تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     08-08-2018

اتباع رسول ﷺ

نبی کریم ﷺ کی اتباع ہر مومن ومسلمان کے لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجیدکے مختلف مقامات پر نبی کریم ﷺ کی اطاعت اور اتباع کے حوالے سے بڑی اہم باتیں ارشاد فرمائیں۔ سورہ احزاب کی آیت نمبر21 میں ارشاد ہوا: ''بلاشبہ یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے۔ـ‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 31 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''آپ کہہ دیں اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔اور وہ معاف کر دے گا تمہارے گناہ اور اللہ بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے۔‘‘اسی طرح سورہ نساء کی آیت نمبر 80 میں ارشاد ہوا: ''جو اطاعت کرے گا‘ رسول اللہﷺ کی ‘تو درحقیقت اس نے اطاعت کی۔‘‘سورہ احزاب کی آیت نمبر71 میں ارشا د ہوا : ''تو نہیں ہم نے بھیجا آپ کو اور جو کوئی اطاعت کرے اللہ اور اس کے رسول کی تو یقینا اس نے کامیابی حاصل کی بہت بڑی کامیابی۔‘‘ اسی طرح سورہ نساء کی آیت نمبر 13 میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا ‘وہ داخل کرے اسے (ایسے ) باغات میں (کہ)بہتی ہیں ان کے نیچے سے نہریں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں‘ اُن میں اور یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘سورہ نور کی آیت نمبر 52 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو اطاعت کرے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اور وہ ڈرے اللہ سے اور اس کے ساتھ تقویٰ اختیار کرے ‘تو یہی لوگ ہیں کامیاب ہونیوالے ۔‘‘
اس کے مدمقابل جو لوگ نبی کریمﷺکی اطاعت اور اتباع سے انحراف کرتے ہیں‘ ان کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر بہت سے اہم ارشادات کا نزول فرمایا : سورہ نور کی آیت نمبر 63 میں ارشاد ہوا''پس چاہیے کہ ڈریں وہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیں ‘اس (رسول) کے حکم کی کہ پہنچے انہیں کوئی آزمائش (دنیامیں) یا پہنچے انہیں دردناک عذاب (آخرت میں)۔‘‘سورہ نساء کی آیت نمبر65 میں ارشاد ہوا: ''پس تیرے رب کی قسم یہ مومن نہیں ہو سکتے‘ یہاں تک کہ آپ کو منصف (نہ) مان لیں (ان باتوں) میں جو اختلاف اُٹھے‘ اُن کے درمیان پھر وہ نہ پائیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی (اس) سے جو آپ فیصلہ کریں اور وہ تسلیم (نہ) کرلیں اسے (خوشی سے) ۔‘‘سورہ نساء کی آیت نمبر14 میں ارشاد ہوا: ''اور جو نافرمانی کرے گا‘ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اور تجاوز کرے‘ اس کی حدود سے (تو) وہ داخل کرے گا‘ اسے آگ میں (اور وہ) ہمیشہ رہے گا‘ اس (آگ) میں اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘
نبی کریمﷺ کی اتباع اور اطاعت کے مثبت نتائج اور آپ کی نافرمانی کے ہلاکت خیز نتائج کے باوجود ہم یہ مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ معاشرے کے بہت سے لوگ نبی کریم ﷺ کے اسوہ سے انحراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان اسباب کا تجزیہ کریں اور ان رکاوٹوں پر غور کریں‘ جو نبی کریمﷺ کی اتباع کے راستے میں حائل ہیں‘ تاکہ ان رکاوٹوں کو عبور کرکے نبی کریمﷺ کی صحیح معنوں میں اطاعت اور پیروی کی جا سکے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی اتباع کے راستے میں حائل رکاوٹیں درج ذیل ہیں:
1۔ آباؤاجداد کی اندھی پیروی: نبی کریم ﷺ کی اتباع کے راستے میں آباؤاجداد کی پیروی ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ قرآن مجید کی مختلف آیات اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں۔سورہ زخرف کی آیت نمبر24 میں ارشاد ہوا: ''اور اسی طرح ہم نے نہیں بھیجا آپ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا‘ مگر اس(بستی) کے خوشحال لوگوں نے کہا بے شک ہم نے پایا اپنے آباؤ اجدا کو ایک طریقے پر اور بے شک ہم ان کے قدموں کے نشانات کے پیچھے چلنے والے ہیں۔ اس (ڈرانے والے)نے کہا اور کیا (بھلا) اگر میں لے آؤں تمہارے پاس زیادہ ہدایت والے طریقے کو (اس) سے جس پر تم نے پایا اپنے آباؤ اجداد کو انہوں نے (جواب میں) کہا بے شک ہم جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو انکار کرنے والے ہیں۔‘‘سورہ بقرہ کی آیت نمبر170 میں ارشاد ہوا: '' اور جب کہا جائے ان سے پیروی کرو (اس چیز کی) جو نازل کی ہے ‘اللہ نے (تو) کہتے ہیں‘ بلکہ ہم پیروی کریں گے (اس کی) جس پر ہم نے پایا ہے اپنے آباؤ اجداد کو‘ حالانکہ اگرچہ ان کے آباؤ اجداد نہ سمجھتے ہوں کچھ (بھی) اور نہ ہی وہ سیدھے راستے پر ہوں۔‘‘ 
2۔اپنے سرداروں اور بڑوں کی بات کو بلا چوں چراں ماننا:قرآن مجید کا مطالعہ یہ بات بھی سمجھاتا ہے کہ بہت سے لوگ نبی کریمﷺ کے اسوہ سے انحراف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کے فرامین کے مقابلے میں اپنے بڑوں یا سرداروں کی بات کو بلا چوں چراں تسلیم کر لیتے ہیں ؛ حالانکہ ان کو اپنے سرداروں کی بات کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات کو ماننا چاہیے؛ چنانچہ اللہ ‘سورہ احزاب کی آیت نمبر 67میں ارشاد فرماتے ہیں : ''جس دن اُلٹ پلٹ کیے جائیں گے‘ اُن کے چہرے آگ میں وہ کہیں گے: اے کاش! ہم نے اطاعت کی ہوتی ‘اللہ کی اور ہم نے اطاعت کی ہوتی رسولﷺ کی۔ اور وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! بیشک ہم نے اطاعت کی اپنے سرداروں کی اور اپنے بڑوں کی تو انہوں نے گمراہ کر دیا ہمیں (سیدھے) راستے سے۔‘‘
3۔اپنے مذہبی رہنماؤں کی ہر بات کو بلا چوں چراں تسلیم کر لینا:قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہود ونصاریٰ نے اپنے مذہبی رہنماؤں کی ہر بات کو بلاچوں چراں تسلیم کرنا شر وع کر دیا اور اپنے مذہبی رہنماؤں‘ یعنی احبار اور رہبان کو عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اُن کو منصب ِربوبیت پر فائز کردیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 31میں ارشا د فرماتے ہیں : ''انہوں نے بنالیا ہے اپنے علما ئو اور درویشوں کو (اپنا) رب‘ اللہ کے سوا اور مسیح بن مریم کو (بھی)حالانکہ نہیں وہ حکم دیے گئے‘ مگر یہ کہ وہ عبادت کریں ایک معبود کی‘ نہیں ہے ‘کوئی معبود مگر وہی۔ پاک ہے وہ اس سے جو وہ شریک بناتے ہیں۔ ‘‘یہودونصاریٰ کی اس غلط روش سے اہل اسلام کو عبرت حاصل کرنی چاہیے اور فقط اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات ہی کو حرف ِآخر سمجھنا چاہیے۔
4۔بری صحبت:قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ کئی لوگ نبی کریمﷺ کے راستے سے بری صحبت کی وجہ منحرف ہو جائیں گے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حوالے سے سورہ فرقان کی آیت نمبر29 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جس دن دانتوں سے کاٹے گا‘ ظالم اپنے ہاتھوں کو۔ کہے گا: اے کاش! میں اختیار کرتا رسول ﷺکے ساتھ راستہ۔ ہائے !بربادی کاش‘ میں نہ بناتا فلاں کو ولی دوست۔ بلاشبہ یقینا اس نے مجھے گمراہ کر دیا (اس) ذکر (یعنی قرآن) سے اس کے بعد کہ جب وہ آیا میرے پاس۔ اور ہے شیطان انسا ن کو (عین موقعہ پر ) چھوڑ جانے والا (یعنی دغا دینے والا ہے۔) 
5۔خواہش کی پیروی:قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص خواہش کی پیروی کرنا شروع کر دیتا ہے اور اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیتا ہے‘ وہ سیدھے راستے سے بھٹک جاتا ہے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ جاثیہ کی آیت نمبر23 میں ارشا د فرماتے ہیں: ''جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا اور اللہ نے (بھی) اسے گمراہ کر دیا (جو) علم کے باوجود(گمراہ ہو رہا ہے) اور مہر لگا دی اس کے کان اور اس کے دل پر اور ڈال دیا اس کی آنکھ پر پردہ‘ پھر کون ہدایت دے سکتا ہے اسے اللہ کے بعد تو (بھلا) کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔‘‘
نبی کریم ﷺ کا فرمان مبار ک ہے: '' تم میںسے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا‘ جب تک وہ اپنی خواہش کو اس کے تابع نہیں کرتا جو میں لایا ہوں۔‘‘سورہ نازعات کی آیت نمبر48میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا‘ جو اپنی خواہش کو اللہ کے سامنے کھڑے ہونے کے ڈر سے دبا لیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ''اور رہا وہ جو ڈر گیا اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے اور اس نے روکا (اپنے) نفس کو (بری )خواہش سے۔ ‘‘
6۔نزول قرآن کو لمبا عرصہ گزر جانا:جب نزول وحی کوزیادہ عرصہ گزر جاتا ہے‘ تو بہت سے لوگوں کے دل سخت ہو جاتے ہیں۔ قرون اولیٰ کے لوگ ایمان و عمل کے لحاظ سے بہترین لوگ تھے‘ لیکن عہد نبوت سے بلحاظ زمانہ بعد میں آنے والے لوگ دین سے بھی بتدریج دور ہوتے چلے گئے۔ زمانہ نبوت سے بتدریج دور ہو جانے والے لوگ دین سے بھی بتدریج دور ہوتے چلے گئے۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حدید کی آیت نمبر 16میں یوںکیا: ''اور وہ نہ ہو جائیں ان (لوگوں) کی طرح ہو جو (ان) سے پہلے کتاب دیے گئے پھر گزر گئی ان پر لمبی مدت تو اس کے دل سخت ہو گئے اور ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں۔‘‘
ان تما م بصیرت افروز نکات پر غور کرنے بعد انسان اس بات کو بھانپ سکتا ہے کہ نبی کریمﷺ کی اتباع کے راستے میں کون کون سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ہمیں ان رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے بلا چوں چراں‘ نبی کریم ﷺ کی اتباع اور اطاعت کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے۔ اگر ہم ایسا کریں گے‘ تو دنیا اور آخرت میں کامیابیوں کو حاصل کر سکتے ہیں اور اگر ہم نے آپﷺ کے اسوہ کامل کی پیروی اور اتباع کے راستے کو اختیار نہ کیا‘ تو ہم دنیا اور آخرت میں ناکام ونامراد ہ جائیںگے ۔(العیاز باللہ) اللہ تبار ک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو نبی کریمﷺ کی غیر مشروط اطاعت اور اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved