تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     10-08-2018

ٹرمپ اور اس کے اتحادی

امریکی صدر‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے‘ اپنے بیانات‘ دھمکیوں اورمسخرے پن کی وجہ سے عالمی میڈیا کی خاص توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ ایک وقت میں سنجیدہ بیان داغتے ہیں ‘ تو دوسرے ہی لمحے اسے اپنی ''کاری گری‘‘ سے بدل دیتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ عالمی میڈیا سے فرانسیکا سیلویسٹری کا لیا گیا مضمون کچھ اسی طرح کا ہے۔ 
''گزشتہ چند برسوں میں جوہری عدم پھیلائو کے حوالے سے ڈپلومیسی مختلف نوعیت کے دبائو میں ڈھلتی نظر آتی ہے؛ امریکہ کی سربراہی میں اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی چالیں‘ جن کا مقصد شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے عمل کو روکنا اور ان کے آگے بند باندھنا ہے اورایران کے جوہری منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے معاہدے کی کثیر جہتی خلاف ورزی۔امریکہ کی جانب سے جنوبی ایشیا میں ایٹمی پھیلائو کے حوالے سے بے فکری کا مظاہرہ‘ جو برطانیہ‘ امریکہ اور یورپی یونین کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے ماہرین کے مطابق تمام نیوکلیئر پھیلائو سے زیادہ خطرناک ہے۔ بیان کردہ باہم متضاد نکتہ ہائے نظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاملے میں ایک ڈانواں ڈول‘ اور اگر یورپی نکتہ نظر سے بات کی جائے تو‘ بے ربط اور غیر مسلسل مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس نکتہ نظر میں ٹرمپ کا کِم جونگ اُن ‘ کے ساتھ شور شرابے پر مبنی توازن بھی شامل ہے‘ جس کو میڈیا پر خاصی کوریج ملتی ہے‘ جبکہ وائٹ ہائوس کے موجودہ مکین نے امریکہ کو جوائنٹ کامن پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) سے بھی نکال لیا ہے‘ جو ایک خطرناک پیش رفت ہے اور اس کا کچھ بھی نتیجہ نکل سکتا ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق اس معاہدے کی وجہ سے ایران مطیع ہو چکا تھا اور اس نے اپنی ایٹمی سرگرمیاں محدود کر دی تھیں۔ مطلب یہ کہ جے سی پی او اے کام کر رہا تھا‘ لیکن یہ حقیقت ٹرمپ کی ترجیحات میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر آتی ہے‘ کیونکہ پہلے نمبر پر امریکی صدر کی یہ خواہش کارفرما ہے کہ تہران کو دوسرے یعنی غیر نیوکلیائی غلط کاموں کی سزا ہر صورت میں ملنی چاہئے۔ اس بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ شمالی کوریا کے ساتھ توازن کا قیام اور دنیا کی بڑی طاقتوں کا طے کردہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے پھیلائو کو روکنے کے حوالے سے کارگرمعاہدہ سبوتاژ کرنے سے امریکہ کی ایٹمی عدم پھیلائو کی بے ربط پالیسی ایک بار پھر بے نقاب ہو گئی ہے۔ 
امریکہ ‘جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی صورتحال پر ایک طرح سے مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ ایسے ہی جیسے اسے اس خطے کی صورتحال سے کوئی غرض نہ ہو یا اس خطے میں ہونے والی سرگرمیوں سے وہ لاعلم ہو۔ پاکستان اور بھارت‘ دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور دونوں علاقائی تنازعات کا بھی شکار ہیں۔ ان تنازعات کی وجہ سے ایک خطرناک صورتحال جنم لے سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ٹرمپ اس معاملے میں کیوں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان ‘چین سے مدد حاصل کر رہا ہے‘ جو (چین) بھارت کے ساتھ ساتھ امریکہ کا بھی مخالف ہے۔ کیا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟ دونوں ملک علاقائی تنازعات کی وجہ سے اب تک تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں۔بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹس کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق‘ بھارت کے پاس اس وقت 150 تا 200 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں‘ جبکہ پاکستان 140 تا 150 ایٹمی ہتھیاروں کا مالک ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ کی جانب سے اس خطے کی طرف کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان‘ بھارتی اور امریکی پولیٹکل ڈونرز اور ٹرمپ‘ دونوں کے لئے اب بھی نہایت اہمیت کا حامل ملک ہے؟ وہی ٹرمپ جو غیر متعلق خارجہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ کو دل سے ناپسند کرتا ہے۔ 
شمالی کوریا اور ایران کو آپ کسی قدر مناسب کہہ سکتے ہیں‘ لیکن ٹرمپ ان کی جانب سے لاحق ایٹمی خطرے کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس ساری صورتحال سے لگتا ہے کہ اس معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ کی سوچ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے نقطہ نظر کا عکس ہے۔
معاملات کا عمیق جائزہ لیا جائے‘ تو ٹرمپ کی معاملات سے خبردار کرنے کی سوچ سے دو چیزیں آشکار ہوتی ہیں؛ (1) کمزور ہوتے ہوئے اور گرتے ہوئے مورال والے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کیلئے ڈپلومیٹک بوجھ کے بارے میں فکر مندی۔ (2) وہ شرمندگی‘ جو دونوں طرح کے پھیلائو کے بائیکاٹ کی وجہ سے ابھرتے ہوئے امریکہ ‘بھارت اتحاد کو اٹھانا پڑ رہی ہے۔ یاد رہے کہ یہ اتحاد اس علاقے اور پوری دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف قائم کیا جا رہا ہے۔ اس سے آگے بھی بہت کچھ ہے‘ حتیٰ کہ موجودہ امریکی صدر یہ بھی تصور کر سکتے ہیں کہ امریکہ‘ پاکستان اور بھارت کے سہ فریقی تعلقات کو بھی ہوشیاری کے ساتھ آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ زیادہ آگے تک نہ بھی ہو تو امریکہ اس وقت تک ایسا کرنا ضروری خیال کرے گا‘ جب تک کہ افغانستان میں اس کا ایڈونچر کسی انجام کو نہیں پہنچ جاتا۔ فی الحال تو یہ امریکہ کا سب سے طویل مدتی ایڈونچر بن چکا ہے اور اس کا خاتمہ ہوتا نظر نہیںآتا۔ پاکستان کی جانب سے امریکہ کو سپلائی روٹ فراہم کرنے کی جو سہولیات افغانستان پر اتحادیوں کے حملے کے بعد پہلے دن سے دی جا رہی تھیں‘ وہ اب بھی اسی طرح فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی زبان اب پاکستان کے بارے میں بند ہے۔ پین ایشیا تناظر میں امریکہ کی انڈو پیسیفک خطے میں تزویراتی مفادات کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے حوالے سے بھارت کی حیثیت اہمیت رکھتی ہے‘ لیکن برصغیر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے پاکستان کی افادیت اور ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 
امریکہ ‘بھارت کے ساتھ وسیع تر تناظر میں تزویراتی تعلقات قائم کرنے کا خواہش مند ہے۔ ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ایلکس وونگ نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں بھارت کو انڈ و پیسیفک ریجن میں بھارت کو ایک بڑا کھلاڑی قرار دیا۔ پچھلی انتظامیہ کی باتوں سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے انہوں نے‘ بھارت کو ایک ایسا پارٹنر قرار دیا‘ جس کے ساتھ امریکہ کے بہت سے مفادات اور اہداف مشترک ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ مفادات تجارت‘ ڈپلومیسی اور سکیورٹی کے حوالے سے ہیں۔ یہی امریکہ‘ بھارت کو انڈو پیسیفک کے وسیع تر خطے میں سب سے زیادہ با اثر ممالک میں سے ایک بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ کی بھارت کے حوالے سے یہ سوچ کیوں ہے؟ یہ بھی سب پر واضح ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ امریکہ‘ بھارت کو بحر ہند میں چین کی سرگرمیوں کو محدود رکھنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے؛ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ امریکی سوچ ایک وسیع تر کھیل کا حصہ ہے۔پاکستان کے بارے میں امریکی ایجنڈا اتنا واضح اور مثبت نہیں ہے۔ حالیہ چند برسوں میں امریکہ کے پاکستان کے تعلقات میں کافی اتار چڑھائو آئے ہیں۔ اس کے باوجود چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری پر بہت زیادہ اعتراض نہیں کیا گیا۔ اس سے کیا نتائج حاصل کرنا مقصود ہے؟ امریکہ اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہے کہ وہ افغانستان میں پاکستان کی مدد کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں نرم رویہ اختیار کئے ہوئے ہے‘‘۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved