تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     10-08-2018

14اگست اور گرلز سکولوں پرحملے

ہندوستان پر مسلمان ایک ہزار سال تک حکمران رہے۔ جب زندگی جمود کا شکار ہو گئی‘ تو زندگی کو متحرک کرنے کے لئے اللہ کی تقدیر کا فیصلہ اس طرح سامنے آیا کہ انگریز ہندوستان کا حکمران بن گیا۔ اس دوران چاہئے‘ تو یہ تھا کہ جمود کوچھوڑ کر متحرک زندگی سے فائدہ اٹھایا جاتا۔ سائنس اور ٹیکنالوجی انگریزی زبان میں تھی ‘اس زبان کو حاصل کر کے آگے بڑھا جاتا ‘مگر ہوا یہ کہ جمود کے مارے ہوئے نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں نے انگریزی سیکھنے کی مخالفت شروع کر دی۔ پینٹ کوٹ ایک لباس تھا‘ اس کے بھی مخالف ہو گئے۔ بعض نادان لوگوں نے ریل گاڑی کو دجال قرار دے دیا کہ دجال کی آنکھ بھی ایک ہو گی۔ بھاپ سے چلنے والے انجن کی لائٹ بھی ایک ہے‘ اسی طرح لائوڈسپیکر پر اذان اور خطبے کو بھی ممنوع قرار دیا اور بھی بہت سارے ممنوعات ہیں‘ مگر ہم مندرجہ بالا ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ایسے حالات اور سوچ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو تعلیم میں بہت آگے بڑھ گئے ‘جبکہ مسلمان بہت پیچھے رہ گئے اور پسماندگی کا شکار ہو گئے۔ 14اگست کے حوالے سے آج جب پاکستان کے مشاہیر اور ان کے کارنامے نمایاں کئے جاتے ہیں‘ تو سرسید احمد خان کا نام سرفہرست آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرسید احمد خان نے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر بھانپ لیا کہ مسلمانوں کو مغلیہ بادشاہت کے جمودی زوال کے بعد انگریزی دور میں اپنی حالت کو بدل کر دوبارہ حکمرانی کی طرف جانے کا‘ جو راستہ ہے‘ وہ بھی اندھیروں کی نذر کیا جا رہا ہے‘ تو وہ تڑپ اٹھے؛ چنانچہ انہوں نے علم کی شمع کو علی گڑھ کے علمی ادارے کی صورت میں مسلمانوں کے لئے مشعل راہ بنایا۔
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور حکمت بالغہ‘ ملاحظہ ہو کہ مصور پاکستان اقبالؔ جیسا نابغہ عصر ہندوستانی مسلمانوں کو ملا‘ تو برطانیہ سے تعلیم یافتہ ملا۔ قائداعظم جیسا بانی پاکستان ہمیں ملا تو برطانیہ سے تعلیم یافتہ ملا۔ پاکستان کو چلانے کے لئے جدید علم کی کھیپ میسر آئی‘ تو علی گڑھ یونیورسٹی کی طرف سے میسر آئی۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے فارغ ہونے والی علمی فوج ہمیں فراہم ہوئی۔ پروفیسر حافظ محمد عبداللہ بہاولپوری بھی علی گڑھ یونیورسٹی کا اک تابندہ ستارہ تھا کہ وہ اور ان جیسے طلبا کو قائداعظم نے سندھ میں پاکستان بنانے کی راہ ہموار کرنے کے لئے بھیجا۔ الغرض! جدید علمی اداروں کے طلبا نے نہ صرف تحریک پاکستان کی مہم چلائی‘ بلکہ پاکستان کو چلانے کے لئے پڑھی لکھی نوکر شاہی بھی فراہم کی۔ اساتذہ بھی مہیا کئے اور سیاستدان بھی دیئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم ستر سال بعد بھی تعلیم میں بہت پیچھے ہیں۔ امریکہ مہاجروں کا ملک ہے۔ دنیا بھر کے مہاجر وہاں جمع ہیں۔ مقامی آبادی (ریڈ انڈینز) تو چند لاکھ کی صورت میں محض آثار قدیمہ کے طور پر باقی رہ گئے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں اس وقت بھی دنیا کا امام امریکہ ہے۔ وہاں تعلیم کے میدان میں انڈیا اور چین کے لوگ باقی ساری دنیا کے لوگوں سے آگے اور سرفہرست ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چین اب سپرپاور بن چکا‘ جبکہ انڈیا مِنی پاور بن چکا ہے۔ معاشی میدان میں انڈیا فرانس کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ جو ملک تعلیم میں آگے ہو گا۔ معاشی اور عسکری میدان میں بھی وہی آگے ہو گا۔ جیسا کہ چین کی حالیہ مثال بھی سامنے ہے کہ اس کی فوج کی تعداد دنیا میں پہلے نمبر پر ہے اور وہ23لاکھ ہے۔ صدر شی جن پنگ کی طرف سے اعلان سامنے آیا ہے کہ چینی فوج اب کاروبار نہیں کرے گی۔ وہاں کا سپاہی پیشہ ور سپاہی ہو گا‘ یعنی ''پروفیشنل سولجر‘‘ ہو گا۔ یقین جانئے! مندرجہ بالا فیصلہ تبھی ممکن ہوا‘جب چین معاشی میدان میں دنیا کی دوسری سپرپاور بنا اور وہ چینی فوج کی کفالت کے اس قدر قابل ہوا کہ ارے بھئی! معاشی تنگی کی وجہ سے کام کرنے کے دن گئے۔ اب تم نے اپنا اصل کام ہی کرنا ہے اور وہ ہے عسکریت‘ یقینا مذکورہ فیصلہ چین کی عسکری قوت کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دے گا۔ یہ جدید تعلیم کا ثمر ہے۔
قارئین کرام! خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ عمران خان صاحب آکسفرڈ یونیورسٹی برطانیہ کے تعلیم یافتہ ہیں ‘جبکہ برطانیہ کی ہی عالمی شہرت یافتہ بریڈ فورڈ یونیورسٹی نے دنیا بھر کے اعلیٰ ترین دماغوں میں سے عمران خان کو 2005ء سے 2014ء تک 9سال اپنی یونیورسٹی کا چانسلر بنائے رکھا۔ خان صاحب اس بنیاد پر اس یونیورسٹی کے چانسلر بننے پر راضی ہوئے کہ پاکستان میں ان کے قائم کردہ تعلیمی ادارے کا الحاق بریڈ فورڈ یونیورسٹی سے ہو گا۔ یوں میانوالی کی نمل جھیل کے کنارے عمران خان صاحب نے جھیل کے نام کی نسبت سے ''نمل یونیورسٹی‘‘ قائم کر دی۔ وہ عمران خان صاحب کہ جنہوں نے خیبرپختونخوا میں قرآن اور ترجمے کو لازم قرار دیا۔ نمل (چیونٹی) کا لفظ قرآن میں بھی ملتا ہے۔ ایک سورت کا نام النمل ہے۔ سمجھ یہی آتا ہے کہ جیسے چیونٹی مسلسل اور ان تھک سفر و جدوجہد کرتی ہے‘ ہم بھی ایسے ہی انتھک ہو کر چلیں گے اور منزل پائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان جیسا علمی لیڈر آج ستر سال بعد اس تسلسل کو قائم کرے گا‘ جو تسلسل علامہ اقبال‘ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد ٹوٹ گیا تھا۔ میری دلی دعا ہے کہ ایسا ہی ہو۔ یاد رہے! دشمنوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو پائی؛ چنانچہ سازشیں شروع ہو گئیں۔ پہلے ان کا آغاز سوات سے ہوا تھا۔ وہاں بچیوں کے سکولوں کو تباہ کیا گیا۔ بموں سے اڑایا گیا۔ شقاوت اور بے رحمی اس انتہا کو پہنچی کہ وہاں بچیوں پر حملے شروع ہو گئے۔ ملالہ اسی حملے کا عالمی سِمبل ہے۔ آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں پر حملہ ہوا۔ کتنے ہمارے بچے اور اساتذہ شہید ہوئے۔ چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ ہوا۔ کتنے بچے‘ اساتذہ اور اہلکار شہید ہوئے۔ میں نے مذکورہ اداروں میں جا کر خون کے چھینٹے دیکھے ‘ وہاں علم کے موتیوں کو نشانہ بنا کر علمی چمک دمک کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ علم دشمن دہشت گردوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہم اسلام کے نمائندے ہیں اور علم کے دشمن ہیں۔ یوں اللہ کے دین اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ ضربِ عضب کی وجہ سے ہم کامیاب ہوئے اب ''ردّالفساد‘‘ جاری ہے۔
معاشی حالت درست ہو گی‘ تو ہماری عسکری قوت بھی مزید سے مزید مضبوط ہو گی۔ افغانستان میں بیٹھا ہمارا دشمن جو کشمیر میں مظلوموں کا خون بہا رہا ہے۔ انسانیت کو قتل کر رہا ہے۔ وہی سی پیک کے روٹ کو متنازعہ کہہ رہا ہے۔ اسی نے یو این میں متنازعہ خطہ مقبوضہ کشمیر میں درجنوں ڈیم بنا دیئے ہیں‘ جبکہ ہمیں یہاں پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ڈیم نہیں بنانے دے رہا۔ عمران خان کی شکل میں قوم کو اک مسیحا ملا ہے‘ تو چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کی صورت میں بھی اک مسیحا ملا ہے‘ جنہوںنے دیامر بھاشا ڈیم پر فنڈ اکٹھا کرنے کی مہم چلا رکھی ہے۔ چلاس اور دیامر کے علاقوں میں کہ جو سی پیک کا بھی روٹ ہے اور دیامر بھاشا ڈیم کا مرکز بھی‘وہاں بچیوں کے سکولوں پر حملے ان لوگوں سے کروائے گئے ہیں‘ جو افغانستان سے آئے ہیں۔ مقصد یہی ہے‘ ڈیم بھی نہ بننے دو‘ سی پیک میں بھی رکاوٹ ڈال دو‘ اسلام کو بھی بدنام کر دو۔ تعلیم اور تعلیمی اداروں کو بھی معاف نہ کرو۔ میں سمجھتا ہوں انڈیا اور اس کے دوستوں کی یہ آخری شکست خوردہ چالیں ہیں‘ جو چلاس میں اس وقت ناکام ہو گئیں‘ جب چلاس کے لوگ نکلے اور دہشت گردوں سے مقابلہ شروع کر دیا۔ دیامر کے غیور لوگ نکلے اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر دہشت گردوں سے رزم آرا ہوئے۔ مجھے تو پاکستان کے امسال 2018ء کے 14اگست کے بعد ایک نیا پاکستان بنتا نظر آ رہا ہے‘ جس میں سی پیک بھی چلے گا‘ ڈیم بھی بنیں گے‘ ہائیڈل بجلی ملے گی‘ سستی ملے گی‘ تعلیم کے ادارے جگمگائیں گے۔ عسکری قوت آسمان کی وسعتوں کو چھوئے گی۔ قائداعظم کا پاکستان دنیا میں اک علمی چاند بن کر چمکے گا (انشاء اللہ)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved