تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     10-08-2018

اس نے ہر کوشش کی‘لیکن !

چند دنوں بعد آزادی کا71واں جشن ‘پورے ملک میں خوب دھوم دھام سے منایا جائے گا ۔جیسے ہی اگست کا مہینہ آتا ہے‘تومیرااورآپ سب کا ازلی دشمن بھارت کانٹوں پر لوٹنے لگتا ہے اور اپنی عادت سے مجبور مجھے ایک نیا زخم دینے کیلئے بیتاب ہونے لگتا ہے ۔71 برس گزر گئے‘ کافر اور مکار دشمن نے ہر کوشش کر کے دیکھ لی‘لیکن مجھ کو ختم نہیں کرسکا‘تاہم اپنے ساتھی شیخ مجیب کے ذریعے میرا ایک حصہ کاٹنے اور1971ء میں مجھے دو لخت کرنے میں ضرور کامیاب ہو گیا‘لیکن میرا نام و نشان مٹانے کا‘ اس کا خواب‘ کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو گا۔
میں‘ اب ایک ہاتھ سے بھی تن تنہا اس کا مقابلہ کئے جا رہا ہوں۔اس نے لاکھ کوششیں کیں کہ مجھے گرا کر میرے سینے پر سوار ہو جائے اور میری شہ رگ دبوچ لے‘ مجھے اپاہج کر دے‘ لیکن میں اپنی قوم کے ساتھ سینہ تان کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا۔آخر وہ پریشان ہے کہ میرے خلاف دہشت گردی کا ہر طوفان کھڑا کر چکا‘ جس کی یلغارسے اب تک دنیا کی کوئی مملکت بھی اپنا وجود بر قرار نہیں رکھ سکی‘ لیکن میرا نام ونشان قائم ہے اور تاابد قائم رہے گا۔
میرا ازلی دشمن تڑپ رہا ہے کہ اس نے میرے گھروں ‘ دفتروں ‘سڑکوں اوربازاروں‘ چھوٹی بڑی مارکیٹوں ‘ بسوں ‘ریل گاڑیوں ‘ہوٹلوں‘ دکانوں میں دنیا بھر سے اکٹھے کئے گئے بارود سے تباہی و بربادی مچا نے کی اپنی بھر پور کوشش کی۔ اس مکار دشمن نے میرے سکولوں میں پڑھتے ہوئے سینکڑوں ننھے منے بچوں کو بے دردی سے قتل کروایا۔ سینکڑوں کی تعداد میں خود کش بمبار میری فوجی چھائونیوں اور ان کی گاڑیوں پر حملہ آوار کروا کر میرے 80 ہزار کے قریب پاکستانیوں کو جاں بحق اور زخمی کیا۔ میری فوج ‘پولیس اور سکیورٹی اداروں کے دس ہزار سے زائد اہلکاروں کو اپنے دہشت گردوں کے ذریعے شہید کیا۔ میری سکیورٹی فورسز میں خوف اور دہشت پیدا کرنے کیلئے ‘اس کے نو جوان افسروں اور سپاہیوں کے خنجروں سے سر کاٹ کر پتھروں پر اپنے دہشت گردوں کے بھاری بوٹوں سے فٹ بال کھیلنے کی ویڈیوز بنوا کر دنیا بھر میں دکھائیں۔ کہیںطالبان‘ تو کہیں داعش کے عفریت سے میرے بچوں کوڈرایا ‘ لیکن میرے یہ بچے پہلے سے بھی زیا دہ شدت سے میرے دشمن پر اس طرح ٹوٹ پڑے کہ دنیا کی تاریخ کے سب سے دشوار گزار رستوں ٹھکانوں اور قلعہ بند مورچوںا ور طویل گہری سرنگوں سے دہشت گردوں کو نکال نکال کر وزیرستان کی پہاڑیوں میںاس طرح پھینک دیا کہ انہیں بھاگنے کا رستہ ہی نہ ملا۔ بقول شاعر:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل حیران ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اب اس مکار اور عیار دشمن نے اپنے دوست کی صورت میں ایک نیا شیخ مجیب تلاش کرلیا ہے‘ جس سے وہ میر ی محافظ فوج کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کیلئے اربوں روپے خرچ کرتے ہوئے دن رات ایک کیا ہوا ہے۔ اس نے کچھ این جی اوز کو ڈالروں کے انبار لگا کر کبھی جمہوریت کے خلاف اور تو کبھی انتخابات میں دھاندلی جیسے واویلے کروا کر میرے عوام میں نفرت کو بڑھاوا دینے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ایسے میں میرے بچو! تمہیں یاد رکھنا ہو گا کہ دشمن نے سب سے پہلے پختونستان کا جال پھینکا اور اس پر جی بھر کر دولت لٹائی‘ لیکن یہ نعرہ اپنی موت آپ مر گیا‘ پھر اس نے سندھو دیش کے نام پر مجھے کاٹنے کی بھر پور کوشش کی ۔ اس نے قتل و غارت میں انتہائی مہارت رکھنے والے اپنے کمانڈر کلبھوشن یادیو کو بھیج کرکراچی اور بلوچستان میں ایسی لسانی اور علیحدگی کی آگ بھڑکائی کہ ایک دفعہ مجھے لگا کہ میرا ازلی دشمن اس ہلے میں اژدھے کی طرح مجھے نگل جائے گا ۔ کراچی اور بلوچستان کی ہر گلی میں‘ مارکیٹ میں‘ بستی میں‘ بسوں میں‘ گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کو ایک دوسرے کا بد ترین دشمن بنا دیا ۔کراچی اور بلوچستان کے ہر گھر میں ایک لاش گرانی شروع کر دی۔ گوادر اور کراچی پورٹ جیسے صنعتی مقامات کو ناکارہ ا ورا پاہج بنا کر کھ دیا۔ چاروں جانب آگ اور دھویں کی سیاہ کالی گھٹائیں پھیلا دیں۔ قریب تھا کہ سب کچھ خاک ہوجاتا‘ لیکن میرے جوانوں نے اپنی جانوں کی قربانی دیتے ہوئے‘ یہاں بھی اسے شکست فاش دے دی۔
پھردشمن نے ایک نیا طریقہ استعمال کرتے ہوئے ‘میرے بدن کو چیرنے پھاڑنے کیلئے سیاسی مخالفت کو دشمنی اور نفرت میں تبدیل کرنے کا نریندر مودی اور اجیت ڈوول پلان شروع کرو ایا‘ جو اب تک کے تمام حربوں سے زیادہ زہریلا اور خطرناک ثابت ہوا۔اسے اس طرح دیکھئے کہ اگر ایک بچے کے ہاتھ میں اصلی بندوق تھماتے ہوئے اسے یقین دلا دیا جائے کہ یہ کھلونا ہے‘ اوراس سے کھیلو... یہ بندوق‘ سوشل میڈیا ہے ‘ جواب ہر بچے کے ہاتھوں میں ہے اور نعرہ یہ دے دیا ہے کہ ' ایک جانب نواز کے حامی‘ تو دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے حامی‘ اور اس طرح قوم کے ایک حصے کو قومی اداروں کا حامی‘ تو دوسرے کو ان کا مخالف بنا کر کھڑا کر دیا۔ دشمن دونوں کو میرے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ نظریات کا اختلاف ایک فطری بات ہے‘ پسند ناپسند ایک انسانی جبلت ہے۔ سیا سی لیڈروں سے محبت و عقیدت فطری بات ہوتی ہے اور یہ صحت مند معاشرے کی نشانی سمجھا جاتا ہے‘ لیکن میرے دشمن نے اس پسنداور نا پسند کے زہر کو اس طرح لوگوں کی رگوں میں اتار دیا کہ اگر ایک فرد عدلیہ کے فیصلوں کی حمایت کرتا ہے ‘تو اسے اداروں کا حامی اور تحریک انصاف کا حمایتی ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے ۔ میرے بچو! یاد رکھنا کہ اسی طرح کا ایک فقرہ امریکی صدر جارج بش نے بھی استعمال کیا تھا:EITHER YOU ARE WITH US OR AGAINST US پھر دیکھا کہ کس طرح بش کی ا س منطق نے اگلے دس برس سینکڑوں آبادیوں اور لاکھوں لوگوں کو آگ اور بارود کا ڈھیر بنا دیا۔
میرے بچو!یاد رکھنا کہ کس طرح اس مکار دشمن نے نفرت اور قتل و غارت کی آگ کو بھڑکانے کیلئے مذہب کو اپنا ہتھیار بنا کر تم کو آپس میں اس قدر تقسیم کر دیا کہ تم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ۔اس نے تمہیں فرقوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک دوسرے کا بد ترین دشمن بنا دیا۔ ہمارے ایک ایک مدرسے کو اپنا مورچہ بنا لیا۔ آج اگر ایک فرقے کی مسجد میں خود کش بھیجا تو کل اس کی مخالف مسجد میں خون کی ندیاں بہا دیں۔اس نے یہاں تک حالات خراب کر دئیے کہ ہم سکیورٹی ا داروں کے پہروں کے بغیر اپنی نمازیں پڑھنے سے گھبرانا شروع ہو گئے۔ اس مکار دشمن نے فرقوں کی اس قدر تفریق کر دی کہ سب ایک دوسرے کے مخالف ڈاکڑوں‘ پروفیسروں اور اعلیٰ پائے کے انجینئروں کو ٹارگٹ بنا کر آئے روز قتل کرنے لگے۔ اس نے پوری کوشش کی کہ میری اس دھرتی کے تمام قابل لوگ ڈر کر یہاں سے بھاگ جائیں ۔وہ اس میں مکمل کامیاب تو نہ ہوا ‘ لیکن وہ تمہیں دنیا بھر میں بدنام کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو گیا۔ اب وہ پھر سوچ رہا کہ کس طرح تمہیں مزید نقصان پہنچایا جائے ۔اس لیے میرے بچو! امسال جشن آزادی مناتے ہوئے اپنے ازلی دشمن کو فراموش نہ کر بیٹھنا۔دشمن نے ہر کوشش کر لی‘ لیکن وہ تمہیں زیر نہیں کر سکا۔تمہیں اس کی چانکیہ چالوں سے ہمیشہ ہوشیار رہنا ہو گا۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved