26 جولائی کی شام، ''پرائم منسٹر اِن ویٹنگ‘‘ کے قوم سے خطاب میں بہت سے دعوے اور وعدے تھے اور ظاہر ہے، ان میں بیشتر کا تعلق ان کے عہدِ اقتدار سے تھا؛ البتہ ایک دعویٰ ایسا تھا جس کی آزمائش، وزارت عظمیٰ کی حلف برداری سے پہلے ہو گئی۔ ''منتظر وزیر اعظم‘‘ نے یاد دلایا کہ مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد انہوں نے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا تھا، جسے قبول نہ کیا گیا۔ اب ان کا اعلان تھا کہ اپوزیشن جس حلقے کو چاہے کھلوا کر دیکھ لے، انہیں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔
لاہور میں خود ان کا اپنا حلقہ 131 اس حوالے سے پہلی آزمائش بنا، جہاں سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ان کے حریف تھے۔ مئی 2013ء کے انتخابات میں خواجہ سعد رفیق کے مقابل حامد خان تھے‘ ملک کے ممتاز ماہر قانون، جن کا شمار تحریک انصاف کے بانی ارکان میں ہوتا تھا۔ تحریکِ انصاف برسوں ایک ایسا شجر رہی، جس پر برگ و ثمر آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا‘ لیکن حامد خان صاحب کی وفاداری میں کوئی فرق نہ آیا۔
وہ برسوں تحریک انصاف میں خان صاحب کے نائب رہے۔ 30 اکتوبر 2011ء کے (مینار پاکستان پر سونامی جلسے کے بعد) یہ ایک مختلف تحریک انصاف تھی۔ خود خان کو اس اعتراف میں کوئی عار نہ تھی کہ کرپٹ معاشرے میں فرشتے کہاں سے لائوں؟ خان نے اب 25 جولائی کے عام انتخابات سے پہلے بھی یہی بات کہی۔ ایک انگریزی اخبار سے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا: "You can't win without electables and money" مزید فرمایا: (ترجمہ) آپ جیتنے کے لیے الیکشن لڑتے ہیں، ''اچھا لڑکا‘‘ کہلانے کے لیے نہیں‘ میں پاکستان میں یورپی سیاستدان تو درآمد نہیں کر سکتا۔
مئی 2013ء کے عام الیکشن میں یہ لاہور میں حلقہ 125 تھا، جہاں سعد رفیق تقریباً چالیس ہزار ووٹوں کی سبقت سے فتح مند قرار پائے تھے۔ اب نئی حلقہ بندیوں کے بعد انہیں ایک ایسے حلقے میں معرکہ درپیش تھا، جو تقریباً ستر پچھتر فیصد نیا تھا‘ اور مقابلہ خود تحریک انصاف کے چیئرمین سے تھا‘ جو گزشتہ انتخاب میں لاہور کے ایک اور حلقے میں ایاز صادق سے 9 ہزار ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ اب یہاں کانٹے کا مقابلے تھا۔ سعد رفیق نے ایک ایک دروازے پر دستک کے لیے جوگر پہن لئے تھے۔ پرانے حلقے کی نیک نامی نئے علاقے میں بھی کام آ رہی تھی۔ 26 جولائی کو تاخیر سے ''مکمل‘‘ ہونے والے نتائج کے مطابق یہاں خان کی فتح کا مارجن صرف 680 ووٹ کا تھا (عمران خان 84,313۔ سعدرفیق 83,633) اس حلقے میں صوبائی اسمبلی کی دونوں سیٹیں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں نے جیت لی تھیں۔ مسترد شدہ ووٹوں (2,832) کی دوبارہ گنتی کے بعد 680 کا فرق 602 پر آ گیا تھا۔ سعد رفیق اس حلقے میں پول کئے گئے سارے ووٹوں کی دوبارہ گنتی پر اصرار کر رہا تھا۔ ریٹرننگ افسر کے انکار پر خواجہ لاہور ہائی کورٹ پہنچ گیا اور سینئر جج جناب جسٹس مامون رشید شیخ نے مکمل ری کائونٹنگ کا حکم جاری کر دیا۔ کیا خان نے خطرے کی گھنٹی سن لی تھی‘ جو بابر اعوان کو لاہور ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف اپیل میں جانے کی ہدایت کر دی؟ لیکن 26 جولائی کے نشری خطاب میں تو انہوں نے فرمایا تھا، اپوزیشن جتنے چاہے حلقے کھلوا لے، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
2018ء کے یہ انتخابات متعدد حوالوں سے پاکستان کی تاریخ کے منفرد انتخابات تھے۔ ایک حوالہ کثیر تعداد میں (16 لاکھ ستر ہزار) ووٹ مسترد ہونے کا بھی ہے۔ 1970ء سے 2013ء تک، دس انتخابات میں کبھی اتنے وسیع پیمانے پر ووٹ مسترد نہیں ہوئے تھے۔ مزید یہ کہ ہزاروں کی تعداد میں مسترد ووٹوں والے حلقوں میں بڑی تعداد ان حلقوں کی ہے‘ جہاں جیت کا مارجن چند سو کا ہے (ایک ہزار سے بھی کم)۔ ان میں کراچی کا حلقہ 249 بھی ہے جہاں تحریک انصاف کے فیصل واڈا اور شہباز شریف مدِمقابل تھے اور یہاں فیصل واڈا کی لیڈصرف718 کی ہے۔ (واڈا35,344۔ شہبازشریف 34,626) پاک سرزمین پارٹی والے مصطفی کمال نے دلچسپ بات کہی: کراچی میں صرف دو حلقے کھلوا کر دیکھ لیں، یہاں الیکشن کے فری اینڈ فیئر ہونے کی حقیقت واشگاف ہو جائے گی، ایک یہی فیصل واڈا اور شہبازشریف والا حلقہ اور دوسرا حلقہ جہاں ڈاکٹر فاروق ستار کے مقابلے میں عامر لیاقت حسین کامیاب قرار دیئے گئے۔ ان دلچسپ حلقوں میں جھنگ این اے 114 بھی ہے۔ اکتوبر 2002ء میں پیپلز پارٹی کے جو درجن بھر ایم این ایز ''پیٹریاٹ‘‘ بن گئے تھے، ان میں جھنگ کے فیصل صالح حیات بھی تھے۔ (ان پیٹریاٹس کے ووٹوں کے باوجود وزارتِ عظمیٰ کے لیے ڈکٹیٹر کے امید وارظفراللہ جمالی صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے کامیاب ہو سکے تھے۔ اس یاددہانی کی ضرورت نہیں کہ جناب فیصل صالح حیات کو ''راہِ راست‘‘ پر لانے میں نیب کا کردار بھی کم نہ تھا) فیصل صالح حیات 2008ء کا الیکشن اپنی دیرینہ حریف سیدہ عابدہ حسین کے مقابلے میں تقریباً 16 ہزار ووٹوں کی سبقت سے جیت گئے تھے (فیصل کے پاس قاف لیگ کا اور عابدہ کے پاس پیپلز پارٹی کا ٹکٹ تھا) 2013ء کے الیکشن میں انہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر قسمت آزمائی کی، اور نون لیگ کے غلام محمد لالی کے مقابلے میں تیرہ ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔ ڈیڑھ دو سال قبل زرداری صاحب کی خواہش پر دوبارہ ''داخلِ مے خانہ‘‘ ہوئے‘ اور اب پی ٹی آئی کے صاحبزادہ محبوب سلطان کے مقابلے میں 586 ووٹوں سے ہار گئے (مسترد شدہ ووٹو ںکی تعداد 12,9707) فیصل کا دعویٰ ہے کہ ان کی جیت کے واضح امکانات پر دوبارہ گنتی روک دی گئی۔ یہ چند مثالیں نمونے کے طور پر ہیں۔
سیالکوٹ کے چودھری غلام عباس کا معاملہ ایک اور حوالے سے دلچسپ ہے۔ موصوف 1970ء کی دہائی کے پہلے نصف میں ہمارے یونیورسٹی فیلو تھے۔ ''چودھری‘‘ کا سابقہ عملی سیاست میں آنے کے بعد نظریۂ ضرورت کے تحت ہے۔ تب وہ صرف غلام عباس تھے۔ لیفٹ کی سٹوڈنٹس پالٹکس کا بڑا نام۔ یہ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کی ''اجارہ داری‘‘ کا دور تھا، لیکن غلام عباس سٹوڈنٹس یونین کے الیکشن میں اپنے مدمقابل عبدالشکور کے لیے خطرے کی حقیقی گھنٹی بن گیا تھا‘ جسے ہرانے کے لیے جمعیت کو غیرمعمولی محنت کرنا پڑی تھی۔ عجزوانکساری اور سادگی وملنساری تب اس کی شخصیت کا خاصہ تھی، اب بھی ہے۔ عملی سیاست میں برسوں پیپلز پارٹی کے ساتھ بِتا دیئے۔ ایک دوبار پنجاب میں پیپلز پارٹی کے کوٹے میں وزیر بھی رہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے مستقبل سے مایوسی تحریک انصاف میں لے گئی۔جولائی2018ء کا الیکشن اس کے ٹکٹ پر لڑا۔ یہاں مسلم لیگ(ن) کے امیدوار علی زاہد سے مقابلہ تھا۔ علی کے لیے یہ بہت مشکل الیکشن تھا۔ اس کے والد زاہد حامد، نوازشریف حکومت میں وزیر قانون تھے (شاہد خاقان عباسی والی کابینہ میں بھی یہی پورٹ فولیو ان کے پاس رہا) انتخابی امیدواروں کے حلف نامے کے حوالے سے ترمیم کا سارا ملبہ ان پر آن پڑا تھا (راجہ ظفرالحق رپورٹ مختلف کہانی بیان کرتی ہے)آخرکار زاہد حامد وزارتِ قانون سے مستعفی ہوگئے۔ اب جولائی کے الیکشن میں ان کے صاحبزادے علی زاہد میدان میں اترے اور غلام عباس کے مقابلے میں ساڑھے تیرہ ہزار ووٹوں کی سبقت سے فاتح قرار پائے (علی زاہد 97,235۔ غلام عباس 83,734) یہاں تحریک لبیک پاکستان نے بھی اپنے وجود کا بھرپور احساس دلایا،اس کے ٹکٹ پر شجاعت علی نے 285،34ووٹوں کے ساتھ بہت سوں کو چونکا دیاتھا۔
اب غلام عباس اپنی کہانی لیے گھوم رہے ہیں۔ اس جمعے کو وہ کونسل آ ف نیشنل آفیئرز کی ہفتہ وار نشست میں دستاویزات کا پلندہ لئے چلے آئے، اگلے روز پریس کلب میں میڈیا کو اپنی شکست کتھا سنائی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ وہ 25جولائی کی شب 13ہزار ووٹوں سے جیت رہے تھے۔مبارکبادوں کی سوغات لئے انہوں نے گھر کا رخ کیا۔ اب ریٹرننگ افسر کی طرف سے سرکاری (اور مکمل) نتیجے کا انتظار تھا۔ ریٹرننگ افسر کے دفتر سے صرف ڈیڑھ، دو کلومیٹر پر واقع پولنگ سٹیشنوں کے پریذائیڈنگ افسروں کو یہ فاصلہ طے کرنے میں ڈیڑھ، دو دن لگ گئے۔ ووٹوں کی مکمل گنتی میں ان کے حریف علی زاہد کو 3 ہزار سے زائد کی سبقت حاصل ہو گئی تھی۔ غلام علی عباس کی کہانی اپنی جگہ، لیکن اس کہانی کا کمزور پہلو یہ ہے کہ فوج کے جوانوں کو پولنگ کے بعد گنتی مکمل ہونے تک پولنگ سٹیشنوں پر ہی رہنا تھا اور پھر اپنی نگرانی میں پریذائڈنگ افسروں کو متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ ریٹرننگ افسر تک پہنچانا تھا۔