دھاندلی والی حکومت ملک کو آگے نہیں لے جا سکتی: سعد رفیق
سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''دھاندلی سے بننے والی حکومت ملک کو آگے نہیں لے جا سکتی‘‘ اور یہ ہمارا ہی کام تھا کہ ملک کو اس قدر آگے لے گئے کہ اسے پیچھے لے جانا پڑا؛ حتیٰ کہ پیچھے بھی کچھ ضرورت سے زیادہ ہی ہو گیا‘ انہوں نے کہا کہ ''یہاں بے لوث خدمت اور قربانی کا صلہ قتل‘ جلا وطنی‘ جیل‘ تشدد‘ بہتان اور پیشیاں ہیں‘‘ اور جو چار پیسے بنائے ہیں ‘اسی بے لوث خدمت ہی کا نتیجہ ہیں‘ جس کی وجہ سے پیشیاں بھگت رہے ہیں اور جیل کی سزا بھی کاٹ رہے ہیں‘ کیونکہ ہم نے تو جو کچھ کیا تھا ‘بے لوث خدمت اور قربانی سمجھ کر ہی کیا تھا ‘لیکن نیب کو اس بے لوث خدمت اور قربانی کی شاید سمجھ ہی نہیں آ رہی اور ہر تیسرے دن طلب کر لیتا ہے اور اس نا سمجھی میں لگتا ہے کہ ہمارا کُونڈہ ہی کر کے رکھ دے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''سانچ کو آنچ نہیں‘‘ لیکن یہ کوئی عجیب آنچ ہے کہ سانچ کو بھی معاف نہیں کر رہی۔ آپ ٹویٹر پر ایک بیان نشر کر رہے تھے۔
الیکشن کمیشن نے نا اہلی اور بددیانتی کا مظاہرہ کیا: قمر زمان کائرہ
پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''الیکشن کمیشن نے نا اہلی اور بددیانتی کا مظاہرہ کیا‘‘ جو کہ ہم نے اور نواز لیگ نے مل کر ہی قائم کیا تھا۔ اس لیے اپنے آپ سے یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہور چُوپو! اگرچہ بددیانتی کے لیے بھی اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس لیے ہم حیران بھی ہیں کہ نا اہل الیکشن کمیشن نے یہ بددیانتی کر کیسے لی۔ اس لیے ان دو الزامات میں سے ایک کو ہم واپس لیتے ہیں‘ کیونکہ یا تو وہ نا اہل نہیں ہے یا بددیانت نہیں‘ کیونکہ دونوں مصلحتیں ایک دوسرے کے مخالف ہیں‘ انہوں نے کہا کہ '' چیف الیکشن کمشنر استعفیٰ دیں‘‘ اگرچہ استعفے سے ہمیں تو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران کی اخلاقی شکست فتح کی صورت میں سامنے آئی‘‘ جبکہ ہماری شکست اخلاقی فتح سے کم نہیں۔ آپ اگلے لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
قوم کے مینڈیٹ پر آخری دم تک پہرہ دیں گے: حمزہ شہباز
ن لیگ کے رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''قوم کے مینڈیٹ پر آخری دم تک پہرہ دیں گے‘‘ کیونکہ قوم نے مینڈیٹ ہی پوری کنجوسی سے دیا ہے‘ جبکہ قوم نے ووٹ کو واقعی عزت دے دی اور ووٹ عمران خان کو‘ کیونکہ وہ ہمیں ووٹ دے کر اسے مزید بے عزت نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس کے علاوہ اس نے ووٹر کو بھی عزت دی‘ جو ہمارے دور میں اسے کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''آئین و قانون کے مطابق بھرپور کردار ادا کریں گے‘‘ کیونکہ ہمیں یہ موقعہ پہلی بار ملا ہے‘ جبکہ پہلے تو ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ آئین اور میرٹ بھی کوئی چیز ہوتی ہے کہ والد صاحب کی زبان سے نکلا ہوا لفظ ہی قانون ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے پہلے بھی مثبت کردار ادا کیا اور آئندہ بھی کریں گے‘‘ لیکن یہ کردار کچھ ضرورت سے زیادہ ہی مثبت ہو گیا تھا؛ حتیٰ کہ عدلیہ کو اس کا نوٹس لینا پڑتا ہے اور اب تک مسلسل لے رہی ہے‘ اس لیے آئندہ شاید اس کا موقعہ نہ ہی ملے۔ آپ اگلے روز الیکشن پر ڈسکشن کے دوران ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔
نتائج بدلے جا سکتے ہیں‘ عوام کے دل نہیں: رانا تنویر حسین
سابق وفاقی وزیر و نو منتخب رکن قومی اسمبلی رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''نتائج بدلے جا سکتے ہیں‘ عوام کے دل نہیں‘‘ اور عوام نے دل سے مجبور ہو کر ہی ہمیں ہرایا بھی ہے‘ کیونکہ ان کے دل عمران خان کے ساتھ ہو گئے تھے‘ جنہیں بدلنے کی کوشش میں اس کے خلاف کتاب بھی لکھوائی گئی ‘لیکن ان کے دل پھر بھی نہ بدلے اور ہم جو سمجھے تھے کہ نواز شریف کے جیل جانے سے ہمیں ہمدردی کے ووٹ بھی مل جائیں گے‘ لیکن اس کا اتنا اثر ہوا کہ ایک قیدی کو ووٹ کس خوشی میں دیئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ن لیگ انتخابات میں ہونے والی دھاندلی بے نقاب کرے گی‘‘ تاہم اب پتا چلا ہے کہ انہوں نے دھاندلی سے فارغ ہو کر نقاب اتار کر صندوق میں ٹھپ کر دیا ہے‘ کیونکہ اس کی اب ضرورت ہی نہیں رہی تھی۔ آپ اگلے روز پنڈی داس میں خطاب کر رہے تھے۔
اور اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
بریدہ گیسوئوں میں آنکھ کا رستا نہیں تھا
وہ چہرہ خوبصورت تھا مگر دیکھا نہیں تھا (محمد اظہار الحق)
یہ راستا مرے اپنے نشاں سے آیا ہے
مرے ہی نقشِ کفِ پا تھے مجھ سے پہلے بھی (جلیل عالی)
ستارہ صبح کا میں‘ اور چراغ شام کا تُو
نہ تیرے کام کا میں ہوں نہ میرے کام کا تُو
وہاں پہ زینۂ ذلّت سے جانا پڑتا ہے
امیدوار ہے عزت کے جس مقام کا تُو
یہاں تو مفت میں دھتکار بھی نہیں ملتی
بلا معاوضہ طالب ہے احترام کا تُو (کبیر اطہر)
لیاقت جعفری اک پل کو تنہا چھوڑ دے مجھ کو
مجھے اپنے علاوہ بھی کسی سے بات کرنی ہے (لیاقت جعفری)
وہ اسم یاد ہے جو تُو نے پڑھ کے پھونکا تھا
وہ رات یاد ہے جس رات نیم جان تھا میں (دلاور علی آذر)
وہ کسی شخص کو مرتے ہوئے کیا دیکھے گا
جو دیا بجھنے کا منظر بھی نہیں دیکھتا ہے
میں تو پھر نیچے‘ بہت نیچے ہوں اس کی نسبت
جبکہ وہ اپنے برابر بھی نہیں دیکھتا ہے (وقار حسن)
تو نے دی ہے مجھے سزا جس پر
جرم وہ قابلِ معافی تھا (امین کنجاہی)
کون مجھ میں اڑان پھونکے گا
آشیانے سے گر چکا ہوں میں (محمد شہاب عالم قریشی)
آج کا مقطع
سوچا نہیں کرتے ہیں‘ ظفرؔ ڈوبنے والے
پانی اگر اتنا ہے‘ تو گہرائی بھی ہو گی