تحریر : ڈاکٹر انوار احمد تاریخ اشاعت     02-04-2013

پہلے سے کہہ دیا تھا …

ہمارے ایک دوست کا تکیۂ کلام ہے’ دیکھامیں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا‘۔ بد قسمتی سے وہ یہ بات کسی اچھی خبر کے بعد نہیں کہتے ،زیادہ تر دل کو سونا یا سُنجاکرنے والی خبروں کے بعد یہ نمک پاشی ان کا شیوہ ہے۔بڑی سے بڑی سیاسی ،مالی یا قانونی قیامت وطنِ عزیز پر گزر جائے ،ان کے اپنے گھر کے پیاروں کو کوئی گزند پہنچ جائے یا ان کی اہلیہ محترمہ کو کوئی صدمہ پہنچے تووہ فوراً یہی کہتے ہیں’دیکھامیں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا‘۔ کوئی حادثہ ان کی پیش گوئی کے پچاس برس بعد پیش آئے یا پچاس منٹ بعد،ان کا فوری رد عمل یہی ہوتاہے ۔حتیٰ کہ ایک مرتبہ ان کے بیٹے کو کالے بچھو نے کاٹ لیا تب بھی وہ درد سے تڑپتے بچے کی ماں یعنی اپنی زوجہ محترمہ کے سامنے اپنے اس تکیہ کلام کو استعمال کرنے سے نہیں چُوکے، تب پہلی مرتبہ اس صبر والی خاتون نے برسرِ محفل ہی کہہ دیا:’’شاہ جی،آپ نے کس سے کہا تھا؟بچھو سے کہا تھا؟‘‘ ایک آدھ مرتبہ میں نے دبی زبان میں کہا :شاہ جی آپ کے غیبی اینٹینا پر حادثات کے ہی سگنل کیوں موصول ہوتے ہیں؟ اپنے موکلوں کو کچھ دے دلا کے کوئی سہ ماہی،شش ماہی ،نہیں تو سالانہ ہی ایک آدھ خوش خبری منگوا لیا کرو کہ ہم عرصے سے اچھی خبروں کو ترسی ہوئی قوم ہیں۔ ان مولویوں کو تو اب ہم خوں خوار نظروں سے دیکھتے ہیںجو ایک عرصہ ہمیںآس دلاتے رہے کہ در اصل ہم موجودہ اوصاف اور قیادتوںکے باوجود اللہ کی پسندیدہ قوم ہیں۔ جب سے ہمیں میڈیا کی سپرداری میں دیا گیا ہے بریکنگ نیوز،ہمارے ہاں نروس بریکنگ نیوز یعنی اعصاب شکن خبر بن گئی ہے۔ اعصاب شکن سے یاد آیا کہ ہمارے ایک اور دوست کا نام یاروں نے اے ایس ایم یعنی اعصاب شکن میزائل رکھ چھوڑا ہے ۔صبح صبح تیس چالیس کمزور دل اور ضعیف الایمان دوستوں کو میسیج بھیجتے ہیں کہ اس دنیا کے ختم ہونے میں صرف تین دن باقی رہ گئے ہیں، ہو سکے تو ان کی وہ کتاب پڑھ لیںجس کی ایک قسط وہ تمام احباب کو زبانی سنا چکے ہیں یعنی ’’جہنمیوں کو ایک دھکا اور دو‘‘۔ان کے اس انتباہ پر پہلی مرتبہ دو چار لوگوں نے ضرور توجہ دی اور انہوں نے جلدی جلدی اپنے پسندیدہ جہنمیوں سے ملاقاتوں کو آخری موقعہ سمجھ کر ذرا والہانہ انداز میں ملنا شروع کر دیا۔اپنی پیش گوئی کا بھرم رکھنے کے لئے وہ ایک آدھ دیرینہ دوست کی کسی نہ کسی آخری خواہش (پنشن کے کیس کی تکمیل،نکاحِ ثانی،ناراض بچے کے روٹھ کر گھر سے بھاگ جانے کی واپسی وغیرہ) کا حوالہ دے کر ایک ایک ہفتے کے لئے اس دنیا کی مہلت بڑھاتے جا رہے ہیں۔ہم سب نے ان سے درخواست کی ہے کہ ہو سکے تو اہلِ پاکستان کو گیارہ مئی تک کی آخری مہلت دے دیں،شاید پاکستانی عوام ان انتخابات میں حکمران طبقوں کے دیرینہ واجبات چکانے میں کامیاب ہو جائیںجو بڑی ڈھٹائی سے کسمپرسی کی زندگی جینے والوں کے علاقوں کو اپنے ’آبائی حلقے‘ کہتے ہیں اور اقتدار کے دنوں میں کبھی وہاں قدم رنجہ نہیں فرماتے۔ انہیںاپنے آبا ئو اجداد کے فضائل بیان کرتے دیکھیں اور ان کے اپنے کرتوت دیکھیں تو وہ شخص بے اختیار یاد آ جاتا ہے جو ہانپتے کانپتے گھر میں آیا تھا اور اپنے ابا جی کے پس ماندگان یا وابستگان کو بتا یا تھا کہ ابا جی تو پچھلے چوک پر مار کھا رہے ہیںمگر میں بڑی مشکل سے عزت بچا کے گھر آنے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ ہمارے سینئر دوست ظفر اقبال تو ایک طرح سے خوش ہوں گے کہ امیدواروں کی خوش خیالیاں ایک نئی زبان اور پیرایۂ اظہار تشکیل دے رہی ہیں۔آج تک کسی امیدوار نے سیاسی تجارت کو شاہ محمود قریشی کی طرح ’’روحانی ایڈجسٹمنٹ‘‘ کا نام نہیں دیاتھا۔ویسے آپس کی بات ہے،جس معاشرے میں دعا،تعویذ،دم درود ہی نہیں استخارہ اور اچھا خواب بھی بِکتا ہو اور مختلف امراض رفع کرنے کی دوائیوں کے ساتھ بذریعہ اشتہار درج قیمت کے ساتھ بِکتا ہو،وہاں اس روحانی ایڈجسٹمنٹ کی ترکیب پر بھلا کیا اعتراض کیا جا سکتا ہے؟ بہت پہلے میرے ایک پاک باز رفیق کار کے والدِ محترم کی وفات ہوئی تو میں تعزیت کے لئے وہاں گیا۔وہاں میرے دوست اس گدی پر بیٹھ چکے تھے جس نے غریبوں اور مظلوموں کو قیامت تک صابر و شاکر رہنے کی دائمی ہدایت جاری کر رکھی ہے؛ تاہم مجھے ایک طرح سے خوشی ہوئی جب نئے مسند نشیںمیرے دوست کے چھوٹے بھائی ایک حلقہ میں بآوازِ بلند سرگوشی کر رہے تھے کہ رات ابا جان خواب میں آئے تھے اور فرما رہے تھے کہ تمہارے بڑے بھائی جان کافی مصروف اور دنیادار ہیںاس لئے روحانی فیوض تمہی کومنتقل کر رہا ہوں۔اس خواب پر بھروسہ کر کے سید یوسف رضا گیلانی نے انہیں حج سے متعلق بہت اہم ذمہ داریاں بھی دیںمگر علما ء نے خوابوں میں شیطان کے لباس یا روپ بدلنے (تلبیس) کے بارے میں انتباہ بھی توکیا ہے۔ میرے پاس سونے،چاندی، پیتل یا پلاسٹک کی چڑیا تو نہیں،بے روز گار چڑے بہت ہیںجومستقبل کے کسی کرسی نشین کا تعاقب جیل سے رہا ہونے سے سکیورٹی حصار میں جانے تک کرتے رہتے ہیں۔ایک ایسے چڑے نے مجھے بتایا تھا کہ زرداری صاحب نے جیل سے رہا ہوتے ہی شاہ محمود قریشی کے گرم جوش ’’ روحانی استقبال ‘‘کے جواب میں چھوٹتے ہی پارٹی ٹکٹوں کے لئے سفارشوں کے عوض لی جانے والی فیس کے حساب کتاب کے بارے میں پو چھا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے ہاں گندگی میں لوٹ پوٹ رہنے والوں میں شاہ محمود کسی قدر اُجلے ہیںمگر مجھے شاہ جی اور اعصاب شکن میزائل سے زیادہ اپنے پیش گو چڑے پر بھروسہ تھا،اس لئے میں ان کی روحانی اڑان کا ایک عرصے سے منتظر تھا۔خدا کرے ہمارے مخدوموں،گدی نشینوں کی یہ روحانی اڑان اور ایڈجسٹمنٹ آخری ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved