تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     09-08-2018

اپنا وطن ہونے کا توانا احساس

سعداللہ ‘بھارتی فضائیہ میں دودہائیوں تک فرائض انجام دینے کے بعد اب ریٹائر ہوچکا ہے اور اس وقت 79 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر محیط بھارتی ریاست آسام کے شہر گوہاٹی میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہا ہے‘ لیکن اب اس پر بھارتی شہری نہ ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے۔اس کے ساتھ اس ریاست میں رہنے والے قریباً 40لاکھ دیگر مسلمان بھی بھارتی شہریت کی فہرست سے خارج ہوگئے ہیں؛اگرچہ ان سب کے پاس اپنی بھارتی شہریت ثابت کرنے کا ایک مزید موقع موجود ہے‘تاہم گزشتہ دنوں پہلے مرحلے میں ان سب کوغیرملکی قرار دے دیاگیا‘ اگر اپیل کے مرحلے میں بھی یہ اپنی بھارتی شہریت ثابت نہ کرسکے‘ تو پھران کے لیے بھارتی سرزمین تنگ پڑ جائے گی۔اس صورت حال کے باعث ‘گھنے جنگلوں اور سرسبز پہاڑوں پر مشتمل اس بھارتی ریاست میں ایک نیا انسانی المیہ جنم لینے کے تمام ظاہری اسباب پیدا ہوچکے ہیں۔ریاست کی قریباً 3 کروڑ 70لاکھ کی آبادی‘ میںسے اندازاً 90لاکھ بنگالی نژاد مسلمان ہیں۔ یہ پچھلے سوسال کے دوران یہاں آکر آباد ہوئے‘ جن کا تناسب قریباً 34فیصد بنتا ہے۔ان کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ ان کی بڑی تعداد بنگلہ دیش سے غیرقانونی طور پر آکر آباد ہوئی۔اس گمان کے باعث یہاں اکثر نسلی اور مذہبی فسادات رونما ہوتے رہے ہیں‘ جن میں سے خونریز ترین فسادات 1983ء میں ہوئے تھے۔چھے گھنٹے تک جاری رہنے والے ان فسادات میں اندازاً 10ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا گیا تھا۔ان فسادات کو روکنے کے لیے بھارتی کے حکومتی اداروں کی سستی کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔مختلف رپورٹوں سے یہ ثابت ہوا تھا کہ حکومت نے جان بوجھ کر فسادات کو روکنے کے لیے سست روی کی حکمت عملی اپنائی‘ جس کے باعث نقصان زیادہ ہوا۔ان فسادات کے بعد ریاست کی مسلم اور غیرمسلم آباد ی کے درمیان نفرتیں مسلسل بڑھتی گئیں۔حالات کے پیش نظر بھارتی حکومت نے کچھ عرصہ پہلے فیصلہ کیا کہ وہ ریاست کے تمام شہریوں کی شہریت کی نئے سرے سے تصدیق کرے گی۔اس کے نتیجے میں سامنے آیا ہے کہ ریاست میں بسنے والے قریباً 90لاکھ مسلمانوں میں سے 40لاکھ افراد غیرملکی ہیں۔اس کے بعد سے ریاست میں پھیلنے والی افراتفری اور غیریقینی کی صورتحال کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس کیے گئے۔اس بات پر تشویش کا اظہار سامنے آرہا ہے کہ اگر حتمی مرحلے میں بھی اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کو غیرملکی قرار دے دیا گیا‘ تو پھر کیا ہوگا؟
یہ تمام صورتحال نئے انسانی المیے کی طرف بڑھتی ہوئی نظرآرہی ہے۔افسوسناک طور پر یہ تمام صورتحال بھی موجودہ بھارتی حکومت کی اُسی روش کا عکس دکھائی دے رہی ہے‘ جو اُس نے برسراقتدار آنے کے بعد سے مسلمانوں کے ساتھ اپنا رکھی ہے۔کوئی دن جاتا ہوگا‘ جب کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کی جان و املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا۔ عالمی سطح پر آسام کی صورتحال کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جارہاہے۔دراصل بھارت میں مذہبی انتہاپسندی کو فروغ دے کر جس طرح اس سے حسب ِمنشا سیاسی نتائج حاصل کیے گئے ‘ اُس کے باعث موجودہ بھارتی حکومت اسی راستے کو اپنائے رکھنا چاہتی ہے۔اس روش کو بڑھاوا دینے میں بی جے پی کی ہمنوا ‘راشٹریہ سیوک سنگھ بنیادی کردار ادا کررہی ہے۔ذرا دیکھئے کہ خود آسام کے ایک سابق وزیراعلیٰ ترون گوگوئی قرار دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک سیاسی سٹنٹ کے سوا کچھ بھی نہیں۔اپوزیشن جماعت کانگرس کی طرف سے بھی اس اقدام کی مذمت کرنے کے ساتھ مزاحمت کے اعلانات بھی سامنے آئے ہیں۔ اس تناظر میں بظاہر تو یہی محسوس ہورہا ہے کہ یہ حقیقتاً سیاسی سٹنٹ ہے ‘کیونکہ اتنی بڑی تعداد اگر حتمی مرحلے میں بھی اپنی شہریت کھو بیٹھتی ہے تو پھراسے کہاں بھیجا جائے گا؟اس سوال کا جواب خود حکومت کے پاس بھی نہیں ؛ البتہ اُسے آنے والے انتخابات میں ایسے اقدامات کا سیاسی فائدہ ہونے کی قوی اُمید ہے۔اسی اُمید پر اُس نے لاکھوں مسلمانوں کو شدید بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا کردیا ہے۔ان کا مستقبل داؤپر لگ گیا ہے اور آئندہ چند ہفتوں تک اِس بات کا فیصلہ ہوجائے گا کہ یہ مسلمان بھارتی شہری ہیں یا میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی طرح ان کا بھی کوئی وطن نہیں ہے؟۔
روہنگیا مسلمان بھی کئی صدیوں سے میانمار میں رہتے چلے آرہے ہیں‘ لیکن انہیں ہمیشہ غیرملکی ہی سمجھا گیا اور بالآخر 1982ء میں انہیںمیانمار میں بسنے والے 137نسلی گروہوں کی فہرست سے خارج کردیا گیا‘جس کے نتیجے میں ان سے صحت‘ تعلیم اور رہائش کے علاوہ دیگر بنیادی حقوق بھی چھین لیے گئے۔2012ء میں ان کے خلاف بدترین خونریزی شروع ہوگئی اور ظلم و ستم کی ایسی داستانیں رقم ہوئیں کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔آج بھی لاکھوں روہنگیا بنگلہ دیش میں پناہ لیے ہوئے ہیں‘ جنہیں بنگلہ دیش رکھنے کے لیے تیار ہے ‘نہ یہ واپسی کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔پوری دنیا کی طرف سے میانمار کی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کی گئی‘ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔اس مسئلے پر اُمت مسلمہ کے تن مردہ میں بھی ہلکی سی جنبش دکھائی دی‘ لیکن سب جانتے تھے کہ صرف مذمتی بیانات سے کچھ بھی ہونے والا نہیں ۔سو کچھ نہیں ہوا اور مسئلہ وہیں کا وہی ہے‘اگر اس مسئلے پر عالم اسلام کی طرف سے بھرپور آواز اُٹھائی جاتی‘ تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ میانمار کی حکومت اپنے فیصلے کو واپس نہ لیتی ۔اب بھارت میں اسی طرح کا مسئلہ سراُٹھانے کو ہے۔
ہم آسام اورمیانمار کے مسلمانوں کے ایشو کا جائزہ لیں‘ تو زیادہ گہرائی میں جائے بغیر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جن کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی جاتی ہے‘ تو دنیا میں اُن کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں رہ جاتی‘ اُن کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔تمام رونقیں ‘ تمام بہاریں اپنی زمین اور اپنے وطن کے وجود سے ہی مشروط ہوتی ہیں ۔کہنے کو ہم سب خود کو دوسروں سے زیادہ محب وطن سمجھتے ہیں ‘ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سے زیادہ کسی کے دل میں وطن کا درد نہیں‘ لیکن عملی طور پر سب کچھ اس کے اُلٹ کیا جاتا ہے۔اب پھر جشن آزادی کی آمد آمد ہے۔اس کے لیے زوروشور سے تیاریوں کا سلسلہ بھی اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔اپنے اُس وطن کا ایک اور جشن آزادی جوش و خروش سے منایا جائے گا‘ جسے صرف زمین کے ایک ٹکڑے کے طور پر حاصل نہیں کیا گیا تھا‘بلکہ اس لیے حاصل کیا گیا کہ یہاں اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزاری جاسکے۔حصول وطن کے بعد زندگی اپنے عقائد اور اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کی سہولت تو حاصل کرلی گئی‘ لیکن باقی سب کچھ بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ہم سب اپنے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچتے ہیں کہ آیا بحیثیت ِشہری ہمارے جو فرائض ہیں ‘کیا ہم اُن کو پورا کررہے ہیں؟پوری ایمانداری سے اس بات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پوری دنیا میں ہمارے ملک کی شکل و صورت‘ جس طرح سے بگڑ چکی ہے‘کیا یہ ہم سب کی کرتوتوں کا نتیجہ نہیں ؟ہم کچھ بھی کہتے رہیں ‘ پوری دنیا میں کوئی ایسا نہیں ملتا‘ جو ہماری بات کا یقین کرتا ہو‘ وجہ صرف اتنی سی ہے کہ ہم جو کہتے ہیں‘ وہ کرتے نہیں‘ جو کرتے ہیں وہ کہتے نہیں۔ہمارا ایک بھی ہمسایہ ایسا نہیں‘ جو ہم سے خوش ہو۔ ہمارے اندرونی معاملات اس حد تک دگرگوں ہوچکے کہ ادارے تک شکوک کی زد میں ہی رہتے ہیں۔اعلیٰ سطح پر بھی جھوٹ اس کثرت سے بولا جاتا ہے کہ وہ سچ ہی لگنے لگتا ہے۔انصاف کی صورت دیکھ لیں ‘تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ہم غیرمسلم ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کی شکایات کرتے رہتے ہیں‘ لیکن خو د اپنے ملک میں اقلیتوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ معمولات میں ہم بہت آگے نکل چکے ہیں‘ لیکن معاملات میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں‘ لیکن یقین صرف اتنا ہے کہ بہرحال ہم ایک آزاد وطن کے آزاد شہری ہیں اور اس زیادہ توانا کوئی دوسرا احساس ہوہی نہیں سکتا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved