تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-08-2018

مراد علی شاہ کی ’’بحالی‘‘

عام انتخابات کا مرحلہ گزر گیا۔ اب سندھ کی سیاست کا رخ کیا ہوگا؟ اہلِ سندھ‘ بالخصوص کراچی سے ہٹ کر زندگی بسر کرنے والوں کے بنیادی مسائل حل کیے جانے کی کوئی سبیل نکلے گی یا نہیں؟ پیپلز پارٹی نے سندھ میں گورننس کے نام پر اب تک رسمی کارروائی پر اکتفا کیا ہے۔ کیا اب وہ کچھ ایسا کرنا چاہے گی‘ جس سے عوام کے لیے بہتر زندگی بسر کرنے کی راہ کسی حد تک ہموار ہوتی ہو؟ یہ اور ایسے ہی دوسرے بہت سے سوالات اہلِ سندھ کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے دوران بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری مل کر تبدیلی کی لہر کے پنجوں سے سندھ کو بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ معاملہ خواہ کچھ رہا ہو‘ اسے آصف زرداری کی بڑی کامیابی گردانا جانا چاہیے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے ‘مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سندھ میں حالات اتنے بہتر ہوسکیں گے کہ عوام کے لیے بہتر زندگی بسر کرنا ممکن ہو؟ 
انتخابی نتائج کے اعلان کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اعلان کیا تھا کہ سندھ میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ہوں گے۔ مراد علی شاہ نے 22 ماہ تک سندھ کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کام کیا ہے اور اس سے قبل صوبائی وزیر خزانہ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں‘ اس لیے سسٹم کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اُن کی ''بحالی‘‘ کا اعلان غالباً اسی حقیقت کے پیش نظر کیا گیا تھا۔ بلاول بھٹو نے ایک خوش آئند فیصلہ کیا‘ مگر یہ خوش آئند فیصلہ پارٹی میں بہت سوں کے نزدیک ذرا بھی خوش آئند نہیں‘ جن کے سروں پر تمنّاؤں اور امیدوں کے ٹوکرے دھرے ہیں‘ وہ بھلا کیوں چاہیں گے کہ مراد علی شاہ ایک بار پھر صوبے کے انتظامی سربراہ کی حیثیت سے مطلعِ اقتدار پر جلوہ افروز ہوں۔ 
ذرائع بتاتے ہیں کہ بلاول ہاؤس میں پی پی پی پارلیمانی پارٹی کے ایک حالیہ اجلاس کے دوران مراد علی شاہ کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بنانے کے معاملے پر اختلافات ابھرے ہیں۔ عذرا پیچوہو‘ فریال تالپور‘ سید ناصر حسین شاہ‘ آغا سراج درانی اور امتیاز شیخ اس منصب کے طاقتور امیدواروں کی حیثیت سے سامنے آئے۔ بلاول بھٹو نے جب سے مراد علی شاہ کو ایک بار پھر سندھ کی وزارتِ اعلیٰ سونپنے کی بات کہی ہے سندھ کے تمام طاقتور سیاسی خانوادے کمر کس کر میدان میں آگئے ہیں اور لابنگ میں مصروف ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں سید قائم علی شاہ کو چوتھی بار سندھ کا وزیر اعلیٰ بنانے کی تجویز بھی پیش کی گئی! 
قائم علی شاہ؟ سوال یہ نہیں ہے کہ شاہ سائیں تین بار وزیر اعلیٰ کے منصب پر رہ چکے ہیں‘ بلکہ یہ ہے کہ اب وہ کم و بیش 85 برس کے ہیں۔ 27 جولائی 2016ء کو اس منصب سے ہٹائے جانے تک وہ تیسری بار کم و بیش سوا تین سال سندھ کے منتخب انتظامی سربراہ رہے اور اس دوران اُن کی حیثیت بہت حد عضوِ معطّل کی سی تھی۔ اور اس میں اُن کا کوئی قصور بھی نہ تھا۔ عمر کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ سندھ کو متحرک وزیر اعلیٰ کی ضرورت تھی اور بہ وجوہ شاہ سائیں کو تیسری بار زحمتِ کار دی گئی۔ اُن سوا تین برس میں شاہ سائیں نے اپنی جسمانی اور ذہنی حالت کے ہاتھوں جو کچھ کیا‘ وہ بھی قوم کے سامنے ہے۔ یہ منصب محض ہدفِ تمسخر بن کر رہ گیا۔ اُن کے حوالے سے ایم ایس ایم کے ذریعے درجنوں لطائف ٹرینڈ کی شکل اختیار کرکے گردش میں رہے۔ صوبے کے انتظامی سربراہ کے منصب پر اتنی عمر رسیدہ شخصیت کو بٹھانا کسی بھی اعتبار سے قرین ِ دانش نہ تھا‘ مگر شاید پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو یہی سب کچھ راس تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ وزیر اعلیٰ کی نشست پر کوئی ایسی شخصیت متمکن ہو‘ جو اپنے ہی وجود میں گم رہے‘ کسی کے لیے خطرہ نہ بنے‘ پریشانی کا باعث ثابت نہ ہو۔ اور اس مقصد کے حصول کے لیے شاہ سائیں سے زیادہ موزوں بھلا کون ہوسکتا تھا؟ 
ملک بھر میں جہاں جہاں مینڈیٹ ہولڈرز نے ڈلیور نہیں کیا تھا‘ وہاں تبدیلی کی لہر آئی اور روایتی مینڈیٹ کو پوری طاقت کے ساتھ بہا لے گئی۔ کراچی میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ کراچی میں قومی اسمبلی کے 90 فیصد امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوئی۔ ان میں پی ایس پی اور اے این پی کے تمام امیدوار شامل تھے۔ ایم ایم اے کے امیدواروں میں صرف عبدالرشید ضمانت بچانے ہی میں کامیاب نہیں ہوئے‘ بلکہ منتخب بھی ہوئے۔ بہر کیف‘ کراچی میں ایم کیو ایم کا حشر بھی بُرا ہوا۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ اُس کے 16 امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوئی! کیا ان گناہ گار آنکھوں کو یہ دن بھی دیکھنا تھے! ایم کیو ایم کے امیدوار اور ضمانت ضبط کرابیٹھیں؟ یقین تو نہیں آتا‘ مگر کیا کیجیے کہ زمینی حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں یقین کرنے کے سوا چارہ بھی نہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جن کی ضمانت ضبط ہوئی‘ اُن میں بلاول بھٹو‘ ڈاکٹر فاروق ستار‘ سید مصطفی کمال‘ سیدہ شہلا رضا‘ آفاق احمد اور شاہی سید جیسے ''نو گزے پیر‘‘ شامل ہیں۔ تبدیلی کی ایسی بھیانک لہر کے دوران سندھ کے اندرونی علاقوں میں پیپلز پارٹی کا بچ رہنا‘ اپنا مینڈیٹ بچا لے جانا انتہائے حیرت کا مقام ہے۔ 
مگر خیر‘ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ اگر آصف زرداری کسی نہ کسی طور سندھ کو بچانے میں‘ یعنی اُسے اب تک پیپلز پارٹی کے زیر اقتدار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں ‘تو یہ بات بھی محلِ نظر ہے کہ لوگ نئی توقعات کے ساتھ پی پی پی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ محض ووٹ مل جانا‘ مینڈیٹ کا برقرار رہ پانا اس امر کی ضمانت نہیں کہ ایسا ہوتا ہی رہے گا۔ سوال اطمینان بخش حد تک ڈلیور کرنے کا ہے۔ پیپلز پارٹی کے لیے کسی بڑی تبدیلی سے بچ نکلنے کا یہ آخری موقع ہے۔ اگر اب بھی اُس نے سنجیدگی اختیار نہ کی‘ ڈلیور کرنے اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کے بارے میں نہ سوچا تو اُس کے لیے آبرو بچانا ممکن نہ رہے گا۔ پارٹی چیئرمین کی حیثیت سے بلاول بھٹو زرداری کو یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ اندرون سندھ پیپلز پارٹی کام کرے‘ لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرے‘ ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرے اور ایسا ماحول یقینی بنائے‘ جس میں عوام کو یہ محسوس ہو کہ وہ اگر پیپلز پارٹی پر جان دیتے ہیں تو کچھ غلط نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے جب مراد علی شاہ جیسے مضبوط اعصاب کے حامل اور متحرک سیاست دان کو ایک بار پھر وزیر اعلیٰ کے منصب پر لایا جائے‘جس میں توانائی ہوگی‘ وہی سندھ میں پیپلز پارٹی کو زندہ رکھنے میں کامیاب ہوسکے گا۔ 
سندھ کا وزیر اعلیٰ متحرک ہوگا‘ تو صوبائی اور شہری حکومت کے درمیان بہتر تعلقاتِ کار کی گنجائش پیدا ہوگی۔ کراچی کے میئر وسیم اختر کی عمر 63 سال ہے۔ مراد علی شاہ 56 سال کے ہیں۔ دونوں عمر کی اُس منزل میں ہیں جہاں قوی اطمینان بخش حد تک ساتھ نبھا رہے ہوتے ہیں۔ مضبوط قوی کے ساتھ دونوں اپنے اپنے ڈومین میں ڈھنگ سے کام کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ کراچی (اور ایم کیو ایم) کا مفاد اس میں ہے کہ وسیم اختر پوری قوت سے کام کریں اور مجموعی طور پر سندھ کا مفاد اس میں ہے کہ مراد علی شاہ جیسا نسبتاً جواں سال‘ مضبوط اعصاب کا مالک وزیر اعلیٰ ہو اور حسب ِ ضرورت بھاگ دوڑ بھی کرے۔ دیکھیے‘ پیپلز پارٹی میں پائے جانے والے سیاسی خانوادے ہماری‘ آپ کی آرزوؤں اور امیدوں کے خلاف کہاں تک جاتے ہیں! 
٭٭٭

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved