پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی ‘بلوچستان سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 263 سے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار صلاح الدین سے شکست کھا گئے ‘لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ اسلام آباد میں بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے متحدہ مجلس عمل کے مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کندھے سے کندھا ملائے‘ یک زبان ہو کر فرما تے ہیں کہ انتخابات میں ان کے ساتھ زبردست دھاندلی کی گئی ہے ۔ دنیا میڈیا گروپ کی جانب سے حبیب اکرم کی ٹیم کے ذریعے ملک بھر کے انتخابی حلقوں میں عوامی سروے میں صاف نظر آ رہا تھا کہ تحریک ِانصاف‘ خیبر پختونخوا میں پہلے سے بھی زیا دہ اکثریت سے جیتے گی اور یہی صورتحال جنوبی پنجاب کے بارے میں بتائی جا رہی تھی‘ کیونکہ وہاں سے پی ٹی آئی اور آزاد امیدواروں نے80 فیصد سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کیں اور نون لیگ کی صرف چند نشستیں حاصل کر سکی اور وہ بھی پی ٹی آئی کی ناقص حکمت ِعملی کی وجہ سے ممکن ہوا ۔پشاور کے حلقہ این اے 4 کے ضمنی انتخاب کے انتخابی نتائج سے25 جولائی کے انتخابات میں خیبر پختونخواکے عوام کے شعود کا اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ جہاں نون لیگ کی مرکزی حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ حلقے میں جگہ جگہ بجلی کے کھمبے اور ٹرانسفامرز اور گیس کی پائپ لائنوں کے انبار لگاتے ہوئے‘ ووٹروں کو بجلی اور گیس کی فراہمی کے نام پر دھوکہ دینے کی پوری کوشش کی‘ لیکن پھر بھی اسے ناکامی ہی دیکھنی پڑی۔
نون لیگ کو انتخابات سے بہت پہلے اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ اس بار انتخابات نہیں جیت سکے گی ۔یہی وجہ تھی کہ اس نے ایک منصوبے کے تحت پہلے سے ہی انتخابات پر شکوک و شبہات پیدا کرنا شروع کر دیئے‘ جس کیلئے اندرونی اور بیرونی میڈیا میں موجود اپنے دوستوں اور تنخواہ داروں کے ذریعے فوج اور عمران خان کے مابین مفاہمت کے مضامین لکھوانے شروع کر دیئے۔ میاں نواز شریف کی وہ تمام تقاریر اور میڈیا سے کی جانے والی گفتگو کا ایک ایک لفظ سامنے رکھیں ‘تو وہ ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھے کہ ان کو شکست دینے کیلئے جیپ کے نشان کے ساتھ ایک نیاگروپ تشکیل دیا جا رہا ہے‘ جس کی سربراہی ان کی جماعت سے منحرف ہونے والے چوہدری نثار علی خان کے سپرد کی جا رہی ہے۔ میاں صاحب کہے جا رہے تھے کہ ان کی جماعت مسلم لیگ ن سے مضبوط لوگوں کو ایک ایسی سواری پر بٹھایا جا رہا ہے‘ جو تیز رفتاری اور اپنی ساخت میں ایک خاص ادارے سے مشابہت رکھتی ہے ‘ تاکہ ووٹرز اور دوسرے لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر بٹھا د یا جائے کہ یہ جیپ والا کوئی کمزور نہیں‘ بلکہ طاقتوروں کا امیدوار ہے۔ نواز شریف اورمریم صفدر نے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر ملک کے قومی ادارے پر جیپ کے نشانات کا حوالہ دیتے ہوئے شرمناک قسم کے الزامات کی بھر پور مہم شروع کر دی اور بد قسمتی کہہ لیجیے یا کچھ اور کہ ملک کے ایک موقر انگریزی اخبارنے ان کی اس مہم کا بھر پور ساتھ دیتے ہوئے‘ اس تاثر کو ابھارنے اور ووٹرز کے ذہنوں میں غلط رائے بنانے کی پوری پوری کوشش کی کہ جیپ کا نشان اسٹیبلشمنٹ کی نشانی ہے ۔
نون لیگ سمیت ان کے حامی میڈیا کے اس جھوٹ اور پراپیگنڈہ کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ بہت سے دیہات اور چھوٹے شہروں کے اندر موجود چھوٹی چھوٹی مقامی اسٹیبلشمنٹ نے ان جیپ سواروں کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لیا۔مخصوص میڈیا گروپ کے انگریزی اخبار نے پانچ جولائی کو یہ خبریں دیتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ جیپ سواروں کی تعداد پنجاب میں65 تک ہو چکی اور ان کی سربراہی چوہدری نثار علی خان کر رہے ہیں‘ جنہوں نے شریف فیملی سے اپنی 33 سالہ دوستی کو نون لیگ کی خاندانی قیا دت کو تسلیم نہ کرنے کے نام پر قربان کر دیا ہے اور یہ بغاوت کسی طاقت کے اشارے کے بغیر نہیں کی جا سکتی ہے ۔ چوہدری نثار علی خان کس طرح بے خبر ہو سکتے تھے کہ2013 ء کے انتخابات میں عمران خان کی مقبولیت کے با وجود ان کو کس طرح شکست دلوائی گئی ۔چوہدری نثار علی خان اپنے راجپوتی خون پر بچوں کی ماتحتی قبول نہ کرنے پر ہیرو تو بن گئے‘ لیکن وہ اپنے پرانے دوست عمران خان کی میڈیا پر اور مشترکہ دوستوں کے ذریعے کی جانے والی اس پیشکش کو قبول نہ کر سکے کہ وہ پی ٹی آئی میں کسی اہم عہدے کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ چوہدری نثار علی خان نے جب عمران خان کی تحریک ِانصاف کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لینے کی اس پیش کش کا اپنے انتخابی جلسوں میں تمسخر اڑانا شروع کیا‘ تو لوگ یقین سے کہنے لگے کہ جیپ کی ڈرائیونگ نشست انہیں کے ہاتھ میں ہے‘ جن کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ حکومتیں وہی بناتے اور گراتے ہیں۔ 5 جولائی کے ہی انگریزی اخبار میں ایک اور سٹوری فائل کی گئی کہ مسلم لیگ ن کے گیارہ مستند ٹکٹ ہولڈرز نے انتخابات کا شیڈول پیش ہونے سے چند دن پہلے نون لیگ کے ٹکٹ واپس کرتے ہوئے آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے اور اپنے لئے اسی جیپ کا نشان منتخب کیا ہے‘ جس کی ڈرائیونگ سیٹ چوہدری نثار کے پاس ہے۔ اس قسم کے تاثر کاشور مسلم لیگ ن اور پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا پر بیٹھے ان کے خاص تجزیہ کاروں نے اس شدت سے کیا کہ ہر ایک کو یقین ہو نے لگا کہ اگلی حکومت ان کی ہی بنے گی‘ جو جیپ کے سوار ہوں گے۔
جب انتخابات میں چند دن رہ گئے‘ تو انتخابات کو پہلے ہی سے مشکوک بنانے کیلئے یہ پراپیگنڈہ اس قدر تواتر سے ہر ٹی وی چینل پرشروع ہوگیا‘ جس میں یقین سے کہا جانے لگا کہ جو بھی پارٹی جیت جائے‘ جیپ کا سٹیرنگ چوہدری نثار علی خان کے پاس ہو گا‘ بلکہ یہاں تک کہا جانے لگا کہ اگلے وزیر اعظم عمران خان نہیں‘ بلکہ چوہدری نثار علی خان ہو گے ۔اس سے یہ ہوا کہ جیپ کے نشانات والے ان حلقوں میںکمزور قسم کا ووٹر اور چھوٹے چھوٹے سرکاری افسران سمیت‘ وہاں کے سیا سی دھڑے کسی دوسرے امیدوار کی مدد کرنے کی بجائے ‘اس بے یقینی کا شکار ہو نے لگے کہ جیپ والوں سے دوستی قائم رکھی جائے‘ نا کہ ان کو ناراض کیا جائے ‘کیونکہ یہ تو اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی خاص آدمی ہیں اور انہوں نے تو ہر حالت میں جیت جانا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر طرف جیپ جیپ اور چوہدری نثار علی خان کا وزیر اعظم کی کرسی سنبھالنے کا طوفان اٹھا دیا گیا۔ یہ خبر سب کے لیے حیران کن ہو گی کہ بلوچستان بھر سے جیپ کے نشان والا صرف ایک امیدوار اپنی نشست بچانے میں کامیاب ہو سکا ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ ملک کی سکیورٹی اور انتظامی امور کے تمام ذمہ دار‘انتخابی نتائج میں تاخیر کی بھر پور انکوائری کروائیں‘ تو ممکن ہے کہ اس کے پس پردہ میاں شہباز شریف کے انتہائی منظور نظر اس مافیا کا وہ ہاتھ سامنے آ جائے‘ جس نے آر ٹی ایس سرور کو کریش کرنے کی کوشش کی۔تحریک ِانصاف کو فوری طور پر نادرا اور پنجاب آئی ٹی کے طاقتوروں کے پاسپورٹ ضبط کرتے ہوئے ‘ان کے باہر جانے پر پابندی عائد کر دینی چاہئے‘ جس سے ہو سکتا ہے کہ ملک میں ہونے والے ہر ضمنی انتخاب میں عوامی مینڈیٹ چرانے کے جرائم کی طویل فہرست اور کوڑے کے ڈھیروں پر گرائی جانے والی بوریوں کے ان سمارٹ شنا ختی کارڈ کے مجرموں تک پہنچنے میں بھی مدد مل جائے۔