ہر معاشرے میں ایسے بازی گر بھی پائے جاتے ہیں‘ جو nothing کے بطن سے something برآمد کرکے ناظرین کو حیران و پریشان کردیا کرتے ہیں۔ کسی بھی صورتِ حال سے اپنے لیے موافق معاملات کشید کرنا واقعی ایسا فن ہے‘ جس پر متعلقہ فنکار کو داد نہ دینا زیادتی تصور کیا جائے گا۔
ایک بادشاہ کا قریبی رشتہ دار رشوت لینے کے حوالے سے بہت بدنام تھا۔ اُسے جو عہدہ دیا گیا تھا‘ اُس کا تعلق عوام سے تھا اور اُس کی مرضی کے بغیر چونکہ کام نہیں ہوتا تھا ‘اس لیے عوام کو کچھ نہ کچھ اُس کی نذر کرنا ہی پڑتا تھا۔ جب لوگ اُس سے بہت تنگ آگئے ‘تو مجبور ہوکر ہجوم کی شکل میں بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شکایت بیان کی۔ بادشاہ نے جب دیکھا کہ دو چار یا دس بارہ نہیں‘ بلکہ سیکڑوں افراد فریاد لے کر حاضر ہوئے ہیں‘ تو اُس نے اپنے رشتہ دار کو بلا بھیجا۔ وہ آیا اور رشوت ستانی کا الزام سُن کر گردن جھکائے‘ خاموش بیٹھا رہا۔ بادشاہ سمجھ گیا کہ عوام کی شکایت بے جا نہیں۔ پہلے تو بادشاہ کے دل میں آئی کہ اُسے دھکّے مار کر شاہی محل سے نکال دے‘ پھر کچھ سوچ کر اُس نے رشتہ کو ایک ایسا عہدہ سونپا‘ جس پر کام کرتے ہوئے ''بالائی آمدن‘‘ حاصل کرنے کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ موصوف کو سمندر کے کنارے بیٹھ کر لہریں گننے کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔
کچھ ہی دن گزرے تھے کہ لوگ پھر تنگ آگئے اور شکایات موصول ہونے لگیں۔ بادشاہ کو بتایا گیا کہ وہ اللہ کا بندہ سمندر کے کنارے بھی مال بنانے میں لگ گیا ہے! بادشاہ کو بہت حیرت ہوئی کہ آخر سمندر کی لہریں گننے کے کام میں رشوت کہاں سے گُھس آئی۔ استفسار کرنے پر بادشاہ کو بتایا گیا کہ موصوف بندر گاہ کے نزدیک بیٹھے بیٹھے لہریں گنتے ہیں اور وہاں سے گزرنے والے جہازوں کے عملے کو اپنے ایک معاون کے ذریعے پیغام بھیجتے ہیں کہ سمندر کی لہریں گننے کا عمل جاری ہے۔ یہ ذمہ داری چونکہ بادشاہ سلامت نے سونپی ہے ‘اس لیے کام کسی بھی صورت روکا نہیں جاسکتا۔ جہازوں کے گزرنے سے لہروں کی ترتیب بگڑ جاتی ہے‘ جس کے نتیجے میں اُنہیں گننا انتہائی دشوار ہو جاتا ہے‘ پورا حساب بگڑ جاتا ہے ‘اس لیے ہر جہاز کا عملہ ''جرمانہ‘‘ ادا کرکے گزرے!
اُتر پردیش کے لوگوں میں ایک کہاوت عام ہے کہ جے کی عادت جائے ‘نہ جی سے‘ نیم نہ میٹھا ہوئے چاہے کھاؤ گُڑ گھی سے! یعنی یہ کہ انسان کی فطرت اور خصلت نہیں بدلتی۔ سانپ ڈسنا نہیں بھولتا‘ بچھو کو ڈنک مارنا ہی مارنا ہے اور بندر قلا بازی کھائے بغیر چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ بالکل اسی طور انسان بھی اپنے مزاج میں پائی جانے والی کسی بنیادی خصلت کو آسانی سے ترک نہیں کر پاتا۔ جو کچھ بھی فطرت میں گوندھ دیا گیا ہو‘ اُس کے درشن ہوکر رہتے ہیں۔ چور چوری سے جائے‘ ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ لہریں گننے کی ذمہ داری والا لطیفہ ہمیں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی میڈیا ٹاک سن کر یاد آیا۔ موصوف کا کہنا تھا کہ ''وزارت کی تمنّا نہیں(!) اور ایسا گیا گزرا بھی نہیں ہوں کہ وزارت مانگتا پھروں۔ عوام کی 'خدمت کا مشن‘ لے کر سیاست کے میدان میں ہوں۔ اگر مجھ سے کہا جائے کہ سمندر کے کنارے بیٹھے لہریں گنتے رہو‘ تو میں یہ کام بھی بخوشی کرلوں گا!‘‘ شیخ رشید ہماری سیاست میں کئی حیثیتوں کے حامل ہیں۔ اور ہر حیثیت میں وہ ہلکا پھلکا تاثر چھوڑتے ہیں۔ اُن کی باتوں میں قوم کے ہاتھ اور کچھ آئے نہ آئے‘ کچھ دیر طبیعت ہلکی پھلکی رکھنے کا سامان ضرور ہو جاتا ہے۔ لہریں گننے سے متعلق لطیفے اور شیخ صاحب کی میڈیا ٹاک کو ایک پلیٹ فارم پر لانے سے ہمارے بارے میں یہ گمان نہ کیا جائے کہ ہم، خاکم بدہن‘ شیخ صاحب کو لہروں کی گنتی سے فوائد بٹورنے والا گردانتے ہیں۔ ہمارا بس چلے تو ہم اُنہیں ''وزیر لطیفہ گوئی‘‘ مقرر کردیں‘ تاکہ قوم کی دل بستگی کا کچھ تو باضابطہ سامان ہو!
خیر‘ ہماری سیاست میں معبدِ اقتدار کے ایسے پجاریوں کی کمی نہیں‘ جو موقع دیکھتے ہی کسی نہ کسی منصب کی گنگا میں اشنان کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ حکومت سازی کے مرحلے میں اُن کی آنیاں جانیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ مختلف حلقوں سے ڈوریں ہلوانے کے لیے وہ دن رات ایک کردیتے ہیں۔ یہی وہ مرحلہ ہے‘ جسے دیکھ کر دل اندیشوں میں گِھرے رہتے ہیں‘ دماغوں پر دہشت سی چھا جاتی ہے اور وحشت سی ہونے لگتی ہے۔ جو کسی نہ کسی طور لیلائے اقتدار کا قرب چاہتے ہیں‘ وہ اپنے خواب کے شرمندۂ تعبیر ہونے پر یعنی لیلائے اقتدار کا قرب نصیب ہونے پر ''محنتانہ‘‘ وصول کرنے میں تساہل سے کام کیوں لیں گے؟ اور وہ جب محنتانہ وصول کرنے پر تُلتے ہیں تو بہت کچھ اُلٹ پلٹ دیتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ منتخب مخلوط حکومتوں کو ایسی ہی بلائیں کھا جاتی ہیں!
عمران خان اور اُن کی ٹیم کے لیے سب سے جاں گُسل مرحلہ حکومت سازی کا ہے۔ اس مرحلے میں اگر کوئی اینٹ ٹیڑھی رکھی گئی تو دیوار ‘خواہ کتنی بلند ہو‘ٹیڑھی ہی رہے گی۔ ؎
خِشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تاثُریّا می رود دیوار کج
جمہوری حکومتوں کو ابتدائی مرحلے ہی میں کمزوری سے دوچار کرنے میں اُن کا کردار کلیدی اور نمایاں ہوتا ہے‘ جن کی نظر میں سیاست صرف اپنی جیب بھرنے کا معاملہ ہے اور کچھ نہیں۔ ملک خواہ کسی سمت جارہا ہو‘ یہ اقتدار پرست صرف اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان کی سمت درست ہو اور مال بٹورنے کا عمل کسی نہ کسی طور جاری رہے۔
دل یہ دیکھ کر حیرت و وحشت سے دوچار ہے کہ سیاسی ماحول حسبِ روایت ویسا ہی ہے‘ جیسا اس نوع کی صورتِ حال میں ہوا کرتا ہے۔ چاروں طرف اقتدار پرست گھوم رہے ہیں۔ اور ان کی ترجیحات میں کوئی خاص منصب بھی نہیں۔ سوال منصب کا ہے کہاں‘ مال کا ہے۔ منصب ملے نہ ملے‘ مال آنا چاہیے۔ ؎
مے سے غرض نشاط ہے کس رُوسیاہ کو
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
بہت سے ایسے ہیں کہ اور کچھ نہیں تو لہریں گننے ہی پر مامور کردیجیے‘ بالائی آمدن کی گنجائش خود پیدا کرلیں گے! یہ لوگ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے معاملے میں علامہ اقبالؔ کے شدید ترین معتقد و مقلّد ہیں! جب بھی پارلیمنٹ کسی حد تک معلّق ہوتی ہے‘ تب حکومت سازی کے عمل میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے خواہش مند آنیاں جانیاں لگانا شروع کرتے ہیں اور ان کی محض خواہش ہی نہیں‘ بلکہ بھرپور کوشش بھی ہوتی ہے کہ صورتِ حال سے جس قدر بھی اور جو کچھ بھی کشید کیا جاسکتا ہے ‘کرلیا جائے۔
کسی بھی منصب سے کچھ بھی کشید کرنے میں مہارت رکھنے والوں سے دُور رہنا یا اُنہیں دُور رکھنا ہی عمران خان اور اُن کی ٹیم کے مفاد میں ہوگا۔ اُنہوں نے اقتدار کی بھول بُھلیّوں تک پہنچنے کے لیے الیکٹ ایبلز کا بھی سہارا لیا ہے اور یہ الیکٹ ایبلز، حسب ِ روایت‘ اپنی قیمت وصول کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیں گے۔ اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے تحریکِ انصاف کے سربراہ کو بار بار حکمتِ عملی تبدیل کرنا ہوگی۔ اور ہر بار اُنہیں اہمیت دینا ہوگی جو اقتدار پانے اور اُس کے ذریعے بہت کچھ پانے کے فراق میں نہیں رہتے۔ ایسے لوگ کم ہیں اس لیے آسانی سے دکھائی دیتے ہیں نہ ملتے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے سربراہ میں اِتنی صلاحیت کا پایا جانا لازم ہے کہ ایسے بے لوث قسم کے بندوں کو تلاش کرکے نمایاں پوزیشن میں رکھیں ‘تاکہ لہریں گننے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔