تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     04-08-2018

اخلاقیات کا ٹھیکہ

جنہیں ہم قانون نافذ کرنے والے ادارے کہتے ہیں‘ وہ اپنے اخلاق کا کچھ کر لیں اور پاکستانی معاشرے کی اخلاقیات کو پَرے رہنے دیں تو ہمارے اجتماعی ماحول میں خاصی بہتری آ سکتی ہے۔ ناکے پہ کوئی گاڑی روکی جائے اور اُس میں ایک طرف بم اور دوسری طرف بوتل پڑی ہو تو پولیس کی عقابی نظریں پہلے بوتل پہ جائیں گی اور شاید بعد میں کسی اور طرف۔ 
ہمارے زیادہ تر قوانین انگریزوں کے بنائے ہوئے ہیں لیکن غیر ضروری طور پہ کئی قوانین ہم نے اسلام کے نام پہ بنا دئیے ہیں۔ ان غیر ضروری قوانین کے بارے میں کوئی لاکھ کہے‘ یہ اَب لاگو ہی رہیں گے کیونکہ کسی میں ہمت نہیں کہ اِنہیں منسوخ کرے۔ ایسا بہت سے معاشروں میں ہے جہاں پہ غیر ضروری قوانین کتابوں میں موجود ہیں لیکن سمجھداری کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اِن پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ مثلاً تھائی لینڈ میں بہت کچھ غیر قانونی ہے۔ قانونی لحاظ سے وہ تمام ثقافتی سرگرمیاں جن کیلئے بنکاک مشہور ہے، خلاف قانون ہیں۔ لیکن حکام ان سرگرمیوں کو بند آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ دوسری مثال دوبئی کی دی جا سکتی ہے۔ جن شام کی سرگرمیوں کیلئے دوبئی مشہور ہے وہ کہنے کو تو خلاف قانون ہیں‘ لیکن وہاں کے حکام بھی بند نظروں سے اِن سرگرمیوں کو دیکھتے ہیں۔ دنیا جہاں کے سیاح دوبئی آتے ہیں اور مخصوص سرگرمیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ پردہ داری رہتی ہے، کچھ عقل کے تقاضے ملحوظ خاطر رکھے جاتے ہیں اور دنیا کا کام چلتا رہتا ہے۔ 
دیگر بہت سی وجوہات ہیں لیکن دوبئی میں وہاں کے سربراہ جو خاص ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں دوبئی کی ترقی میں اس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ایک زمانہ تھا جب امارات والے پاکستان کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔ آج وہ کہاں پہنچ چکے ہیں اور ہم کشکول لئے پھرتے ہیں‘ لیکن پھر بھی عقل نام کی چیز ہمارے نزدیک سے نہیں گزرتی اور ہم عجیب راہوں پہ چلنے کے لئے بضد ہیں۔
بنکاک سے ہم نے کیا سیکھنا؟ ایسا کہنا بھی پاکستانی معاشرے میں کفر کے مترادف سمجھا جائے گا۔ لیکن امارات برادر اسلامی ملک ہے۔ اُسی سے کچھ سیکھ لیں۔ جیسا اوپر عرض کیا جنرل ضیاء الحق کے بنائے ہوئے قوانین تو ہم سے بدلے نہیں جائیں گے‘ لیکن ہمارے حکومتیں اور حکام ایسی حکمت عملی کو فروغ دے سکتے ہیں‘ جس سے لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور بات بھی بن جائے۔ یعنی یہ کہ حکام‘ خاص طور پہ پولیس اگر نفاذِ اخلاقیات سے قدم پیچھے ہٹا لیں اور اپنے اصلی فرائض پہ توجہ دیں تو یہ ایک بہتر معاشرہ بن سکتا ہے۔ 
یہ تو کہنے کی باتیں ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے نیچے خیبر پختونخوا کی پولیس بہت بہتر ہو گئی۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بہت فرق ہے اور پنجاب پولیس کی ایک خاص نفسیات ہے۔ اس نفسیات میں تبدیلی لانا آسان نہیں۔ پہلے تو پنجاب پولیس کے افسرانِ بالا کی تعلیم نو پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ یہ کہیں سے نصیحت پا جائیں کہ باقی معاملات چھوڑ کے اپنی فورس کی نفسیات بدل سکیں۔ پولیس کا کہیں مجمع اکٹھا ہو تو دو خصوصیات اُن میں سب سے نمایاں جھلکتی ہیں: ایک‘ جہالت دوسری‘ درندگی۔ اس میں تو کوئی تبدیلی آنی چاہیے۔ 
پھر یہ ممکن ہو سکے گا کہ ناکوں پہ پولیس فورس منہ سونگھنے اور نکاح سرٹیفکیٹ پوچھنے کو اتنی ترجیح نہ دے۔ یہ عجیب معاشرہ ہم نے بنا دیا ہے۔ ہیروئن کھلے عام بِک سکتی ہے اور کھلے عام اُس کا استعمال ہو سکتا ہے لیکن پولیس کا دھیان بوتل کی دریافت اور سونگھنے پہ زیادہ رہتا ہے۔ ہر علاقے میں پولیس کو منشیات فروشوں کے بارے میں پتہ ہوتا ہے۔ کئی آدھ پہ مقدمہ بھی بنتا ہے لیکن آخر میں کچھ نہیں ہوتا۔ جو ذہین لوگ دو نمبر بوتل کے سامان بنانے کی مہارت رکھتے ہیں‘ وہ بھی پولیس کے علم میں ہوتے ہیں‘ لیکن منتھلی چلتی رہے تو منشیات فروش اور دو نمبر بوتل والے‘ دونوں محفوظ رہتے ہیں۔ 
ہمارے علاقے کا ایک مشہور منشیات فروش ہوا کرتا تھا۔ اُس کی وفات ہو چکی ہے، اللہ اُس کے درجات بلند کرے۔ ایک دفعہ اے این ایف والوں نے بڑے اہتمام سے اُس پہ چھاپہ مارا، بھاری مقدار میں چرس برآمد ہوئی اور مقدمہ بنا۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ اُن صاحب کے رفقا نے تفتیشی افسر سے رابطہ قائم کیا۔ ایک لاکھ روپے کی بخشش اُن کی خدمت میں پیش کی گئی۔ تفتیشی انسپکٹر‘ جو بہت بھلے آدمی تھے‘ مذکورہ صاحب کے وکیل صاحب کے پاس لائے گئے اور جو وکیل صاحب نے کہا، تفتیشی نے بعینہ ضمنی میں لکھ ڈالا۔ ہائی کورٹ میں ضمانت ہو گئی اور پھر کچھ عرصے بعد کیس ختم ہو گیا۔ وہ صاحب تو اللہ کو پیارے ہوئے، اب اُن کے فرزندان کاروبار چلا رہے ہیں۔ پولیس ہاتھ کس پہ ڈالتی ہے، وہ جو تھوڑا بہت سُوٹا لگاتے ہوں اور سرِ راہ پولیس کے ہتھے چڑھ جائیں۔ یہ صورتحال کیسے تبدیل کی جا سکے گی؟ پنجاب پولیس کے سامنے یہ بڑا چیلنج ہے۔
دُنیا کہاں پہنچ چکی ہے اور ہم کہاں پھنسے بیٹھے ہیں۔ کے پی میں پی ٹی آئی نے ایک اچھا آئی جی لگایا اور اُسے خود مختار بنا دیا۔ اُس کے کام میں سیاسی مداخلت بند ہو گئی۔ تب ہی پولیس کی کارکردگی میں بہتری آئی۔ پنجاب میں امتحان یہ ہو گا کہ ایک اچھا آئی جی چنا جائے۔ اُس کے کام میں کوئی مداخلت نہ ہو اور وہ بھی ایسا آدمی ہو جو فضولیات میں اپنا وقت برباد نہ کرے۔ پنجاب پولیس کے ہر ضلع میں یہ ہدایت جانی چاہیے اور پھر یہ ہدایت تھانوں تک پہنچنی چاہیے کہ اصلی کام پہ توجہ دیں‘ جرائم پہ نظر رکھیں اور اخلاقیات کا بوجھ اور کندھوں پر رہنے دیں۔ پنجاب میں منشیات فروشی کو سخت ہاتھ سے کچلنا چاہیے۔ ہیروئن کا استعمال معاشرے کو برباد کرتا ہے۔ اِس پہ نظر ہونی چاہیے۔ سونگھنے، سُنگھانے کی روایت اصلی کام سے توجہ ہٹاتی ہے۔ کھاتے پیتوں سے تو کوئی کچھ نہیں پوچھتا کہ ساتھ کون بیٹھا ہے۔ یہ سوالنامہ لاچاروں کے لئے ہے کہ ساتھ بیٹھی ہوئی خاتون تمہاری کیا لگتی ہے۔ اِس روش کی اَب حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ قانون یہاں بھی ہے۔ قانون دوبئی اور بنکاک میں بھی ہے۔ پاکستان کو تو ایک پروگریسیو اور روشن خیال قیادت کی ضرورت ہے۔ لیکن اُس سے پہلے پنجاب پولیس میں بھی عقل آنی چاہیے‘ اور پروگریسیو سوچ رکھنے والوں کو قیادت کی ذمہ داریاں سنبھالنی چاہئیں۔
ہمارے معاشرے میں گھٹن بہت ہے۔ بہت سے ہمارے طور طریقے فرسودہ ہیں۔ جہاں ایسی صورتحال پائی جائے‘ وہاں ترقی کا تصور بھی محال ہے۔ پارسائی پہ ہم زور ضرور دیتے ہیں لیکن ہماری پارسائی سطحی اور نمائشی ہے۔ جو صحیح معنوں میں اقدار ہونی چاہئیں وہ نہیں ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں جھوٹ بولا جاتا ہے۔ رشو ت عام ہے۔ اقربا پروری پھیلی ہوئی ہے۔ جو کوئی جتنا ہاتھ مار سکتا ہے اُس سے دریغ نہیں کرتا‘ لیکن ہماری باتیں کوئی سُنے تو حیران رہ جائے۔ سطحی پارسائی میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔
بند ذہنوں نے کیا خاک تخلیق کے قابل ہونا ہے۔ یہاں اچھی فلمیں کیوں نہیں بنتیں؟ اچھے ڈرامے کیوں نہیں لکھے جاتے؟ ہم نے جمہوریت کا ایک عجیب مطلب لیا ہوا ہے۔ صحیح جمہوریت تبھی ہو سکتی ہے جب روح کی آزادی ہو، ذہنوں پر قدغن نہ ہو۔ یہاں ایسے موضوع ہیں جن کا برسر عام تذکرہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ کریں تو کوئی فتویٰ داغ دے اور جان کی پڑ جائے۔ مفتیوں کی یہاں کمی نہیں لیکن کم از کم جن کی ذمہ داری ہے قانون کا بیڑہ اُٹھانے کا وہ تو مفتی نہ بنیں۔ یہاں ہر ایک اخلاقیات پہ پہرہ دار بنا ہوا ہے۔ مفتیوں اور زاہدوں کا تو یہ کام ہے۔ اُن سے کیا گلہ۔ جب سے دُنیا بنی ہے یہی بڑی تقسیم ہے، ایک طرف زاہد دوسری طرف گنہگار۔ لیکن یاد رہے کہ دنیا کا بیشتر تخلیقی ورثہ گنہگاروں کے ہاتھوں سے پیدا ہوا ہے۔ زاہد وں کا کام نصیحت کرنا ہے اور وہ کرتے آئے ہیں۔ لیکن زاہدوں کے ہاتھوں کوئی بڑا کام دنیا میں کم ہی ہوا ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved