تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     08-08-2018

خاموش دیکھتے رہے ؟

وادیٔ کشمیر پر قابض بھارتی افواج کے جبر و تشدد کا سلسلہ رکتا نظر نہیں آ رہااور ہر لمحے ایک کشمیری نوجوان کی زندگی کو بھارتی گولیوں کی بھینٹ چڑھتے دیکھا جا سکتا ہے۔ دنیا کی وہ کون سی جمہوریت ہے‘ جہاں سڑکوں پر ہیومن رائٹس کیلئے مارچ کرنے والوں پر گولیاں چلائی جاتی ہیں؟امریکہ اور مغربی ممالک نے کبھی احتجاجی ریلیوں میں شریک افراد کو پیلٹ گنوں سے اندھا کیا ہے؟وقت گزرتا جائے گا اورتاریخ بنتی جائے گی اور جب وادی ٔکشمیر میں سفید چھڑی لئے ہوئے‘ آج کے بچے‘ بوڑھے ہو چکے ہوں گے اوردنیا بھر سے سیاح جب اپنے خاندان کے ساتھ سیا حت کیلئے آزاد وادیٔ کشمیر میں داخل ہوں گے‘ تو جنت نظیروادی میںاپنے والدین کے ہمراہ گھومتے ہوئے ہر جانب سفید چھڑی والوں کو چلتے پھرتے دیکھ کران کے بچے حیرانی سے اپنے ماں باپ سے پوچھیں گے کہ یہاںکا ہر بزرگ اندھا کیوں ہے؟تب ان کے والدین بتائیں گے کہ آج کے یہ نابینا بوڑھے‘ وطن کی آزادی کیلئے جب اپنے سکولوں کالجوں سے نکل کرسڑکوں پر آزادی کے نعرے لگاتے تھے‘ تو یہاں پر قابض انڈین فوج ان کے سر کے نشانے لے کر ان پر پیلٹ گنوں سے فائرنگ کر تی تھی‘ جس سے یہ اندھے ہو گئے اوراگر اس وقت اپنے ماں باپ کی انگلیاں پکڑکر چلتے ہوئے بچوں نے اپنی آنکھوں میں آنسو لئے‘ ان سے یہ سوال کیا کہ اس وقت ہماری پارلیمنٹ اور صدر وزیر اعظم کا دفتر کہاں تھا؟انہوں نے کھڑے ہو کر ظالم انڈین فوج کو روکا کیوں نہیں؟ توسوچئے کہ ان کے پاس اس وقت کیا جواب ہو گا؟ 
'' کشمیر پر بھارتی قبضہ ناجائزاور غیر منصفانہ ہے ‘‘۔ یہ تاریخی جملہ دنیا کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا نے 2 ستمبر1998ء کو ڈربن میں (نیم:NAM ) کی 12 ویں کانفرنس میں اپنی صدارتی تقریر کے دوران اس میں شریک بھارتی وفد کے ڈیسک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ۔اقوام عالم کو وارننگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر کشمیر کا کوئی پر امن حل نہ نکالا گیا‘ تو یہ گلوبل امن اور علاقائی سلامتی کیلئے اس قدر خطرناک ہو جائے گا کہ اکیسویں صدی میں پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ جائے گی اور پھر نیم جیسی تنظیمیں ‘جہاں ہم سب بیٹھے ہوئے ہیں ‘سب بے معنی ہو کر رہ جائیں گئیں۔26 مارچ 2004ء کو برطانیہ کے وزیر خارجہ جیک سٹرا نے ایریا سٹڈی سنٹر پشاور یونیورسٹی میں پاک برطانیہ تعلقات پر ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان1947 ء سے چلا آ رہا کشمیر کا مسئلہ ‘اگر حل ہو جاتا ہے‘ تو اس سے اسلام اور مغرب کے درمیان غلط فہمیوں اور نفرتوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔
اقوام عالم جو آج مصلحتوں اور تہذیبوں کے تصادم کے نام پر مجرمانہ غفلت کا شکار ہو کر خاموش بیٹھی ہوئی ہیں‘ انہیں جان لینا چاہئے کہ کشمیر کسی نام کی وجہ سے پریشان کن مسئلہ نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک قوم کا مسئلہ ہے ‘جو اپنی آزادی پر قابض ظالم ترین طاقت کی غلامی سے جلد از جلد باہر نکلنا چاہتی ہے۔ 30 اکتوبر1947ء کو ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت نہرو کی لیاقت علی خان کو بھیجی جانے والی بھارت سرکارکی وہ ٹیلیگرام‘ جس میں ان الفاظ یہ وعدہ کیا گیا ہے '' ہم آپ کو مکمل یقین دہانی کراتے ہیں کہ جیسے ہی امن ہونے سے حالات بہتر ہوجائیں گے ‘ہم اپنی تمام فوجیں کشمیر سے نکال لیں گے اور پھر یہ کشمیریوں کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں؟ اور اس بات کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے کرایا جائے گا۔ میرا اور بھارتی حکومت کا یہ وعدہ ‘صرف پاکستان ہی سے نہیں‘ بلکہ کشمیریوں اور دنیا بھر سے بھی ہے کہ ہم رائے شماری کے نتائج کا پوری ایمانداری سے احترام کریں گے‘‘۔ 
پنڈت نہرو نے 1948ء میں کشمیر پر سیز فائر کے لیے جب اقوام متحدہ سے رجوع کیا تھا‘ تو اقوام متحدہ نے 13 اگست کو جو قرار داد منظور کی اس میں صاف اور واضح طور پر لکھا ہوا ہے:The question of accession of the State of Jammu and Kashmir to India or Pakistan will be decided through the democratic method of a free and impartial plebiscite.اب جو بھی ممالک اور عالمی شخصیات بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہہ کر پکارتے ہیں‘ ان سے کوئی پوچھے؛ جو ملک آج کی اکیسویں صدی میں دوسری قوموں کو زبردستی غلام بنا کر رکھے‘ اسے تو جمہوریت کا نام لینے کا کوئی مہذب معاشرہ حق نہیں دیتا۔ آپ لوگ اسے سب سے بڑی جمہوریت نا جانے کس طرح کہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہر آنے والے سیکرٹری جنرل کی میز پر کشمیر پر منظور کی جانے والی قرار دادیں موجود ہوتی ہیں‘ جن میں لکھا ہوتا ہے کہ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کمیشن کی رائے سے کشمیر میں ایک plebiscite Administrator مقرر کریںگے ‘جس کی ایمانداری اصول پرستی اور غیر جانبداری مسلمہ ہو گی اور جسے سب فریقوں کاا عتماد حاصل ہو گا۔ دنیا ٹی وی نے پاک بھارت وزرا ء اعظم کی اس ملاقات اور جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ پر کامران شاہد کی میزبانی میں پاکستان اور بھارت کے سینئر اور منجھے ہوئے صحافیوں اور سابق فوجی افسران کے درمیان ایک ڈائیلاگ کا اہتمام کیااور اس پروگرام میں بھارتی ٹی وی سے منسلک میزبان نے کہاتھا کہ بھائی آپ کس کشمیر کی بات کر رہے ہیں؟ یہ تو اب ہماری پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر بھارت کا حصہ اور صوبہ بناتے ہوئے اپنے ساتھ با قاعدہ طور پر شامل کر چکے ہے۔ قریباً ایسے ہی الفاظ کلدیپ نیئر نے 2009ء میں اپنے مضمون میں اس طرح لکھے تھے:Kasmir has been declared a part of India by a two third majority in both the houses of India.کلدیپ نیئر سمیت بھارتی دانشوروں کا مسئلہ کشمیر پر ا ستدلال یہ ہے کہ جب تک بھارت کے دونوں ایوان دو تہائی اکثریت سے اجا زت نہ دیں۔ بھارتی حکومت کشمیر پر کسی بھی فیصلے تک نہیں پہنچ سکتی۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں جب جب آزادی کی لہر جانوں کی قربانی دیتے ہوئے بھارتی فوج کے ہاتھوں سے بے قابو ہو نے لگتی ہے‘ تو پھر اچانکـ بھارت اپنے کسی بڑے شہر میں دہشت گردانہ کارروائی کرواتے ہوئے دنیاکے سامنے خود دہشت گردی کا شکار ہونے کا واویلا کر کے تحریک آزادیٔ کشمیر کو دہشت گردی کی چیخ و پکار میں گم کر دیتاہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سمیت ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی اور سینئر تجزیہ کار اور کلدیپ نیئر سمیت پورا انڈین میڈیا مسئلہ کشمیر پر اپنی حکومت کی ہدایات پر جو کہانیاں تراش رہا ہے‘ ان کی حیثیت سوائے ہٹ دھرمی کے اور کچھ بھی نہیں‘ بلکہ اگر پورا بھارت سچ سننے کی ہمت اور طاقت رکھتا ہے‘ تو بھارت کے سابق سیکرٹری اطلاعات و نشریات ایس ایس گل کی کتاب''The Dynasty''کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے یہ الفاظ پڑھنے کی کوشش کرے:For India, Kashmir has become a self-inflicted wound that has bled her over the years and destroyed India's foreign policy perspectives.
ایس ایس گل سابق بھارتی سیکرٹری اطلاعات یہ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کشمیر پر بھارت کی کمزور پوزیشن نے اسے اخلاقی طور پر سفارتی محاذ پر اس کی پوزیشن کمزور ہوتی چلی جا رہی ہے۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved