آج کل ہر طرف انتخابات کی گہما گہمی دکھائی دے رہی ہے۔ امیدوار ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوچکے ہیں۔ انتخاب جیتنا تو ہرامیدوار کی خواہش ہوتی ہے اور وہ اس کے لیے ہرممکن کوشش بھی کرتا ہے لیکن جہاں گزشتہ انتخابات میں ہارجانے والا امیدوار اپنے مدمقابل کو اس مرتبہ ہراکر اپنا بدلہ لینے کی سعی کررہا ہو وہاں الیکشن کی شکل انتقام میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اکثر اوقات ہمارے انتخابات میں جو خون بہتا ہے اس کے پیچھے یہی انتقام کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ انتقام کے جذبے کو ہوادینا ابلیس کا بہت بڑا ہتھیار ہے اور جولوگ انتقام کی آگ میں جل رہے ہوں ان کو اگر اس بات کا یقین آجائے کہ شیطان ان کے دل میں یہ آگ بھڑکا رہا ہے تو وہ اپنے آپ کو اور اپنے مخالف کو بے فائدہ دشمنی سے بچا سکتے ہیں۔ میری نظر میں ،دنیا میں انتقام کی وہ آگ جو صلیبی جنگوں کے زمانے میں اس وقت شروع ہوئی جب مسلمانوں کو عیسائیوں پر فتح حاصل ہوئی، آج تک نہیں بجھ سکی ۔ مغربی دنیا جو اپنے آپ کو عیسائی تہذیب کی وارث بھی کہتی ہے، اتنی ترقی یافتہ ہونے کے باوجود صلیبی جنگوں میں صدیوں پہلے ہونے والی شکست کو بھول نہیں سکی اور مسلسل شیطان کی بھڑکائی ہوئی انتقام کی آگ کو ہوا دینے کی کوششوں میںمصروف ہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں جب مغربی طاقتوں نے مسلمانوں کا خلافت کا ادارہ ختم کیا تو مغربی دنیا میں ایک تاثر قائم ہوگیا کہ غالباً اب مسلمانوں سے انتقام لیا جاچکا ہے لیکن یہ تاثر محض تاثر ہی ثابت ہوا اور ہمیں ایسی کوششیں دکھائی دینے لگیں کہ مسلمانوں کو دوبارہ خلافت قسم کی کوئی مرکزیت قائم کرنے سے ہر صورت میں باز رکھا جائے۔ اس دوران میں بالشویک انقلاب کی وجہ سے مغرب کو مجبوراً مسلمانوں کو اپنا اتحادی بنانا پڑا اور یوں مغرب کی مسلمانوں کو اتحاد سے روکنے کی کوششیں نمایاں نہ ہوئیں لیکن سوویت یونین ٹوٹنے ، جسے اشتراکیت کی شکست کہا گیا،کے بعد جو کچھ ہوا اس میں انتہائی اہم کردار دوبارہ انتقام کی صدیوں پرانی آگ نے ہی اداکیا اور اب تک یہی سلسلہ جاری ہے۔ اسی طرح انتقام کی ایک آگ ہمارے ہمسائے میں لگی ہوئی ہے۔ آل انڈیا کانگریس اگرچہ اپنے آپ کو تمام ہندوستانیوں کی جماعت کہتی چلی آرہی تھی مگر ہمارے جن قائدین نے پاکستان بنایا انہوں نے اس جماعت کو اچھی طرح ٹھوک بجاکر دیکھنے کے بعد ہندوئوں کی تنظیم قرار دیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد جب پاکستان اور ہندوستان کی شکل میں دو ملک وجود میں آگئے تو ہندوستان پاکستان کا دشمن بن گیا اور اس کی آج تک کی پالیسیاں اسی دشمنی کی آئینہ دار ہیں۔ بھارت کے حوالے سے پاکستان نے اپنی حکمت عملی میں ماضی میں جو غلطیاں کیں ان کا سبب یہ تھا کہ اُس میں بھارت سے کشمیر چھین کر حاصل کرنے کی خواہش بہت شدید ہوگئی تھی ۔اس میں انتقام کا کوئی پہلو نہیں تھا ۔یہی وجہ ہے کہ بھارت کی طرف سے دوستی کی ہلکی سی کوشش کو ہمارے ہاں کئی گنا پذیرائی حاصل ہوتی رہی۔ بھارت کو دوستی کی ہلکی سی کوشش مجبوراً کرنا پڑتی ہے، وہ بھی محض دکھاوے کے لیے وگرنہ مسلمانوں کے برصغیر پر صدیوں کے اقتدار نے ہندو ذہن میں بدلے کی جو آگ بھڑکائی ہوئی ہے اس کی حدت پاکستان ہروقت محسوس کرتا رہتا ہے۔ جہاں تک سکھوں کا تعلق ہے، انہوں نے تقسیم ہند کے وقت اور اورنگ زیب عالمگیر کا بدلہ لینے کا نعرہ لگایا تھا ۔اس سے مراد ان کی اورنگ زیب کے عہد میں سکھوں کے ایک اہم گورو کا قتل تھا جس کا وہ براہ راست ذمہ دار اس مغل بادشاہ کو سمجھتے تھے۔ جب فسادات ہوئے تو مسلمانوں نے بھی قتل عام میں حصہ لیا مگر ان کا انتقام کوئی تاریخی نوعیت کا نہیں تھا بلکہ 1947ء میں مسلمانوں کے قتل کا بدلہ تھا جبکہ سکھوں کے اقدام میں مغل دور میں اپنی مذہبی شخصیات پر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینا شامل تھا۔ آپ کو بہت عجیب محسوس ہورہا ہوگا کہ میں نے ایسا نقشہ پیش کردیا ہے کہ ہندوسکھ عیسائی سب مسلمانوں ہی سے انتقام لیے جارہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ مسلمان بھی انتقام لیتے رہے ہیں اور تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے بھی مسلمانوں نے انتقام لیا ہے اور اپنے ہم مذہب لوگوں سے بھی۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسا طویل المیعاد انتقام کا جذبہ آپ کو کم ہی دکھائی دے گا جیسا آپ صلیبی جنگوں کے انتقام میں یا ہندوئوں کے مسلمانوں کی بھارت میں حکمرانی کے انتقام کے ضمن میں دیکھتے ہیں۔ مسلمانوں میں البتہ آپ کو زیادہ تر جہاد دکھائی دے گا۔ جہاد کے علاوہ جو انتقام کے واقعات ہوئے وہ ایسے ہی ہیں کہ ادلے کا بدلہ۔ قبائلی ثقافتوں میں یہ ادلے کا بدلہ نسلوں تک چلتا رہتا ہے مگر اس کو مسلمانوں کا طرزِ عمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ طویل عرصے تک نسل درنسل دلوں میں انتقام کی آگ بھڑکائے رکھنے میں مسلمانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان آخرت میں یقین رکھتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آخری فیصلہ پروردگار پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ جن ادیان کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ان میں آخرت پر ایمان یا تو ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو وہ بالکل واجبی سا ہے اور ان ادیان کا اس دنیا ہی میں حساب کتاب پر زیادہ زور ہے۔ آخرت پر ایمان بلکہ یقین کامل ہی وہ شے ہے جو مسلمانوں کی ثقافت کو دیگر ادیان کی ثقافت سے تیز کرتی ہے۔ مسلمانوں کے دیگر ادیان کے لوگوں سے میل جول کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ درخت تو نیچے سے مختلف ہوتے ہیں مگر شاخیں ایک دوسرے میں جھول جاتی ہیں۔ جس شاخ پر جو پھل لگتا ہے اس کے بیج میں سے آگے وہی درخت اگتا ہے اور یوں انفرادیت قائم رہتی ہے۔ مسلمانوں کے گھرانوں میں پیدا ہونے والے جو لوگ آخرت پر یقینی نہیں رکھتے وہ تو ثقافتی طورپر ہندو سکھ اور عیسائی لوگوں کے ساتھ مل جل کر ایک مشترکہ ثقافت کے دعوے دار ہوسکتے ہیں مگر جو مسلمان آخرت پر پکا یقین رکھتے ہیں ان کی ثقافتی پہچان ہمیشہ الگ تھلگ رہتی ہے۔ شیطان البتہ آخرت پر ایمان سے غافل کرکے انتقام کے جذبے کو ہوا دیتا رہتا ہے اور ہمارے مسلمان بھائی آج کل شیطان کا کچھ زیادہ ہی شکار ہو رہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved