یہ لا تعداد بیٹھکوں میں سے ایک تھی‘ بنی گالا میں ہر روز ایسی بیٹھک سجتی ہے ‘ عمران خان ہر شعبۂ زندگی کے ماہرین سے ملتے ہیں ۔ تعارف کے بعد ایک ایک ٹیکنوکریٹ ‘ بیوروکریٹ‘ جر نیل ‘ سرمایہ کار اپنے اپنے شعبے کی زبوں حالی سے بحالی تک بات کرتا ہے ۔ کھلی‘ بے لاگ‘ پُر مغز ‘ دل کی بات۔ اس ہفتے مجھے چار بار اندرونِ پنجاب جانا پڑا۔ اگلے روز ایک میڈیا ہائوس کے مالک‘ پورٹس اینڈ شپنگ کے ماہر جنرل حامد زیب اور کچھ دوسرے قیمتی دماغ اکٹھے تھے ۔ عمران خان نے مجھے بھی بلا لیا ۔ جنرل حامد بلوچستان میں کور کمانڈر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے عوامی بد حالی کی ایسی دلخراش داستان چھیڑی کہ کلیجہ منہ کو آ گیا۔ کہنے لگے: خبر ملی کہ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں وبا کی طرز پر لوگ بڑی تعداد میں دو بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں ‘ پہلی جلدی امراض اور دوسری سینے کی تکلیف۔ جنرل حامد نے فوری طور پر ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور دوسرے انتظامی محکموں کو بلا لیا۔ میٹنگ میں دلخراش انکشاف ہوا کہ ان بیماریوں کا سبب کھانسی کے شربت کا بکثرت استعمال ہے ۔ مزید پتا چلا کہ دیہات کے غریب لوگ پتھر کے توے پر روٹی پکاتے ہیں ‘ سالن بنانا افورڈ نہیں کر سکتے ‘ اس لیے سرکاری ہسپتال سے کھانسی کا شربت لے کر اس سے روٹی کھاتے ہیں ۔ جنرل حامد کی زبانی‘ روح کو لرزا دینے والی انسانی المیے کی کہانی نے غربت کا یہ نوحہ یاد کروا دیا ۔
ہکِناں نُوں توں اَینا دِیویں‘ بس بس کرن زُبانوں
ہِکناں نُوں توں کجھ نہ دِیویں‘ ایویں ای جانٹر جہانوں
آج کل عمران خان کا اسلام آباد والا گھر موہڑہ نور المعروف بنی گالا عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے ‘ اس لیے لوگ ہر جگہ اپنی اپنی مرضی کا تبصرہ کرتے ہیں ۔ ان میں سے اکثر ایسے دانش مند ہیں‘ جنہوں نے موٹی دیواروں ‘ اونچی چھت والے 4 کمروں ‘ ایک ڈرائنگ روم اور ایک برآمدے پر مشتمل تقریباً دو کنال سے بھی کم زمین پر تعمیر شدہ قدیم طرز کے اس گھر کو دیکھا تک نہیں‘ پھر بھی اسے لگژری محل کہتے ہیں ۔ موہڑہ نور کی ویران پہاڑی پہ واقع اس گھر کے ارد گرد چار دیواری تک نہیں۔ اس کے 99 فی صد بوٹے وہ ہیں جنھیں شہرِ اقتدار کے ادارے اور حکمران چٹ کر گئے۔ تقریباًَ 10 فی صد میں سے ایک دو پودے 'مردانہ سلیقے سے‘ لگائے گئے ہیں ۔ اس لگژری کو میں نے بارہا عمران خان کے ہمراہ اندر باہر سے دیکھا اور عمران خان کی مشہورِ زمانہ ''مہمان نوازی‘‘ کا مزہ اٹھایا۔
مین دروازے کے بائیں جانب ڈھلوان کو ہموار کر کے دفتر اور بیٹھک بنائے گئے ۔ کچھ عرصہ پہلے اس کے مغربی کونے پر بنیادوں کی کھدائی شروع ہوئی ‘ اس دن عمران خان کی رہائش گاہ پر کافی طویل نشست رہی ‘ پھر واک کر کے وہ دفتر میں ملاقاتیوں سے ملنے نکلے ‘ میں بھی ساتھ تھا ‘ ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ مسجد بن رہی ہے۔ میں نے واپسی کی اجازت لی اور تعمیراتی ٹھیکے دار سے ڈیزائن پر بات کی‘ ماشا اللہ اب یہ مسجد پلستر تک پہنچ گئی ہے ‘ شہید بابری مسجد کا چھوٹا سا ریپلیکا۔ میرے ایک مہربان دوست نے آپ بیتی سنائی ‘ اگر میں اشارتاً بھی بتا دوں کہ وہ کن عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں‘ تو فوراً ان کا نام ظاہر ہو جائے گا ‘ اس لیے سیلف سینسر شپ۔ ان کی زبانی داستان سن لیجئے : الیکشن کے دنوں میں وہ جاتی امرا گئے‘ امرتسر والا نہیں‘ رائے ونڈ والا جاتی امرا۔ جہاں سرکاری بجٹ سے 90 کروڑ میں تعمیر ہونے والی بائونڈری وال کے ساتھ ہی ٹینٹ آویزاں تھے‘ کرسیاں پڑی تھیں۔ ہمارے دوست کا شمار اپنے شعبے میں پہلے پانچ ستاروں میں ہوتا ہے۔ جاتی امرا والے دونوں بھائیوں نے انہیں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کی دعوت دے ڈالی۔ ہمارے دوست شائستگی سے مسکرائے‘ معنی خیز نظر اپنے میزبانوں پر ڈالی‘ شکریے کے بعد کہنے لگے: یہ باہر کون لوگ بیٹھے ہیں۔ بڑے بھائی نے تفاخر سے چھوٹے کی طرف دیکھا‘ دونوں نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا: یہ بڑے بڑے زمیندار‘ وزیر‘ سابق وزرائے اعلیٰ‘ وڈیرے اور کاروباری ہیں۔ دوست کے بقول 90 منٹ سے زیادہ ورکنگ لنچ پر ملاقات ختم ہونے کو آئی تو چھوٹا بھائی پھر بول اُٹھا: آپ ہمارے فیملی فرینڈ ہیں ‘ آپ نے ہمارے ٹکٹ سے انکار اور الیکشن نہ لڑنے کی وجہ نہیں بتائی۔ اب کی بار قہقہہ لگانے کی باری ہمارے دوست کی تھی‘ کہا: آپ چاہتے ہیں میں آپ سے ٹکٹ مانگ کر تندور نما ٹینٹ کے نیچے بے آبرو کرسی پر بیٹھ جائوں۔ ایسی کرسی سے آپ کے ڈائننگ ٹیبل پر ساتھ بیٹھ کر لنچ کرنا بہتر ہے۔
بنی گالا کے مکین کی طرح اس کا لنچ بھی عجیب ہوتا ہے۔ کئی دفعہ اس لگژری محل کا سپر لگژری کھانا کھا چکا ہوں‘ مینو کی تفصیل چھوڑ دیتے ہیں‘ جس گھر کا مالک چلتے پھرتے گھر کے گیٹ کیپروں کے ساتھ آلو چاول کھا لے‘ وہاں کی دعوتِ شیراز بتانے کا فائدہ؟ بنی گالا کی خاص سوغات پی ٹی آئی‘ کارکنوں کے دھرنے ہیں‘دھرنے تقریباً روز کا معمول ہے‘ کسی نہ کسی علاقے کے بپھرے ہوئے ٹائیگر آتے ہیں‘ پارٹی کا جو عہدے دار موجود ہو وہ دفتر سے بیریئر پر جاتا ہے‘ کارکنوں کو منا کر مطمئن کرتا ہے‘ یا پھر خود عمران کو کارکنوں کو منانے بیریئر پر آنا پڑتا ہے۔ 2018ء کی ٹکٹوں کی تقسیم‘ ان دھرنوں کے عروج کا سیزن تھا‘ میرا لا آفس زیرو پوائنٹ کراس کر کے چند فرلانگ آگے‘ شہر کے سب سے بڑے شاپنگ مال کے سامنے ہے۔ سارے دھرنا باز لیڈر اس دفتر آئے۔ سب سے دلچسپ گفتگو محمد حسین ڈہڑ سے ہوئی۔ وہ پرانے ساتھی تھے اور ٹکٹ کی خبر کے متلاشی۔ ان کے دھرنے کا پانچواں دن تھا‘ اور دھرنا کیمپ میں ملتانی جھومر کا بھی۔ میں نے انہیں کہا: آپ پہلے دھرنا اٹھائیں‘ آپ کو اچھی خبر ملے گی۔ ان دنوں دھرنے والوں نے پی ٹی آئی کے کسی عہدیدار یا معروف لیڈر کو بنی گالا کے اندر نہ جانے دیا۔ یہ عمران کی ہمت ہے کہ وہ روز شام اندھیرے میں بیریئر پر جا کر کارکنوں سے خطاب اور انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ بنی گالا سے اکثر کہیں جانا ہو تو وہ بغیر کلف والے‘ گھر کے دھلے چڑمڑ کپڑوں میں کہے گا: اچھا پھر چلیں۔
بنی گالا کے سٹاف سے پوچھو کپتان کہاں ہے‘ ان کا جواب دو میں سے ایک ہے: سر جی وہ ابھی اوپر ہیں یا سر جی وہ ابھی نیچے اتر آئے ہیں ‘ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ گھر پر ہیں یا دفتر میں۔ ایسی ہی نشست میں کسی نے پوچھا: سات بڑے ملکوں کے سفیر آپ سے مل چکے ‘ اب تک ان ملاقاتوں پر کتنا خرچ آیا ہے ‘ عمران خان نے ادھر اُدھر دیکھا جیسے کسی سٹافر سے غیر ملکیوں کی مہمان داری کا بل پوچھنا چاہتا ہو ۔ پھر مخصوص انداز میں ہنستے ہنستے بتایا 870 یا آٹھ سو پچھتر روپے۔ میں نے عمران سے صرف دو لوگوں سے گفتگو کا پوچھا۔ نریندر مودی اور انگلش ایمبیسڈر۔ ڈیلی ٹیلی گراف نے رپورٹ کیا‘ عمران نے سیدھا کہا: لوٹی ہوئی دولت کی پاکستان واپسی پر آپ کی حکومت مدد کرے۔
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نَے خوفِ سکندر ہے نہ اندیشۂ دارا
میرے لیے یثرب کی فضا کافی و شافی
جرأت کو مری عشقِ پیمبرؐ نے سنوارا
پھر یہ نہ شکایت ہو کہ گستاخ ہے لوگو
جب میں نے قبائوں کو اُدھیڑا کہ اُتارا