احتساب کے قومی ادارے کا نوٹس ہم دونوں کے درمیان رکھا تھا ۔ ساتھ ہی سلامتی کے مختلف اداروں کے جاری کردہ الرٹ بھی ۔ لمبی بحث کہاں‘ ایک نکتے پر مشورہ ہوا۔ اداروں کو استحکام کا پیغام دینے کا موقع ہے اور یہ بھی کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔
میں اُٹھا اور لاء آفس چلا گیا۔ اپنا بریف تیار کیا ۔ فہد چوہدری ایڈووکیٹ کو نیب خیبر پختونخوا کا ریجنل آفس کھلنے سے پہلے پہنچنے کی ہدایت دی۔ ساڑھے بارہ بجے دن عمران خان کی حاضری کا وقت مانگ لیا ۔ اس کے ساتھ ہی 70 سال کی تاریخ تبدیل ہو گئی۔ نہ تو کیوں بلایا کی صدائیں بلند ہوئیں، نہ ہی کیوں نکالا والی چیخیں۔ حالانکہ میرے پاس اور بھی قانونی آپشن موجود تھے ۔ سب سے معقول عذر تھا‘ کیس ٹرانسفر کرنے کی درخواست اور پھر وقت گزاری۔
قومی ادارۂ احتساب کی سی آئی ٹی ٹیم نے ایک گھنٹہ 10 منٹ سے زائد فیڈریشن کی سب سے بڑی سیاسی قوت کے سربراہ کی گرلِنگ کی‘ جو 7 سوالات پر مبنی تھی ۔ سوالات تحریری طور پر ہمارے حوالے کیے گئے۔ سوال نمبر 6 میں ساری تفتیش کا مرکزی نکتہ درج ہے۔ الزام یہ تھا: عمران خان نے اپنی ذاتی مصروفیات اور پی ٹی آئی کے جلسوں کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹر کا استعمال کیا۔ چنانچہ اس غیر قانونی استعمال کی وجہ سے سرکاری خزانے کو 6 ہزار امریکی ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ۔ جو لوگ اس انکوائری کو پانامہ جتنا بڑا ہنگامہ کہہ کر ڈرامہ کر رہے تھے‘ انہیں یہ سن کر یقینا مایوسی ہو گی کہ یہاں غالب ؔ کے پرُزے اڑانے والا الزام ہے نہ مقدمہ ۔ دو مرتبہ عمران خان کے سرکاری ہیلی کاپٹر کے ذاتی و سیاسی استعمال کا سوال اٹھا‘ جس کا جواب یوں ہے: پہلی بار وہ پولیس لائن کے افتتاح کے لیے کے پی بلائے گے اور دوسری دفعہ وہ کے پی سرکار کی اجتماعی شادیوں کے پروگرام میں شریک ہوئے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ کے پی حکومت نے پچھلے 5 سالہ اقتدار میں اشتہارات کی مد میں سب سے کم خرچہ کیا‘ بلکہ طے شدہ بجٹ میں سے بھی خاصی رقم بچا لی۔ عمران خان کو بلانے کا مقصد عوامی خدمت کے منصوبوں کی تشہیر تھا‘ کیوں کہ عمران خان جیسی شخصیت کے جانے سے سرکاری ایونٹ کو مفت میں کروڑوں، اربوں روپے کا ایئر ٹائم بغیر کسی خرچ کے ملتا رہا ۔ اب آئیے مبلغ امریکی ڈالرز کے نقصان کی طرف۔ اس الزام کے دو پہلو ہیں۔ مثال کے طور پر جس دور میں نقصان ہوا تب ڈالر کا ریٹ کیا تھا۔ پاکستانی روپے میں یہ رقم مبلغ چند لاکھ روپے بنتی ہے۔ اس کے جواب دینے کے لیے میں نے پی ٹی آئی فنانس کے شعبے سے تفصیل مانگی‘ جسے میں عوامی مفاد میں پبلک کر رہا ہوں۔ یہ تفصیل ان ادائیگیوں کی ہے‘ جو پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کے سیاسی دوروں کے لیے ٹرانسپورٹ ہائیر کرنے پر ہوئیں ۔ سال 2013ء سے حالیہ الیکشن 2018ء تک اس مد میں ساری رقم بذریعہ چیک ادا ہوئی۔ ووچرز، بِل اور چیک کی کاپیاں ہم نے سی آئی ٹی کی تفتیشی ٹیم کے حوالے کر دیں۔ جو سیاسی پارٹی اس مد میں 10 کروڑ 69 لاکھ 80 روپے بل ادا کرنے کی استعداد رکھتی ہے‘ یہ رقمیں ڈکلیئرڈ اکائونٹس سے خرچ کی گئیں‘ اس کے سربراہ پر اس الزام کی منطق کہ اس نے 2 ٹرپ سرکاری ہیلی کاپٹر پر لگائے؟
اچھا ہوا احتساب کے ادارے نے نئے وزیر اعظم کو طلب کیا ۔ اس تفتیش کو پی ٹی آئی کی طرف سے باقاعدہ طور پر خوش آمدید کہا گیا۔ حیات آباد پشاور میں واقع ریجنل ڈائریکٹوریٹ سے نکلے تو ہمارا رخ پُرانے پشور کی جانب تھا۔ سابق وزیر اعلیٰ کے پی کے نے ڈرائیونگ کی اور بغیر کسی پروٹوکول ، ٹوں ٹاں، شوں شاں کے ہم ٹریفک کے پہلے اشارے پر جا ٹھہرے ۔ موٹر سائیکل ، رکشہ ، کار اور ریڑھا چلانے والے شہریوں کا ردِ عمل ایسا تھا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ فارسی زبان کا محاورہ ہے ''شُنیدہ کَے بُود... مانندِ دیدہ‘‘ ترجمہ: سنا سنایا احوال آنکھوں سے دیکھے ہوئے کا کس طرح مقابلہ کر سکتا ہے۔ 35 سے 40 منٹ کے اس ٹوور میں لوگ اپنے کپتان پر محبتوں اور مُسکان کے پھول نچھاور کرتے رہے۔ پرانے پشاور کے ایک چوک میں‘ جس کا نام مجھے معلوم نہیں‘ گاڑی ٹریفک میں پھنس گئی۔ نکلنے میں دیر اس لیے نہ لگی کہ عمران خان کو دیکھ کر سڑک استعمال کرنے والوں نے خود راستے کھلوا دیئے۔ ہماری اگلی منزل صوبائی اسمبلی کے سامنے ہوٹل میں ارکانِ خیبر پختونخوا اسمبلی سے ملاقات تھی‘ جہاں کچھ نو منتخب ایم پی ایز کا زبردست استقبال ہوا۔ کیلاش قبیلے سے پہلا نوجوان منتخب ایم پی اے۔ چار بڑے قوم پرست لیڈروں کو شکست دینے والا نوجوان ۔ ان میں دو پارٹیوں کے سربراہ اور ان کے دو نوں بیٹے شامل ہیں۔ پھر ہمارے مولانا صاحب کی جوڑی کو شکست دینے والے ۔ ہمارے آنے سے پہلے مولانا کے مقابلے میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیتنے والے نے عجیب اعلان کیا۔ کہا: اگر آپ کہتے ہیں‘ الیکشن میں دھاندلی ہوئی‘ آئیے میں استعفیٰ دیتا ہوں ‘ دوبارہ الیکشن لڑ لیتے ہیں۔ میٹنگ سے فارغ ہوئے تو پشاور میں شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔ کم از کم میری توقع کے عین خلاف ریفریشمنٹ روم میں ٹھنڈے بسکٹ اور اس سے بھی زیادہ ٹھنڈی چائے نے سخت بھوک کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا۔ گویا عمران خان کی سادگی مہم پارٹی صفوں میں اثر دکھا رہی ہے۔ واپسی کا سفر بذریعہ کچن شروع ہوا۔ فائر ڈور سے گزر کر پچھلے دروازے کی سیڑھی سے گاڑی تک بمشکل پہنچے۔ ہجوم اس قدر تھا کہ مشکل سے سڑک تک رسائی ہو پائی ۔ راستے میں پتہ چلا عمران خان کی کامیابی کے نوٹی فکیشن رک گئے ہیں۔ بعض ٹی وی چینلز نے غلط رپورٹنگ کی ایسی دھمال ڈالی کہ ملک بھر میں بھونچال آ گیا۔ عمران خان فون سن رہے تھے۔ کہنے لگے: بابر میرے ساتھ ہی ہے یار فکر نہ کرو ۔ ڈسکس کر لیں گے۔ تھوڑی دیر میں سپریم کورٹ کے رپورٹر نے بتایا: ایک گروپ نے اپنی دیرینہ خواہش کو خبر بنا کر چلایا ہے۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ وہ نہیں جو خبروں کی زینت بنایا گیا ہے۔ میں نے عمران خان سے کہا: اسلام آباد پہنچ کر پہلے ای سی پی کا حکم نامہ دیکھیں پھر بات ہو گی۔
جمعرات کے دن ناشتے پر بنی گالہ گیا۔ قانونی، سیاسی، حکومتی کئی موضوعات تھے۔ عمران خان کا بنیادی نکتہ لیکن میرٹروکریسی ہی تھا۔ ہر شعبے کے لیے ہر حکومتی ادارے میں۔ گُڈ گورننس ممکن ہی نہیں جب تک ریاست کے اداروں میں شہریوں کی اہلیت کا راج نہ ہو۔ بڑا سبق خیبر پختونخوا کے عوام نے قوم کو دیا۔ سروے کہتے رہے کہ کے پی کے عوام نے کبھی کسی حکومت کو دوسرا ووٹ نہیں ڈالا۔ صرف دوسرا ووٹ نہیں پہلے سے ڈبل ووٹ پڑ گیا۔ جی ہاں... اور وقت بدل گیا۔ مگر دونوں...؟؟
دونوں ہیں بڑے لاٹ کے خود کاشتہ پودے
ہر چند وزارت میں ہے دونوں کی ادا ایک
ایک ضیغمِ سرکار ممولوں کی نظر میں
شدّاد کی جنت میں غریبوں کا خدا ایک
اِک فتنۂ دوراں سرِ عنوانِ ریاست
پنجاب کے ناکردہ گناہوں کی سزا ایک
سہگل کے منڈیروں پہ کبوتر کی طرح مست
پروازِ تگ و تاز میں دونوں کی فضا ایک