تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     06-08-2018

عزت دل سے‘ لیکن ووٹ نہیں!

1977ء میں برسراقتدارآنے کے بعد جنرل ضیاالحق پہلے تو مارشل لا کی چھڑی کے سہارے اُمورِ حکومت چلاتے رہے‘ تاہم ازاں بعد بعض آئینی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے‘ اُنہوں نے دسمبر1984ء میں ایک ریفرنڈم منعقد کرایا‘ جس کے دوران ووٹرز سے رائے لی گئی کہ وہ ملک میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں یا نہیں؟اگرچاہتے ہیں ‘تو پھر جنرل ضیاالحق آئندہ پانچ سال تک ملک کے صدر ہوں گے۔ پولنگ اسٹیشنز بھائیں بھائیں کرتے رہے‘ لیکن اس کے باوجود بیلٹ باکسز میں سے نفاذِ شریعت کے حق میں نکلنے والی پرچیوں نے نیا ریکارڈ قائم کیا۔یوں جنرل ضیاالحق کے منصب ِصدارت کی توثیق ہوگئی اور جوش ِصدارت میں انہیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ ریفرنڈم تب منعقدکرایا گیا‘ جب آئین معطل تھا)اسی روش پر چلتے ہوئے بعد میں پرویز مشرف نے 30اپریل 2002ء کو ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں ہی مسند ِصدارت سنبھالا تھا(ریفرنڈم کے نتائج نے ضیاالحق کو عوام کا انتہائی ہردلعزیز رہنما ثابت کردیا تھا‘ جس کے بعد وہ 17اگست1988ء تک اس عہدے پر فائز رہے‘اسی دوران افغانستان کی لڑائی بھی زوروشور سے چل رہی ‘ جس کے دوران قوم نے یہ سیکھا کہ کس طرح بنیاد پرستی کو فروغ دے کر مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔وہی بنیاد پرستی‘ جس نے بعد میں ایک طویل عرصے کے لیے اپنے پر پھیلائے رکھے۔ اس کا آغاز 1977ء میں بھٹو مخالف تحریک سے ہی ہوگیا تھا ۔
مذکورہ تمام صورت حال نے سیاسی لحاظ سے بھی اپنا رنگ دکھایا ‘جس کانقطہ عروج 2002ء کے انتخابات کو قرار دیا جاسکتا ہے‘ جب مذہبی جماعتوں کے اتحاد سے متحدہ مجلس عمل وجود میں آئی۔ اسے نہ صرف ایک صوبے میں حکومت مل گئی‘ بلکہ یہ مرکز میں بھی 60کے قریب نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔2005 ء میںکراچی کے بلدیاتی انتخابات کے مسئلے پر اتحاد کی دوبڑی جماعتوں میں شدید اختلافات پیدا ہوئے اور 2008ء میں یہ اتحاد باقاعدہ طور پر ٹوٹ گیا۔حالیہ انتخابات کے دوران باسی کڑھی میں پھر اُبال آیا اور مولانا فضل الرحمن کی کوششوں سے ایک مرتبہ پھر متحدہ مجلس عمل وجود میں آگئی۔اب یہ الگ بات ہے کہ اس مرتبہ نتائج ماضی کی نسبت بہت مختلف رہے۔دینی جماعتوں کا اتحاد ملک بھر سے صرف 26لاکھ کے قریب ووٹ حاصل کرپایا۔اتنا ہی نہیں ‘بلکہ اتحاد کے قائد مولانا فضل الرحمن قومی اسمبلی کے دوحلقوں سے انتخابات میں شکست کھا گئے اور اتحاد کے نائب‘ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بھی قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکے؛البتہ اتنا ضرور ہوا ہے کہ یہ اتحاد قومی اسمبلی کی 12نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہا ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ کے پی کے میں 10‘بلوچستان میں 9اور سندھ میں ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہا ۔پنجاب سے اس کے حصے میں کچھ بھی نہیں آیا‘ جہاں سے وہ کوئی نشست حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔متحدہ مجلس عمل کے لیے اس صورتحال کا باعث کسی حد تک مزید دودینی جماعتوں کے اتحاد کی میدان سیاست میں آمدبھی قرار دی جاسکتی ہے۔ایک تحریک لبیک پاکستان اور دوسری اللہ اکبر تحریک ۔تحریک لبیک پاکستان ملک بھر سے مجموعی طور پر 22 لاکھ ووٹ اور سندھ اسمبلی کی دونشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ دوسری جماعت کے 251اُمیدوار 4لاکھ ووٹ لے اُڑے‘ گویا مجموعی طور پر دینی جماعتوں کے تینوں اتحادوں نے باون لاکھ ووٹ حاصل کیے ‘اگر یہ مذہبی ووٹ متحد ہوتا‘ تو سیاست میں مصروف عمل دینی سیاسی جماعتوں کی پوزیشن مزید بہتر تو ہوسکتی تھی ‘لیکن پھربھی 2002ء جیسے نتائج کا سامنے آنا قریباً ناممکنات میں سے ہی تھا۔اس کی وجہ عوام کا میدان سیاست میں مصروف عمل دینی جماعتوں کے لیے عمومی رویہ بھی ہے۔
سیاسی دینی جماعتیں آج تک عوامی سطح پر اپنا کوئی قابل ذکر اثر چھوڑ سکیں‘ نہ عوامی میلانات کا رخ ان کی جانب ہوسکا ہے۔گویا جنرل ضیاالحق کے دور میں پنپنے اور اُس کے بعد قریباً ایک دہائی تک برقرار رہنے والے ان کے بچے کھچے اثرات بھی دم توڑ رہے ہیں۔حالیہ انتخابات میں شکست کے بعد مولانا فضل الرحمن کی طرف سے پیالی میں طوفان اُٹھانے کی بھرپور سعی تو کی گئی‘ لیکن بجا طور پر دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے اسے پذیرائی نہیں مل سکی۔مولانا کی طرف سے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیے جانے کی تجویز کا پیش کیا جانا‘ ناقابل ِفہم سا تھا۔برا یا اچھا کی بحث سے ہٹ کر ایک سیاسی نظام‘ اگر بتدریج اپنے پاؤں مضبوط کررہا ہے ‘تو پھر کیونکر اس میں رخنہ ڈالنے کا رویہ اختیار کیے جانے کی تجویز دی گئی؟۔
اپوزیشن کی دوسری سیاسی جماعتوں نے اس بات کا ادراک کیا‘ جن کی طرف سے اب پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ سامنے آچکا اور جماعت اسلامی بھی ان کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔سیاسی جماعتوں کی اس روش کی تحسین کی جانی چاہیے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ کرنے سے گریزاں نظرآرہیں‘ جس سے جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ پارلیمنٹ میں جانے کی مخالف جماعتوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اگر کامیابی اُن کا مقدر نہیں بن سکی‘ تو ضروری نہیں کہ خواہ مخواہ حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی جائے ۔اس بارے میں کیا کوئی دوسری رائے بھی اہمیت رکھتی ہوگی کہ کچھ مخصوص حالات سے ہٹ کر بحیثیت مجموعی دینی جماعتوں کو ملکی سیاست میں کبھی بھی زیادہ اہمیت نہیں مل سکی۔اس رائے پر حالیہ انتخابات نے پھر مہر ثبت کی ہے‘ جو دینی جماعتوں کے لیے سوچ بچار کی دعوت بھی ہے۔کچھ وجوہ تو سامنے کی ہیں ؛ایک تو علمائے کرام سے ہمیشہ سچ کی توقع کی جاتی ہے‘ لیکن سیاست اور جھوٹ کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔دوسرے جب سیاست کے میدان میں قدم رکھا جاتا ہے‘ تو پھر بہت سے مقامات پر کمپرومائز بھی کرنا پڑتا ہے‘ جس سے قول فعل میں تضاد کا تاثر اُبھرتا ہے ۔اس کی ایک مثال 2008ء کے انتخابات میں واضح طور پر سامنے آئی جب جماعت اسلامی نے ان کا بائیکاٹ کیا ۔دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام نے نہ صرف انتخابات میں حصہ لیا‘ بلکہ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے والی پیپلزپارٹی سے اتحاد بھی کیا‘وہی پیپلزپارٹی جس کے رہنماؤں کے بارے میں اتحاد سے پہلے جے یو آئی کی طرف سے مختلف الزامات سامنے آتے رہے تھے۔نواز شریف برسراقتدارآئے ‘تو جے یوآئی اُن کی اتحادی بن کر کھڑی ہوگئی۔یہ ٹھیک ہے کہ سیاست میں اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں‘آج کے مخالف کل کے دوست ہوتے ہیں۔ اپنی سیاسی ضرورتوں اور مصلحتوں کے تحت کبھی ایک جماعت تو کبھی دوسری جماعت میں آنے اور جانے کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے‘ لیکن دینی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے توقعات زیادہ ہوتی ہیں کہ وہ اپنے کہے پر قائم رہیں۔ایک اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ ہر دینی سیاسی جماعت اپنے عقائد سے ہٹ کر دوسروں کو قبول کرنے کے لیے کم ہی تیار ہوتی ہے‘ جس کا حتمی نتیجہ اختلافات کی صورت ہی برآمد ہوتا ہے۔
ہماری سیاست سرمایہ دارانہ روایات کی حامل ہے‘ جس میں عام آدمی کے پنپنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ ایسے میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو عام آدمی کی جنگ لڑنی چاہیے تھی۔ اُس کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا چاہیے تھا‘ لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ متعدد دیگر وجوہ بھی ہیں‘ جن کی بنا پر یہ جماعتیں میدان سیاست میں ہمیشہ مات کھا جاتی ہیں۔ بجز اس کے کہ ہمارے معاشرے میں مذہبی اقتدار کو ترجیح دی جاتی ہے‘ مذہبی شخصیات کا احترام کیا جاتا ہے ‘ ان کی دل سے عزت کی جاتی ہے ‘لیکن بیلٹ باکسز میںسے ان کے لیے ووٹ نہیں نکلتے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved