہ ہو، اُن سے محبت کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں۔ کیسے اُصول؟ کون سے نظریات؟ کہاں کی اقدار؟ مشترکہ مفادات کی سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے! پولنگ کا مرحلہ ابھی دور ہے مگر انتخابی نتائج کے تعین کی کوشش ہو رہی ہے! قوم کی رہبری کے دعویدار ہر معاملے میں صرف اپنے یعنی انفرادی مفاد کو تحفظ دینے کی سوچ رہے ہیں۔ اِن کے مُنہ سے نکلنے والی ہر بات اور اِن کا ہر عمل مفاد پرستی کی چُغلی کھا رہا ہے۔ اِسی کیفیت کو بابائے خُمریات ریاضؔ خیر آبادی نے یوں بیان کیا ہے۔ ؎ کم بخت نے شراب کا ذِکر اِس قدر کیا واعِظ کے مُنہ سے آنے لگی بُو شراب کی! سیاسی جماعتوں کو انفرادی و ’’اتحادی‘‘ استحکام سے فُرصت ملے تو سوچیں کہ اِس مُلک میں عوام بھی بستے ہیں اور اُن کی بھلائی کے بارے میں بھی سوچنا ہے! مُلک اور قوم کو اتحاد کی اشد ضرورت ہے مگر اتحاد کا میلہ بھی بظاہر مُلک اور قوم کے خلاف ہی سجایا جارہا ہے! پتہ نہیں قوم کی مشکلات کا تدارک بھی سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں کہیں ہے یا نہیں۔ اور ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے اہل سیاست نے کیا طے کیا ہے۔ قوم کو رہنے دینا بھی ہے یا نہیں! سرحدیں جس انداز سے کُھلی ہوئی ہیں اور دُنیا بھر سے لوگ جس قدر آزادی سے مُلک میں آ رہے ہیں اُس سے تو ایسا لگتا ہے جیسے یاروں نے قوم ہی کو replace کرنے کا پروگرام بنا رکھا ہے! اقتدار کی چرا گاہ میں چَرنے والے قوم کو بھول گئے ہیں اور کِسی کو اِتنا ہوش نہیں کہ اُنہیں یاد ہی دِلا دے! جمہوریت کے تحت ملنے والے مینڈیٹ کی میعاد بھی پانچ برس ہے اور قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے بنائے جانے والے منصوبے بھی پنجسالہ ہوتے ہیں۔ لوگ جمہوری لوٹ مار کے پنجسالہ منصوبوں کو بھگتتے بھگتتے اب پنجسالہ ترقیاتی منصوبوں کو بُھول بھال گئے ہیں! جو مزید پانچ سال کے لیے مُلک کے نظم و نسق کے نئے سیٹ اپ کا حصہ بننے کو اُتاؤلے ہوئے جارہے ہیں کوئی اُنہیں یاد دِلائے کہ قوم منتظر کھڑی ہے۔ آپس کی کشمکش، مَکّاری اور رسّا کشی سے کچھ فُرصت مِلے تو قوم کی طرف بھی دیکھ لیں جس کی ابتر حالت چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے۔ ؎ جب ہم ہی نہ مہکے، پھر صاحب تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved