تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     06-08-2018

انتخابی اخراجات

انتخابات کے بعد کے منظر نامے میں جیسے ہی ہم نے اپنے جمہوری اعصاب کو درست کیا ہے، میڈیا اور سیاسی لوگوں کی توجہ نمبر گیم پر مرکوز ہو چکی ہے ، جو قومی اور صوبائی حکومتیں تشکیل دے گا۔ وفاقی حکومت بنانے کے لیے پی ٹی آئی کو کتنے آزاد امیدواروں کی ضرورت پیش آئے گی؟ یا زیادہ دلچسپ سوال یہ کہ پنجاب کی حکومت بنانے کے لیے مزید کتنی نشستیں درکار ہیں؟ اتنا ہی اہم سوال یہ کہ کیا پاکستان تحریک انصاف کے پاس صدر کے انتخاب کے لیے (چند ہفتے بعد جب صدر ممنون حسین کی مدت پوری ہو جائے گی) ووٹوں کی تعداد پوری ہوجائے گی؟ یا حزب اختلاف کا اتحاد، سینیٹ میں اپنی اکثریت کے بل بوتے پر، صدر مملکت کی نشست سنبھالنے میں کامیاب ہو جائے گی؟
حساب کی منہ زور سنسنی میں بہت ہی اہم اعداد و شمار نظر انداز کئے جا رہے ہیں:کہ ہر امیدوار نے اپنی انتخابی مہم پر کس قدر خرچ کیا، اور کیا یہ اخراجات ایمانداری سے ظاہر کر دئیے گئے ہیں؟ 
اس سلسلے میں پہلے حقائق کی وضاحت کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سامنے ظاہر کیا گیا ہے کہ این اے 132 کی انتخابی مہم کے دوران شہباز شریف نے 19 لاکھ 40 ہزار روپے خرچ کئے ہیں۔ اسی طرح عمران خان نے این اے 131 کی انتخابی مہم کے اخراجات کی مد میں 997925روپے بتائے ہیں۔ عبد العلیم خان جو اپنی انتخابی مہم پر غیر معمولی اخراجات کے لیے جانے جاتے ہیں، نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے این اے 129 کی مہم پر 3980000 روپے خرچ کئے ہیں۔ این اے 106 کے لیے رانا ثنا اللہ کا دعویٰ ہے کہ 3250000روپے خرچ کئے گئے ہیں، جبکہ بلاول بھٹو زرداری کا دعویٰ ہے کہ این اے 200 کی انتخابی مہم پر 3360000 روپے خرچ ہوئے ہیں۔
کیا یہ اعداد و شمار قابل اعتبار ہیں؟ کیا کوئی (عقلی طور پر) یقین کرتا ہے کہ اس ملک میں جہاں روپیہ سیاسی قوت کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے ، یہ اخراجات کے درست اعداد و شمار ہیں؟ یا یہ اعداد و شمار محض قانونی جواز پیش کرنے کے لیے گھڑے گئے ہیں، جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں؟ کیا اصل اخراجات کا جائزہ لینے کا کوئی درست طریقہ موجود ہے؟ اگر ہے تو پھر انتخابی اخراجات کے احتساب کے عمل کی ذمہ داری کس پر ہے؟
پاکستان میں (زیادہ تر دیگر جمہوریتوں کی طرح) انتخابی مہم میں روپے پیسے کی ریل پیل سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ منتخب ہونے کا استحقاق اب محض ان چند لوگوں کو حاصل ہے جو اسے افورڈ کر سکتے ہیں۔ ہمارے انتخابی قوانین میں موجود قانونی تحفظ کے باوجود دولت (اکثر ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی) کا بہائو، انتخابی عمل کے نتائج پر غالب آتا ہے ، اور انتخابی اخراجات بارے غلط اعداد و شمار کا اظہار بدستور سزا سے محفوظ ہے۔
آئین کے نقطہ نظر سے ، آرٹیکل 218، 219 اور 222 کے تحت یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ یقینی بنائے کہ انتخابات ''ایماندارانہ، منصفانہ، جائز اور قانونی تقاضوں کے مطابق ہوئے ہیں اور ان میں کوئی غیر قانونی حربہ استعمال نہیں کیا گیا‘‘۔ آئین کی تحت، الیکشن ایکٹ کی دفعہ 132 کسی بھی انتخابی امیدوار یا اس کے حامیوں کی جانب سے کسی بھی حلقے میں انتخابی مہم پر خرچ کی جانے والی رقم کی ایک حد مقرر کرتی ہے۔ یہ قانون خاص طور پر یہ بیان کرتا ہے کہ:کسی امیدوار کے انتخابی اخراجات میں وہ تمام اخراجات بھی شامل ہیں جو کسی بھی شخص یا جماعت کی جانب سے اس امیدوار کے حق میں خرچ کئے گئے ہوں گے۔ اور یہ اخراجات تجاوز نہیں کر سکتے :سینیٹ کے انتخاب میں ایک نشست کے لیے 15 لاکھ سے ، قومی اسمبلی کی نشست کے انتخاب کے لیے 40 لاکھ روپے سے اور صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں 20 لاکھ روپے سے۔ 
تاہم یہ کوئی راز نہیں کہ الیکشن کے اخراجات کی اس قانونی حد کا اگر تمام نہیں تو اکثر امیدوار لحاظ نہیں کرتے ۔ ہماری سیاسی تاریخ انتخابی اخراجات کے اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جو انتخابی مہم کے اخراجات کے قوانین کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اب یہ وسیع پیمانے پر قبول کیا جاتا ہے کہ 2015ء کے دوران این اے 122 لاہور کے ضمنی انتخابات میں علیم خان اور ایاز صادق نے مجموعی طور پر 300 ملین روپے سے زائد رقم انتخابی مہم پر خرچ کی۔ 2018ء کے انتخابات میں ہر جماعت نے ٹکٹ میں ''الیکٹ ایبلز‘‘ کو ترجیع دی‘ جن میں انتخابات لڑنے (خریدنے پڑھا جائے) کی مالی قوت موجود تھی۔ بہت سے انداز میں الیکشن کو دولت کی تقویم کے ساتھ جڑت کی وجہ سے ہی ہم اپنے قانون ساز اداروں کے لیے بہر صورت ایک دولت مند اشرافیہ ہی کو منتخب کرتے ہیں۔
حیران کن طور پر ہماری عدالتی تاریخ کی چھان بین سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں انتخابی اخراجات کے معاملے پر آج تک ایک بھی قابل ذکر مقدمہ نہیں کیا گیا۔ اس وجہ سے نہیں کہ تمام جماعتوں اور امیدواروں نے ہمیشہ انتخابی اخراجات کو جائز ذرائع اور جائز حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، بلکہ اس لیے کہ سیاست کے تمام دھڑے انتخابی مہم کے اخراجات کے قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہیں، اس لیے کسی کو بھی یہ مسئلہ اٹھانے میں دلچسپی نہیں۔ اس کے نتیجے میں ہمارا سیاسی عمل اسی پر منحصر ہو کر رہ گیا ہے کہ انتخابات کے لیے کون زیادہ رقم خرچ کر سکتا ہے (اور پھر دور حکومت میں اگلے انتخابات کے لیے اس کی وصولی کرے)۔
انتخابات کے عمل کو مالی مشق میں تبدیل کرنے سے ہم نے ہر ایک کے انتخابات میں حصہ لینے کا اصول کھو دیا ہے ۔ اس افسوسناک حقیقت نے ہماری آبادی کی اکثریت کو سیاسی عہدے کے لیے تگ و دو کرنے سے محروم کر دیا ہے۔ اور ان حالات کو ہم اور کسی وجہ سے نہیں بلکہ ہماری قانون کی کتابوں میں موجود ایک قانون کی عمل داری یقینی نہ بنانے کی وجہ سے پہنچے ہیں۔
کوئی بھی دعویٰ نہیں کر سکتا کہ انتخابی مہم کے اخراجات کا قاعدہ ہمارے ملکی قوانین میں شامل نہیں ہے۔ نتیجتاً ساری کی ساری ذمہ داری (قصور)ان قوانین کو نافذ کرنے کا، الیکشن کمیشن آف پاکستان ہی پر عائد ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کس طرح یقینی بناتا ہے کہ الیکشن ایکٹ کی سیکشن 132 کا منشا پورا کیا جا رہا ہے ؟ الیکشن کمیشن نے ہر امیدوار کے اخراجات کا جائزہ لینے کے لیے کیوں مخصوص انتظامات نہیں کئے ہیں؟ اس مقصد کے لیے کیوں ایس او پیز نہیں بنائے گئے ؟ ہر حلقے میں انتخابی اخراجات کا جائزہ لینے کے لیے کیوں خصوصی مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل نہیں دی گئیں؟ کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان صرف امیدواروں کے بیانات پر یقین کرتا ہے ؟ یا اس کے پاس پڑتال کا اپنا بھی کوئی نظام موجود ہے ؟
اب تک تو انتخابی اخراجات کی مانیٹرنگ کے عمل میں الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتا ہے ۔ اور کمیشن کے لیے یہ آر ٹی ایس سسٹم کی ناکامی سے کہیں زیادہ خفت کا مقام ہے ۔ اگر الیکشن کمیشن اس قسم کے اخراجات کی اس طرح مانیٹرنگ کرے کہ جس سے انتخابی مہم کے دوران اخراجات کے قوانین کی خلاف ورزی کی نشاندہی ہوتی ہو تو، اس کے اثرات کی لہر ہمارے پورے سیاسی نظام کے اندر محسوس کی جائے۔ اس سے نہ صرف متعلقہ قانون کا نفاذ ممکن ہو گا بلکہ یہ جمہوریت کے وعدوں کو آبادی کے بڑے طبقات تک وسیع کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو گا، جو اب تک اس میں حصہ لینے کی طاقت نہیں رکھتے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved