تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-08-2018

سرخیاں، متن اور ٹوٹا

این آر او کوئی لینا چاہتا ہے نہ دینا چاہتا ہے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''این آر او کوئی لینا چاہتا ہے نہ دینا چاہتا ہے‘‘ بلکہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ ہم نے این آر او کے لیے سر توڑ کوشش کی لیکن کسی نے گھاس ہی نہیں ڈالی، اور یہ اچھا ہی ہوا کیونکہ پارٹی کے لیے نواز شریف کا اندر رہنا زیادہ بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نواز شریف انتشار کی سیاست نہیں چاہتے‘‘ بلکہ صرف گھیرائو، جلائو کی سیاست کے مخلصانہ کوششیں کافی عرصے سے یعنی جب سے نا اہل ہوئے ہیں، کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں سخت شکایت ہے کہ ان کے بار بار اشتعال دلانے کے باوجود عوام نے اس پر توجہ نہیں دی بلکہ 'ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کا باقاعدہ مذاق اڑاتے ہوئے عمران خان کے ڈبّے بھرتے رہے۔انہوں نے کہا کہ ''جہازوں میں پیسے بھر کر لوگوں کی خرید و فروخت ہوئی‘‘ حالانکہ چھانگا مانگا آپریشن اس سے کہیں بڑا تھا لیکن ہم جہازوں میں پیسے بھر کر نہیں لے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''یوم آزادی نہ منانے کے فضل الرحمن کے فیصلے سے متفق ہوں‘‘ جبکہ ان کے والد صاحب مفتی محمود کا یہ بیان آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے ‘نہ ہی ان کے مدرسوں میں وطن کی آزادی اور قائداعظم پر کوئی مضمون نصاب میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کیا مذاکرات کے بغیر دنیا زندہ رہ سکتی ہے؟‘‘ جو نواز شریف کی رہائی کے لیے ہی تھے لیکن بات نہیں بنی کیونکہ لوگ بہت بے دید ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم اپنا منہ کالا کرنا نہیں چاہتے‘‘ کیونکہ ہمارے کارناموں کی وجہ سے اس پر جو نور برس رہاہے، ہمارے لیے وہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیسوں کا لالچ دے کر لوگوں کو حکومت میں شامل کیا جا رہا ہے‘‘ لیکن کم بخت ہمارے پیسوں کو منہ نہیں لگاتے۔ آپ اگلے روز نواز شریف سے جیل میں ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف اور مریم نواز کا حوصلہ ہر روز بڑھ رہا ہے: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''نواز شریف اور مریم نواز کا حوصلہ ہر روز بڑھ رہا ہے‘‘ اور جوں جوں مزید زعما اندر ہوتے جائیں گے‘ توں توں ان کا حوصلہ مزید بڑھتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''نواز شریف کی طرف سے بیان میں دوں گی، کسی اور رہنما کی طرف سے دیئے گئے بیان کو نواز شریف کا بیان نہ سمجھا جائے‘‘ کیونکہ یہ لوگ صرف نمبر ٹانکنا چاہتے ہیں جبکہ نمبر ٹانکنا صرف میرا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نواز شریف سے ملاقات کے لیے آنے والوں کو گیٹ پر دو ، تین گھنٹے انتظار کروایا گیا‘‘ جب کہ ڈیڑھ دو گھنٹے تک انتظار کرانا ہی کافی ہوتا ہے کیونکہ وقت کی بہر حال قدر کرنی چاہئے کہ اب ہمارے پاس وقت ہی رہ گیا ہے۔ آپ اگلے روز نواز شریف سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
25 جولائی کو عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا: رانا تنویر حسین
سابق وفاقی وزیر اور نواز لیگ کے نو منتخب رکن قومی اسمبلی رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''25 جولائی کو عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا‘‘ اور ڈاکہ ڈالنے والوں کے پاس پستول وغیرہ بھی ہوں گے کیونکہ اسلحہ کے بغیر تو ڈاکہ ڈالا ہی نہیں جا سکتا جب کہ دن رات لاہور ہی کی سڑکوں پر ڈاکو اپنا کام دکھا رہے ہیںجبکہ ہماری حکومت لحاظ داری میں بھی یقین رکھتی ہے اور کسی کے موذی کھانے میں دخل اندازی سے پرہیز کرتی تھی اور بجا طور پر دوسروں سے بھی توقعہ رکھتی تھی کہ اس کے روزی کمانے پر بھی اعتراض نہ کیا جائے۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں دیئے جانے والے استقبالیہ سے خطاب کر رہے تھے۔
ایک ہی راستا!
پاکستان تحریک انصاف نے اپنے وعدوں کے مطابق وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت حاصل کر لی ہے جس سے یقیناً وہ حکومت بنا بھی لے گی لیکن حکومت بنانے سے حکومت چلانا زیادہ اہم ہو گا۔ جبکہ بظاہر ایسا نظر نہیں آتا۔ کیونکہ سادہ اکثریت قانون سازی میں کچھ کام نہیں آتی کہ اس کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے جو ظاہر ہے کہ اس کے پاس نہیں ہے اور عمران خان نے اپنے لیے جو اہداف وضع کیے ہیں انہیں حاصل کرنے کے لیے قانون سازی بے حد ضروری ہو گی اور موجودہ حالات میں نظر یہی آ رہا ہے کہ دو چار ماہ کی خواری کے بعد تھک کر بیٹھ جائے گی۔چنانچہ دو تہائی کی لازمی اکثریت حاصل کرنے کے لیے اسے دونوں بڑی پارٹیوں میں سے ایک کے تعاون یا اس کے ساتھ الحاق کی ضرورت ہو گی‘ اور ظاہر ہے کہ یہ تعاون اسے نواز لیگ سے تو مل نہیں سکتا، البتہ وہ پیپلز پارٹی ہی سے ہاتھ ملا سکتے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابی مہم کے دوران تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی والے ایک دوسرے پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں لیکن سیاست میں نہ کوئی دوستی حتمی ہوتی ہے اور نہ دشمنی، کیونکہ سیاست کوئی جامد شے نہیں بلکہ رواں دواں رہنے والی چیز ہے اور پیپلز پارٹی سے تعاون حاصل کر لینا کوئی نا ممکن بھی نہیں ہے کیونکہ سیاست نا ممکن اور ممکن ہی کا فن ہے جبکہ پیپلز پارٹی بے شک اپوزیشن کی گرینڈ الائنس میں تو ضرور شامل ہے لیکن نہ تو وہ اس کے لیے اطمینان بخش ہے اور نہ ہی وہ عمران خان کے لیے اتنے مخالفانہ جذبات رکھتی ہے اور نواز لیگ کے ساتھ اپنے حسابات برابر کرنے میں اسے لطف بھی آئے گا۔
اس لیے تحریک والوں کو چاہئے کہ وہ اس موضوع پر اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لیں۔ پیپلز پارٹی میں یقیناً چوہدری اعتزاز احسن، قمر زمان کائرہ اور بلاول بھٹو زرداری جیسے صاف ستھرے لوگ بھی موجود ہیں جنہیں کابینہ میں جگہ دی جا سکتی ہے اور اگر تحریک انصاف عقل کے ناخن لے لے تو یہ کام جلد از جلد بھی ممکن ہو سکتا ہے کیونکہ جو کام اسے بعد از خرابیٔ بسیار کرنا پڑے گا۔ بہتر ہے کہ اسے وقت پر سر انجام دے دے۔ ع
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
آج کا مطلع
چلو اتنی تو آسانی رہے گی
ملیں گے اور پریشانی رہے گی

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved