تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-08-2018

skin deep beauty اور عظیم منصوبہ ساز

بعض اوقات انسان جب اس دنیا کے بارے میں سوچتا ہے‘ تو حیرانی کی بہت سی باتیں سامنے آتی ہیں ۔ انسان کو مسافر کہا گیا ہے ‘جسے اپنا سفر مکمل کر کے منزلِ مقصود تک پہنچنے کی جلدی ہوتی ہے۔ ہم میں سے ہر مسافر ایک ننھے سے بچے کی صورت میں آنکھ کھولتاہے ۔ کئی برس تک اسے کسی بات کا شعور نہیں ہوتا ۔ بارہ‘ تیرہ سال کی عمر تک تو اس کی عقل اس قابل ہی نہیں ہوتی کہ وہ کوئی بڑے فیصلے کر سکے ۔ اپنے قبیلے اور شہر میں وہ کسی اہمیت کا حامل نہیں ہوتا ۔ بیس سے پچاس سال کی عمر کے تین عشرے ہوتے ہیں ‘ جن میں وہ دنیا میں اپنا مقام بناتاہے ۔ اس کے ساتھ ہی اس پہ بڑھاپا آنے لگتاہے ۔ اکثر لوگ موٹے ہوجاتے ہیں ۔ کئیوں کو شوگر اور بلڈ پریشر ہو جاتاہے ۔ساٹھ سال کی عمر میں اسے ریٹائر ڈ کر دیا جاتا ہے ۔ وہ کوئی نمایاں کارنامہ سر انجام دینے کے قابل نہیں رہ جاتا‘بلکہ تیزی سے چل بھی نہیں سکتا ۔ اپنی تمام تر دولت اور ذہانت کے باوجود وہ اس اذیت ناک بڑھاپے کو روک نہیں سکتا۔ 
جب انسان پیدا ہوتاہے ‘تو اس کے ساتھ ہی یہ طے ہوجاتاہے کہ اسے اپنی زندگی میں کئی قسم کی تکلیفیں اٹھانا پڑیں گے ۔ ان میں سب سے زیادہ اذیت ناک چیز بیماری‘ بڑھاپا اور موت ہے ۔ ہمارے بچّے پیدا ہوتے ہیں ‘تو ہم انہیں چومتے ہیں ‘ گلے سے لگا کر رکھتے ہیں ۔ ہمیں یہ خیال بھی نہیں آتا کہ جو بھی پیدا ہوا‘ اسے بہرحال تکلیف‘ دکھ ‘ بیماری ‘ بڑھاپے اور موت کا ذائقہ چکھنا ہوگا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بچّے سے محبت کرنے والوں کو بھی تکلیف سے گزرنا ہوگا۔
یہ سب تکلیف دہ چیزیں اس قدر خوفناک ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی انسان ایک نارمل زندگی نہ گزار سکتا‘ لیکن خدا نے انتہائی مہار ت سے ان سب چیزوں پر خوشنما پردے ڈال دیے ہیں ۔ ان میں سب سے بڑا پردہ جلد (Skin)ہے ۔ انسانی جلد ایک بہت بڑا دھوکہ ہے ‘ جس سے ہمیں گزارا جاتاہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ انگریزی کا یہ محاورہ کس دانشور کا قول ہے کہ beauty is only skin deepلیکن یہ بہت بڑی حقیقت ہے ۔
جلد انسان (اور دوسرے جانوروں کا بھی ) سب سے بڑا عضو ہے ۔ یہی خوبصورتی کا پیمانہ ہے ۔ ایک بدصورت شخص میں اتنی ہی ہڈیاں ‘ گوشت ‘ رگیں ‘ کھوپڑی‘ nervesوغیرہ موجود ہوتی ہیں ‘ جتنی کہ ایک خوبصورت شخص میں ۔اس جلد کے پیچ و خم اور اس کا رنگ کسی کو خوبصورت بنا دیتاہے اور کسی کو بدصورت ۔اگر یہ جلد اتار دی جائے ‘تو نیچے گوشت‘ اعضا (Organs) آنتیں وغیرہ ‘اس قدر بدصورت ہیں کہ دیکھ کر گھن آنے لگتی ہے ۔
اس جلد نے انسانوں کی عقل پر پردہ ڈال دیا ہے ۔ 37.4ٹرلین خلیات پہ مشتمل ایک عورت انسان کو خوبصورت لگتی ہے ۔ منہ سمیت ‘ اس کے پورے جسم پر بیکٹیریااور مختلف خوردبینی جاندار موجود ہوتے ہیں ۔ اس سے آگے دیکھیے کہ کس طرح اس کے اندر لعاب‘ آنتوں میں فضلہ ‘ کانوں اور دانتوں میں بیکٹیریا ‘ ناک میں ریشہ اور یہ سب چیزیں موجود ہوتی ہیں ‘ جو کہ انتہائی کراہت آمیز چیزیں ہیں ۔ اس کے باوجود جلد کا کمال دیکھیے کہ انسان اس کی خوبصورتی دیکھ کر دیوانہ سا ہوجاتاہے ۔ وہ کسی کے قدموں میں اپنی زندگی نچھاور کر دیتاہے ۔ قتل ہو جاتاہے اور قتل کر دیتا ہے ۔ دیوانہ ہوجاتاہے ۔ خود کو برباد کر دیتاہے ‘ دوسروں کو تباہ کر دیتاہے ۔ 
اگر کسی بھی عاشق کو اس کا محبوب اس حالت میں تھما دیا جائے کہ وہ زندہ کی بجائے مردہ ہواور بیکٹیریا اور خوردبینی جانداروں نے اس کے جسم کو کھانے کا کام شروع کر دیا ہو تو دو دن کے اندر اندر وہ اپنے محبوب کو اپنے ہاتھوں سے کسی کنویں میں پھینک کر بھاگ جائے ۔ کیسی دھوکے کی جگہ ہے اور کیسا دھوکہ ہے یہ سب ۔ بندریا اور بلی کا بچہ مرتا ہے‘ تو کئی کئی دن تک وہ اسے اٹھائے پھرتی ہے ؛حتیٰ کہ اس میں سے بدبو آنے لگتی ہے ۔ کھال پھٹ جاتی ہے ؛آخر ایک وقت آتاہے کہ جب وہ اسے ایک جگہ رکھ کر خود دور چلی جاتی ہے ۔ یہ ہے‘ زندگی !
یہ کھال‘ یہ جلد ہمارا سب سے بڑا عضو ہے ۔ خدا کی کاریگری دیکھیے کہ اس جلد کے اندر لمس اور درد کا احساس رکھنے کے لیے باقاعدہ تاریں (Nerves)نصب کی گئی ہیں ۔ یہ سب نروز (تاریں ) جا کر ریڑھ کی ہڈی میں اکھٹی ہوتی ہیں ۔ ریڑھ کی ہڈی سے یہ تاروں کے گچھے دماغ کے نچلے حصے تک جاتے ہیں ۔ انہی کے ذریعے محبوب کے لمس کا احساس اور رقیب کی طرف سے رسید کیے گئے تھپڑ‘ کا احساس دماغ تک پہنچتاہے ۔ انہی تاروں کی وجہ سے انسان کے جسم میں کرنٹ تیزی سے دوڑتاہے ۔ بالکل اسی طرح ‘ جیسے کہ ہم بجلی کے تاروں میں سے کرنٹ گزارتے ہیں۔ اسی کرنٹ کی وجہ سے انسان سوچ سکتاہے ‘ حرکت کر سکتاہے ۔
اسی کرنٹ کے ذریعے احکامات دماغ سے جسم کے ایک ایک عضو تک پہنچتے ہیں ۔ ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا اور دماغ معدے‘ دل اورپھیپھڑوں سمیت ایک ایک عضو کو احکامات دیتا رہتاہے ۔ بالکل اسی طرح یہ مثانے اور آنتوں کے ذریعے جسم سے گند کو باہر نکالتاہے ۔انسانی جسم میں موجود انہی تاروں کی وجہ سے اگر انسان بجلی کے تار کو ہاتھ لگائے تو کرنٹ سے اچھل پڑتاہے ۔
اسی طرح آنکھوں سے بھی انسان جو کچھ دیکھتاہے ‘ وہ انہی تاروں کے ذریعے دماغ تک جاتاہے ۔ کانوں میں بھی یہی ہوتاہے ۔ یہ تار انسان کے جسم ایک ایک گوشے میں موجود ہیں ۔ جب انسان ان چیزوں کو دیکھتاہے‘ تو سوچنے لگتاہے کہ یہ سب کچھ کس قدر سائنٹیفک ہے ۔ آپ اپنے جسم کا مطالعہ کریں یا پھر ایک خلیے کو پڑھ لیجیے ۔ ہر جگہ انتہائی sophisticated scienceکارفرما دیتی ہے ۔ 
ذائقے کی سائنس کا بھی یہی حال ہے۔ہماری خوراک کی نالی (Esophagus)کو پڑھ لیجیے ‘ اگر انسان الٹا بھی لٹک رہا ہوتو پھر بھی یہ خوراک کو معدے تک لے جاتی ہے ۔ معدے اور خوراک کی نالی کے سنگم پر ایک والو لگا ہوتاہے ‘ جو کہ خوراک کو واپس نہیں آنے دیتا؛ اگر یہ خراب ہو جائے‘ تو کھانا واپس خوراک کی نالی سے منہ تک آتا رہتاہے ۔ خورا ک کی نالی کے مسلز اگر کمزور ہو جائیں ‘تو کھانے کو نگلنے میں دقت ہوتی ہے ۔ مزید یہ کہ خوراک کی نالی ہو یا آنتیں ہوں ‘ ہر جگہ ایسے liquidsموجود ہیں ‘ جو کہ رگڑ ‘ (Friction)کو ختم کرتے ہیں ۔
کسی گاڑی کے اندر انجن آئل کی طرح ۔ مزید یہ کہ معدے میں تیزاب ہو تا ہے‘ لیکن معدے کے خلیات پر ایک خصوصی حفاظتی تہہ اللہ نے چڑھا رکھی ہے ‘ جس کی وجہ سے یہ تیزاب معدے کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ خوراک کی نالی میں یہ حفاظتی تہہ نہیں ہوتی‘ لیکن وہاں پر ایک والو کے ذریعے خوراک اور تیزاب کو واپس جانے سے روکا جاتاہے ‘ تاکہ انسان میں خوراک کی نالی کے خلیات کو نقصان نہ ہو ۔
حیرت ہے‘ ان لوگوں پر ‘ جو کہ یہ سب دیکھ کر بھی کہتے ہیں کہ ایک عظیم ترین منصوبہ ساز اپنا وجود نہیں رکھتا‘ بلکہ یہ سب کچھ اتفاقاً ہو رہا ہے ۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved