تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     05-08-2018

سوال بہت ہی سادہ ہے

2013 ء کے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام کا پنجاب سے ایک بھی امیداوار‘قومی اور صوبائی اسمبلی سے کامیاب نہیں ہوسکا تھا‘ جبکہ دوسری طرف جماعت اسلامی کے واحد رکن صوبائی اسمبلی وسیم اختر‘بہاولپور سے تحریک انصاف کی مدد سے منتخب ہونے میں کامیاب ہو سکے تھے۔ 2018ء کے حالیہ انتخابات میں بھی انہیں پنجاب سے وہی 2013ء جیسے نتائج ہی ملے ہیں ‘تو پھر سوال ہے کہ پانچ برس قبل کیا کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کا لالچ دھاندلی پر خاموشی اختیار کئے رہا ؟ پاکستان پیپلز پارٹی 2013ء میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست حاصل کر سکی ‘اور2018ء میں وہ پنجاب سے سات نشستیں جیت کر بھی اپنی ذہنیت سے مجبور ہو کر اپنے قومی اداروںکو بدنام کرنے کیلئے دھاندلی کے سرکس میںشامل ہو کر اپناڈھول پیٹ رہی ہے۔ 
مشتاق یوسفی مرحوم نے لکھا تھا کہ کسی جنگل میں ایک لومڑی کی حادثاتی طور پر دم کٹ گئی‘ اسے تکلیف تو بہت ہوئی‘ لیکن وہ جنگل بھر میں گھومتے ہوئے‘ جس کسی سے بھی ملتی‘ ایک مسکراہٹ سے کہتی کہ تم سب اگر اپنی اپنی دم کٹوا لو‘ تو یقین کرو ‘بہت ہی مزہ آئے گا۔۔۔کسی کا نام لئے بغیر مشتاق یوسفی مرحوم کی ‘اس مثال کو ذہین نشین رکھیے گا۔
اب جب مولانا فضل الرحمن‘ محمود خان اچکزئی‘ اسفند یار ولی خان‘ غلام محمد بلور‘مولانا سراج الحق اور یوسف رضا گیلانی 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں شکست کے بعد خود تو پارلیمنٹ سے باہر ہو گئے‘ لیکن انہیں اپنی اسمبلی نشست خالی رہ جانے کا جودکھ ہے‘ اسے وہ ہر ایک سے مخفی رکھتے ہوئے‘ نون لیگ ‘ پیپلز پارٹی ‘ ایم کیو ایم اور اختر مینگل سمیت ہر چھوٹے بڑے کے کہیں ترلے منتیں‘ تو کہیں پائوںپکڑتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ آپ اس اسمبلی کی رکنیت کا حلف ہی نہ اٹھائیں‘ آپ بھی ہمارے ساتھ باہر ہی رہیں‘ اگر تم سب اپنی رکنیت کا حلف لینے سے انکار کر کے ہمارے ساتھ سڑکوں پر آ جائو گے‘ تو ہم سب پھر سے منتخب ہو جائیں گے۔واہ کیا منطق ہے! 
ایک عام انسان‘ لازمی سوچے گا کہ ممکن ہے کہ یہ بزرگ سیا ستدان انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی جو تکرار کر رہے ہیں‘ وہ درست ہی ہو؟ لیکن کیا یہ منا سب نہیں کہ دھاندلی کے الزامات پر یقین کرنے سے پہلے ‘وہ شور مچانے والوں سے یہ پوچھ لیں کہ جناب اسٹیبلشمنٹ پر دھاندلی اور الیکشن چرانے جیسے‘ مبینہ الزامات کی بارش کرنے سے پہلے‘ اگر ایک نظر اپنے دائیں بائیں دیکھ لیں ‘تو انہیں جواب مل جائے گا۔
اچکزئی صاحب‘ جنہوں نے آپ کے ووٹ چرائے ‘ وہ تو متحدہ مجلس عمل کی شکل میں آپ سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ محمود خان اچکزئی ‘انتخابات سے پہلے نواز شریف کے مشیر اعلیٰ کی حیثیت سے سینہ پھولا کر کہا کرتے تھے کہ وہ افغانیہ نام کی ایسی الگ ریاست بنانے کی جدو جہد کر رہے ہیں‘ جس میں پشتون علاقوں والا بلوچستان ‘ جلال آباد‘ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے علاقوں اٹک اور میانوالی کے اضلاع شامل ہوں گے۔ایک پاکستانی کی حیثیت سے سوچئے کہ اس قسم کے نعرے لگانے والے کو کس طرح پختون بھائیوں کے گھروں سے کامیابی مل سکتی تھی؟
پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگانے والے غیور پٹھانوں نے افغانیہ کے سازشی کو شکست دے دی‘ جسے دھاندلی کا نام دے کر وہ اپنے آنسو بہا رہے ہیں۔ محمود خان اچکزئی ‘جس نے منظور پشتین جیسے افغان خفیہ ایجنسی کے افسر کو اپنے آدمی دیتے ہوئے پاکستان کے قومی اداروں کے خلاف غلیظ زبان استعمال کروائی اور افغانیہ بنانے والے اسی شخص سے شہباز شریف اور ایاز صادق ‘جیسے جپھے ڈال کر اسلام آباد میں راز و نیاز کر رہے تھے‘ تو اس وقت میر جعفر اور میر صادق کے بھولے ہوئے چہرے ہر ایک کو یاد آ نے لگے تھے۔ وہ کیسے پاکستانی ہیں کہ جنہوں نے نواز لیگ سمیت خواجہ سعد رفیق‘ ایاز صادق اور شریف خاندان کے لوگوں کو لاہور یا پنجاب سے یہ جانتے ہوئے بھی ووٹ دیئے کہ ان کا مشیر خاص محمود خان اچکزئی افغانیہ نام کی ایک الگ ریاست بنانا چاہتا ہے ۔ آل پارٹیز کانفرنس‘ جس میں خیر سے لیاقت بلوچ بھی اپنے محسن شہباز شریف کی خوشنودی کیلئے دھاندلی کی باتیں کر رہے تھے‘ ان سے عرض ہے کہ حضور! آپ نے2013ء کے انتخابات میں بھی کل تین ہزار ووٹ حاصل کئے تھے اور اس دفعہ تو آپ کو اس سے کچھ زیادہ ووٹ مل گئے ہیں‘پھر کیا وجہ ہے کہ آپ نے اپنے دوست میاں شہباز شریف کی کامیابی پر 2013ء میں 2700 ووٹ لینے کے با وجود ان کے خلاف دھاندلی کا شور نہیں کیا اور آج جب زیا دہ ووٹ مل گئے ہیں‘ تو پھربھی کہتے ہیں کہ25 جولائی کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے‘ تو پھر سب سے پہلے ‘آپ سے پوچھا جا نا چاہئے کہ اس دفعہ آپ کو زیادہ ووٹ کیسے مل گئے؟ 
مستونگ سے آغا سید محمود شاہ ‘ قلعہ سیف اﷲ سے مولانا واسع‘ پشین سے مولانا کمال الدین ‘ قلعہ عبد اﷲ سے صلاح الدین‘ کوئٹہ سے عصمت اﷲیہ سب لوگ متحدہ مجلس عمل سے تعلق رکھتے ہیں‘ جنہوں نے اچکزئی صاحب کی جماعت کا مکمل صفایا کیا ۔اب اگر مولانا فضل الرحمن کی بات مان لی جائے کہ دھاندلی ہوئی ہے‘ تو پھر مجرم تو متحدہ مجلس عمل کی صورت میں آل پارٹیز کانفرنس کے سامنے ہیں۔
بھارت اور پاکستان کے تین انگریزی اخباروں اور میڈیا گرپس کا25 جولائی کے انتخابات سے کئی روز قبل یک زبان ہو کر پاکستان کے موقر قومی اداروں کو انتخابات کے حوالے سے‘ جس زبان اور جس طریقے سے ٹارگٹ کیا گیا‘ وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیںاور اس کا پس منظر ‘یہ ہے کہ نواز شریف کے خلاف پنامہ اور احتساب مقدمات کیوں قائم 
کئے‘ جبکہ ریکارڈ پر ہے کہ یہی انگریزی اخبارات اور ان کے صحافیوں کا یہ تمام مراعاتی ٹولہ‘ جو اس وقت پاکستانی قومی اداروں کو کہانیاں گھڑ گھڑ کر بدنام کر رہا ہے‘ 1992-93ء اور پھر1998-99 ء میں نواز شریف پر انہی الزامات کے ثبوت دیتے ہوئے طوفان اٹھاتے رہے۔ ان کی تحریریں‘ اگر کوئی دیکھنا چاہتا ہے ‘تو ان تواریخ کے انگریزی اور اُردو اخبارات نکال کر دیکھے جا سکتے ہیں‘ لیکن آج یہی میڈیا گروپس ‘ وہ الفاظ جو 'را‘اور امریکی تھینک ٹینکس کے لوگ‘ جن کا پاکستان کے انگریزی اخبارات سے بہت پرانا مفادات کاتعلق ہے‘ نواز لیگ اور اچکزئی کے ذریعے ہمارے قومی اداروں کو ٹارگٹ کرنے میں مصروف ہیں ۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ محمود خان اچکزئی‘ آل پارٹیز کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق سے گلے ملتے ہوئے فر ماتے ہیں کہ خلائی مخلوق نے میرے اور میری جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے لوگوں کو شکست دی ہے‘تو جناب یہ دھاندلی آپ کے ساتھ کسی خلائی مخلوق نے نہیں‘ بلکہ آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے سراج الحق اور مولانا فضل الرحمن نے کی ہے ‘کیونکہ آپ کو اور آپ کی جماعت کو کسی اور نے نہیں ‘ بلکہ متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی کے8 حلقوں سے شکست دی ہے ۔اور جو باقی دو حلقے‘ جہاں سے آپ کو شکست ملی‘ وہ اسفند یار ولی خان کی عوامی نیشنل پارٹی کی کارستانی ہے اور الزام آپ لگا رہے ہیں کسی خلائی مخلوق پر۔
کیا تحریک انصاف نے مولانا فضل الرحمن اورا سفند یار ولی خان کو مجبور کیا تھا یا انہیں کوئی رشوت دی تھی کہ متحدہ مجلس عمل کے لوگ اور اسفند یار ولی خان کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں شکست دے دیں؟ سوال تو یہ بہت سادہ ہے‘ لیکن اس کا جواب آل پارٹیز کانفرنس نہیں‘ بلکہ پاکستان کی عوام دے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved