ملک کے سیاسی تھیٹر میں پہلی بار حکومت سازی کے مراحل کو جس غیر روایتی انداز میں نمٹایا گیا، ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ بی این پی (ایم) کے اختر مینگل کے گستاخانہ انکار کے سوا، جن آزاد اراکین اور چھوٹی جماعتوں کی حمایت درکار تھی انہیں باری باری بنی گالہ میں متوقع وزیر اعظم کے سامنے پیش کرکے حمایت وصول کرائی گئی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ماضی میں نواز شریف اور آصف زرداری سمیت جس کسی کو بھی ایم کیو ایم کی حمایت چاہیے ہوتی انہیں نائن زیرو کی یاترہ ضرور کرنا پڑتی‘ لیکن اس بار ایم کیو ایم کے وفد نے بنی گالہ پہنچ کے اپنے چھ ممبران اسمبلی عمران کے سپرد کرکے تبدیلی کی مِتّھ (Myth) کو سندِ توثیق عطا کر دی۔ انہی غیر روایتی تغیرات کے جَلُو میں عمران خان چودہ اگست کو ملک کے بائیسویں وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھا لیں گے۔ اپوزیشن اگرچہ توقع کر رہی تھی کہ پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت سے بھی کم ووٹ رکھنے والے عمران کمزور پرائم منسٹر ہوں گے‘ لیکن حالات کے تیور بتاتے ہیں کہ وہ عددی طور پہ کمزور حکومت کے طاقتور وزیر اعظم ثابت ہو سکتے ہیں۔
انتخابی دھاندلیوں پر وسیع تر اتفاق رائے کے باوجود اپوزیشن جماعتیں تا حال کسی فیصلہ کن راہِ عمل پہ اتفاق رائے تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں۔ کوششِ بسیار کے باوجود مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو اپوزیشن کے کسی اجلاس میں شرکت پہ آمادہ نہیں کر سکے۔ منی لانڈرنگ اور بد عنوانی کے نئے مقدمات جس طرح زرداری خاندان کے تعاقب میں ہیں، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اس طویل اور صبر آزما سفر میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت زیادہ دیر تک اپوزیشن کا ساتھ نہیں دے پائے گی۔ جی ڈی اے کی نصرت سحر عباسی کہتی ہیں: سندھ حکومت پیپلز پارٹی کو پلیٹ میں رکھ کے پیش کی گئی، لا ریب، پیپلز پارٹی اس نئے بندوبست کی دوسری بڑی بینیفشری جماعت بن کے ابھری ہے اور سچ تو یہی ہے کہ غیر معمولی مراعات اور مراتبِ جلیل کے کھو جانے کا خوف جرأت کے نشتر کو کند کر کے انسان کو بغاوت اور اولوالعزمی کے جذبات سے محروم کر دیتا ہے۔ ہر چند، پیپلز پارٹی کی اجتماعی خواہش تو اپوزیش کے ارادوں سے ہم آہنگ رہے گی‘ لیکن آصف علی زرداری، جو اپنی پارٹی کی حرارکی سے زیادہ پڑوسی کی رائے کو وقعت دیتے ہیں، ہمیشہ کی طرح پُرامن بقائے باہمی میں عافیت تلاش کریں گے؛ چنانچہ غالب امکان یہی ہے کہ گردشِ ایام سے استفادہ کرنے کے فن میں مہارت رکھنے والوں کیلئے اپوزیشن کی وادیٔ پُر خار میں بسیرا مشکل ہو جائے گا۔ کیا زرداری کی پیپلز پارٹی، تحریک انصاف حکومت کے خلاف اپوزیشن کی مزاحمتی تحریک کا حصہ بن پائے گی؟ مولانا مودودیؒ کہتے ہیں کہ ''کسی بھی فرد یا جماعت کیلئے اس نظام سے لڑنا ممکن نہیں ہوتا، جس سے وہ مفاد حاصل کر رہے ہوں‘‘۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان جیسے قطعیت کے ساتھ بات کرنے والے مثالیت پسند انسان کے لئے دوامِ اقتدار کی خاطر قدم قدم پہ سمجھوتوں اور پراگندہ خیال جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا کیسے ممکن ہو گا؟ ابھی کل ہی کی بات ہے، خیبر پختون خوا میں کم نشستوں کے باعث پی ٹی آئی نے چھوٹی جماعتوں کے اشتراک سے حکومت بنائی تھی۔ پانچ سالوں کے دوران وہاں عمران نے اپنی پہلی اتحادی جماعت، قومی وطن پارٹی کو دو بار گورنمنٹ سے نکال باہر کیا، وہ دل پہ کوئی بوجھ لئے بغیر ناتہ توڑ دیتے ہیں‘ لیکن ایک نیا رشتہ جوڑنے کیلئے ہر وقت تیار بھی رہتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں اصلاحات اور خیبر بینک کے معاملات پہ جماعت اسلامی کے ساتھ چار سال تک رسہ کشی جاری رکھی، جماعت بھی آخری دنوں میں پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ گئی تھی۔ یہ تو پرویز خٹک جیسے جہاں دیدہ اور تجربہ کار وزیر اعلیٰ تھے جنہوں نے کمال مہارت سے اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں کو انگیج رکھنے کے علاوہ ڈلیور بھی کیا‘ جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی دوسری بار دو تہائی اکثریت کے ساتھ خیبر پختون خوا کی بڑی قوت بن کے ابھری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ابتدائی مراحل میں عمران کو ریاستی ڈھانچے میں کارفرما طاقتور اداروں کی مشروط حمایت حاصل رہے اور عالمی برادری خاص طور پہ مغربی دنیا بھی ایک لبرل اور روشن خیال لیڈر کو مناسب تعاون دے کر کامیاب بنانے کی کوشش کرے‘ لیکن سسٹم کو تو لا محالہ انہیں خود ہی چلانا پڑے گا۔ اگر انہوں نے ذہنی لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے متضاد قوتوں کے تال میل سے خود طاقت کا توازن قائم نہ کیا تو یہ موافق ماحول زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکے گا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کے خلاف عمران کا جارحانہ رویہ سیاسی اضطراب کو بڑھانے کا سبب بنے گا۔ پیپلز پارٹی اور نواز شریف کو سیاسی سمجھوتوں تک لانے کی خاطر بد عنوانی کے الزامات کے تحت سزائیں دلوا کے دیوار سے لگانے کی حکمت عملی جلد یا بدیر سیاسی محاذ آرائی کو تصادم کی سطح تک پہنچانے کے اسباب مہیا کر دے گی؛ تاہم بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کامیابی کے بعد عمران جارحانہ روش ترک کر کے سیاسی ماحول کو نارمل بنا لیں گے۔ بلا شبہ، ہماری سیاست کے افسانے میں رنگ بھرنے والے اربابِ بست و کشاد کی ذرا سی کسر نفسی اور تھوڑی سی دیانت انہیں اس بات کا یقین دلانے کیلئے کافی ہو گی کہ زندگی کا تنّوع اور اس کائنات کی بوقلمونی ہمارے محدود اذہان کے احاطے سے باہر ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف محتاط طرز عمل اختیار کرنے کا اشارہ دے چکی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ وہ عمران کو وعدوںکی تکمیل اور اپنی صلاحیتون کو آزمانے کا موقع دینے کو تیار ہیں؛ البتہ خود ستائی کے خُوگر آصف زرداری کی بے رحم خاموشی نہایت معنی خیز ہے۔ ان کی جماعت 'پائے رفتن نہ جائے ماندن‘ جیسی کیفیت سے دوچار نظر آتی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی نے نواز لیگ کی قیادت میں منظم ہونے والی اپوزیشن سے الگ ہو کے تحریک انصاف کے ساتھ خفیہ یا ظاہرہ تعاون کی راہ چن لی تو وہ جمہوری حلقوں میں اپنی ساکھ گنوا بیٹھے گی‘ اور اگر وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر چلنے کی راہِ عمل اختیار کر ے گی تو آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور سمیت کئی پارٹی رہنمائوں کو منی لانڈرنگ اور بد عنوانی کے درجنوں مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا‘ جس سے زرداری کو ذاتی اور پارٹی کو سیاسی طور پر ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے؛ چنانچہ پیپلز پارٹی ایسے دو راہے پہ آ کھڑی ہوئی ہے، جہاں فیصلہ کن سیاسی کشمکش کے دوران جمہوریت کے تقاضے انہیں اپوزیش کے کارواں میں شمولیت کی طرف کھینچتے رہے ہیں‘ لیکن بقاء کی آزمائش انہیں مقتدرہ کے دائیں جانب رہنے پہ مجبور کرتی ہے۔ لا ریب، کچھ لوگ صحیح راستے پہ چلنے کے وہم میں بھٹک جاتے ہیں۔ ان لوگوں کے الفاظ کتنے ٹھیک ہوتے ہیں‘ جو کوئی احمقانہ دعویٰ نہیں کرتے۔ وقت کے ساتھ اپوزیشن کا اتحاد بھی اپنی ہئیت ترکیبی بدلتا رہے گا، مذہبی جماعتیں فی الحال تو انتخابی شکست کے صدمے کے باعث اپوزیشن کی تلخ نوائی سے کچھ سکون پا لیتی ہیں؛ تاہم بالآخر انہیں بھی اپنی راہیں سیکولر اور نیم سیکولر جماعتوں سے الگ کرنا پڑیں گی۔
اس پوری جدلیات کا حیرت انگیز نقطہ یہ ہے کہ عمران خان کی سیاسی اٹھان اسلامی نعروں کی گونج سے ممکن ہوئی اور جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم پاسبان کی سٹریٹ پاور نے انہیں کندھا فراہم کر کے میدان سیاست میں اتارا‘ مگر ان کی کامیابی مذہبی سیاست کے دروازے مقفل کرنے پہ منتج ہوئی۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کی ابتداء دائیں بازو کے روایتی خیالات سے کی لیکن بائیس سالہ سیاسی سفر کے دوران رفتہ رفتہ انہوں نے خیبر پختون خوا میں مذہبی جماعتوں اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کے نظریاتی ووٹ کو اپنا ہم نوا بنا کے دو متضاد خیال طبقات کو اپنی کشتی میں سوار کر لیا‘ لیکن معلوم نہیں، ان کی منزل کہاں ہو گی۔