تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     07-08-2018

بھارت میں فرقہ وارانہ تنگ نظری

قیام پاکستان کے بعد ہی سے بھارت میں مسلمانوں پر ظلم وبربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔یہ سلسلہ اب تک تھما نہیں بلکہ ہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ''آج کل یہ بات سامنے آر ہی ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کو روکنے کے لئے اوربھارت کی تعمیر و ترقی کے لئے سیکولر برادری کو ملک کا زمام اقتدار دیا جائے مگر اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا تمام سیکولر طاقتیں یکجا ہو پائیں گی؟ اگر سیکولر برادری کا عظیم اتحاد ہو جاتا ہے تو پھر یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ بھارتی لوک سبھا الیکشن میں کون چہرہ ہو گا؟ کیونکہ کئی اہم اور قدر آور لیڈر امید لگائے بیٹھے ہیں کہ2019ء میں ہمارے نام پر الیکشن لڑا جائے۔ اس لئے عظیم اتحاد کی پائیداری اور استحکام کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ مگر اس وقت ملک کو ایسے جیالوں اور افراد کی سخت ضرورت ہے جوہندوستانی معاشرہ میں امن کی روح پھونکنے میں کامیاب ہو سکیں۔ عوام نے جن طاقتوں کو اقتدار تک پہنچایا ‘ اب ان کا رویہ بدل چکا ہے۔ انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں اعلان کیا تھا کہ'' سب کاساتھ ‘ سب کی بہتری ‘‘ ہمارا مشن ہے مگر مودی حکومت نے جس طرح عوام کا اعتماد پاش پاش کیا ہے ‘ اس کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ عوام کی اکثریت‘ حکومت کی کارکردگی سے ناراض ہے مگر جانبدار میڈیا عوام کی ضروریات کو نظر انداز کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ بنا بریں سیکولر اتحاد کی سخت ضرورت ہے ۔یہی اتحاد باطل قوتوں کی سرکوبی کر سکتا ہے اگر سیکولر برادری متحد نہیں ہوتی تو پھر ملک میں بدامنی اور بے چینی مزید بڑھ جائے گی جو بھارتی سماج کے لئے ٹھیک نہیں ہے ۔
ا گر ہم بین الاقوامی اداروں کی سفارشات کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ بھارت جیسے جمہوری ملک کو تنقیدکا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو پورے ہندوستانی سماج کے لئے تشویش ناک ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ملک میں پرتشدد واقعات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے‘ مگر حکمراں جماعت بی جے پی ‘ کی بے بسی اور لاچاری اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ ابھی تک قصورواروں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکی۔ حد تو یہ بھی ہے کہ سیکولر ازم کا جھوٹا تماشا کرنے والے اور آئین ہند کا حلف اٹھا کر جمہوریت کے مندر میں براجمان لوگ‘ ان شر پسندوں کا خیر مقدم کر رہے ہیں‘ جو اس بات کی واضح علامت ہے کہ ہندوستانی معاشرے میں اب نفرت کی کھیتی‘ حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھ رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امن و امان کے قیام کے لئے زمینی سطح پر کام کیا جائے اور مذہب کے نام پر سیاست کا گندہ کاروبار کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ ضمناً یہ بھی عرض ہے کہ اخباروں میں مذمت کرنے سے کچھ نہیں ہو گا بلکہ اس کے لئے ٹھوس اقدام کرنا ہوں گے۔ وہیں سماج کو بھی سوچنا ہو گا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ جو نفرت کا اس قدر زہر گھول رہے ہیں کہ ایک دوسرے کی جان لینے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جاتی؟شرم ناک بات یہ ہے کہ اب یہ وتیرہ بن گیا ہے کہ اگر کہیں کوئی غیر انسانی فعل سرزدہوتا ہے تو اگلے دن اخبارات میں اس کی مذمت کی جاتی ہے۔ آزادی کے بعد سے آج تک ان گنت فرقہ وارانہ فسادات کرائے گئے ۔ اگر ان کا انصاف سے تجزیہ کیا جائے تو سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو پہنچایا گیا۔مگر کسی بھی سیاسی جماعت نے آج تک مسلم اقلیت کے زخموں کا مداوا نہیں کیا ہے مگر مسلمانوں کو ہر موقع پر ووٹ بنک کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی گزشتہ چار برسوں کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو نفرت کے سوا اور کوئی کام نہیں ہوا۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ مسلمانوں اور دلتوں کی دل آزاری کرنے کے ساتھ ساتھ سینکڑوں کو موت 
کی نیند سلا دیا گیا۔محمد اخلاق سے لے کر اکبر تک‘ ہجومی تشدد میں شکار ہونے والوں کی تعداد کافی طویل ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ایک کے بعد ایک ظلم ہوتا رہا لیکن بی جے پی کے حکومتی کارندوں میں سے کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ حیرت تو یہ ہے کہ مجرم کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔ سرزنش کرنے کے بجائے‘ حکومتی کارندے ان کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہوتے ہیں‘ ان سے سماج دشمن عناصر کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔اس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ بھارت کس سمت جا رہا ہے؟ اس کے باوجود حکمراں جماعت کے ٹکڑوں پر پلنے والے افراد ‘یہ دہائی دے رہے ہیں کہ بھارت ترقی و فلاح کی راہ پرگامزن ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ چار برسوں میں صرف ہندو مسلم نفرت کی آبیاری کی گئی ہے اور مذہب کے نام پر سیاست کا گھنائونا کاروبار کیا جار ہا ہے۔ بھارتی معاشرہ حکمراں جماعت کے ان سیاہ کارناموں کو کبھی بھی نہیں بھلاپائے گا۔ تاریخ کا مطالعہ بتا تا ہے کہ فلاحی ریاست و حکومت وہی کہلاتی ہے جس میں سماج مہذب ہو۔ معاشرہ اقتصادی ترقی کی طرف رواں دواں رہے۔ کامیاب حکومت کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ اپنی رعایا اور معاشرے میں امن و امان بر قرار رکھنے میں تعاون کرے۔ باہم ادیان کے احترام اور انسان دوستی جیسی خوش گوار روایات کو فروغ دیا جائے تاکہ سماج کو صحیح سمت لے جایا جا سکے۔ مسلم اقلیت بھارت میں جمہوریت کی بنیاد ہے اگر مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی جاری رہتا ہے یا ان کے پرسنل لا میں مداخلت کی کوشش کی جاتی ہے‘ توبھارت کی سب سے اہم اور بنیادی پہچان جمہوریت‘ خطرے میں ہے۔ اس لئے ہر سیکولر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بھارت کے جس امتیاز و تشخص کو گاندھی‘ مولانا آزاد اور دیگر رہنمائوں نے محفوظ کیا تھا‘ اس کو اب دوبارہ بچانے کی ضرورت ہے۔ مودی سرکار عوام کے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے‘ نئے نئے اور بے بنیاد مسائل لا کر عوام کو دھوکا دے رہی ہے۔بھارتی حکومت کی اس شاطرانہ روش کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved