تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     11-08-2018

میرے بابامر گئے ہیں !

نفسیات کی تاریخ کا یہ سب سے اہم واقعہ چار صدیاں پرانا ہے ۔ عظیم ماہرِ نفسیات ‘پروفیسر ڈاکٹر ایغور پاشا کی بیٹی ایک دن سکول سے گھر لوٹی ۔ مسرت اور جوش کے عالم میں اپنے والدین کو اس نے بتایا کہ کلاس میں ایک نئی بچّی داخل ہوئی ہے ‘ جس کی شکل ہو بہو اس جیسی ہے ۔ پاشا اوراس کی بیوی اس کا یہ جوش و جذبہ دیکھ کر مسکراتے رہے ۔ انہیں اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ نئی بچّی ان کی زندگیوں کو مکمل طور پر تبدیل کرنے والی ہے۔ 
یہ نئی بچّی مسلسل بولتی رہتی تھی ۔ اس کی باتوں کا مرکز تھا‘ اس کا باپ جو بقول اس کے ہمیشہ ہر لمحہ اسے اٹھائے پھرتا تھا۔ وہ اسے کندھے پر اٹھا کر دوڑ لگاتا۔ اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتا‘ اسے ندی پر نہلانے لے جاتا‘ مرغابیاں شکار کرکے اسے بھون کر کھلاتا‘ کشتی میں سیر کراتا ‘ جھولے دلاتا‘ خوشبو لگاتااور نظم گا کر سناتا ۔صبح بستر سے اٹھنے کے بعد رات سونے تک ‘ اس کا باپ اس کے ساتھ کھیلتا رہتا۔ یہ بچّی ہمیشہ اپنے باپ کی تعریف ‘ اس کی بڑائی‘ اس کی عظمت بیان کرتی رہتی تھی ۔ سکول کے دوسرے بچّے احساسِ کمتری کا شکار ہو رہے تھے ۔ پروفیسر ڈاکٹر ایغور پاشا کو سکول والوں کا خط موصول ہوا۔ نفسیات کے عظیم ماہر سے وہ مدد کے طلب گار تھے کہ یہ معصوم بچی دوسرے بچوں کو ڈسٹرب کر رہی تھی ۔ ایغور پاشا سکول میں داخل ہوا۔ اس نے ایک نظر بچّی کو دیکھا ۔ اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔ یہ 9سالہ بچّی انتونیا اس کی اپنی بیٹی سے غیر معمولی مشابہت رکھتی تھی‘ لیکن ایغور پاشا کو پہنچنے والے صدمے کا سبب یہ نہیں تھا۔ ایک ہی نظر میں جان گیا تھا کہ بچّی شیزو فرینیا کا شکار تھی ۔ اس میں دیوانگی تھی ۔ ایغور پاشا نے سکول والوں سے اس کے گھر کا پتہ معلوم کیا۔ وہ اس کے گھر گیا۔ یہاں اس کے بدترین خدشات کی تائید ہوئی ۔ بچّی کا باپ کئی سال پہلے ہی مر چکا تھا لیکن انتونیا کے دماغ نے اس خوفناک حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسے آج بھی اپنا باپ زندہ اور اپنے اردگرد چلتا پھرتا نظر آتا تھا۔ آج بھی اپنا ایک ایک پل وہ اپنے باپ کی معیت میںبسر کر رہی تھی ۔ 
ایغور پاشا بخوبی جان چکا تھا کہ بچّی شدید بیمار ہے۔ سچ تو یہ تھا کہ یہ ایک lost caseتھا۔ نفسیات کی تاریخ میں ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے کہ بڑے نفسیات دان اپنے کسی مریض کو لا علاج بیماری میں لمحہ لمحہ مرتے دیکھتے ہیں ۔ پاشا کی زندگی میں یہ وقت آچکا تھا۔پاشا جب واپس گھر پہنچا تو صدمے اور بخار کی شدت سے بری طرح کانپ رہا تھا ۔ کئی دن تک وہ بستر پہ پڑا رہا۔ اس اثنا میں اس کی بیوی بھی سکول جاتی اور اس بچّی کو دیکھتی ہے ‘ جس کی شکل غیر معمولی طور پر اس کی اپنی بیٹی سے ملتی تھی ۔اپنی بیٹی کی بیمار ہم شکل کو دیکھ کر وہ بھی جذبات کی شدت میں ٹوٹ کے رہ جاتی ۔ وہ گھر واپس آتے ہی پروفیسر کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ اس کا علاج کرے ۔ پاشا نے اسے بتایا کہ ایک نیا باپ درکار ہے ‘ جو انتونیا کو اس کے اصل باپ سے زیادہ محبت دے سکے ۔یہ نیا باپ اور کوئی نہیں بلکہ پروفیسر ڈاکٹر ایغور پاشا خود تھا۔
چار سال تک وہ اس بچّی کو اس کے اصل باپ سے زیادہ محبت دینے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ اس کے ساتھ رہنے لگا تھا۔ اسے کھانا کھلاتا ‘ نہلاتا‘ سیر کراتا ‘ جھولے دلاتا ۔ بچّی کا دماغ کسی صورت نئے باپ کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھا۔چار سالہ مشقت کے بعد ایغور پاشا بری طرح سے تھک چکا تھا ۔ اس کی بیٹی کی ہم شکل بیماری کی دلدل میں اترتی چلی جا رہی تھی اور وہ بالکل بے بس ہو چکا تھا ۔انہی دنوں اس نے خواب دیکھا۔ وہ دیکھتا ہے کہ انتونیا کا باپ اسے اپنے کندھے پر اٹھاکر دوڑ لگا رہا ہے ۔ پھر وہ اسے نیچے اتار دیتاہے ۔ ایغور پاشا آگے بڑھ کر انتونیا کو اٹھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اس قدر وزنی ہوتی ہے کہ وہ اسے ہلا بھی نہیں سکتا ۔ انتونیا کا باپ اسے ہاتھ کے اشارے سے منع کرتاہے ۔ وہ اسے کچھ بتانے کی کوشش کرتا ہے لیکن برفانی ہوائوں کے شور میں اسے کچھ سمجھ نہیں آتی۔ پھر وہ دیکھتاہے کہ الٹا انتونیا بڑی ہونے لگتی ہے ۔ وہ پروفیسرکو ایک بچّے کی طرح اپنی گود میں اٹھا لیتی ہے ۔ 
کہتے ہیں کہ ایک دن انتونیا خواب و خیال کی دنیامیں اپنے مرے ہوئے باپ سے باتیں کر رہی تھی ‘ جب پاشا کا صبر جواب دے گیا۔ اس کے آنسو بہنے لگے ‘ وہ با آوازِ بلند رونے لگا ۔حیرت انگیز طور پر اچانک اس نے انتونیا کا لمس محسوس کیا ۔ وہ اسے تھپک رہی تھی‘ چپ کرا رہی تھی ۔ پروفیسر اچھل پڑا ۔ اچانک اس کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ‘ ہر لڑکی پیدائشی طور پر ایک ماں ہوتی ہے ۔ ماں بننے کی یہ خواہش اور جذبہ دوسرے سب جذبات پہ غالب ہوتاہے ۔ اس دن سے پاشا نے انتونیا کا باپ بننے کی کوشش ختم کر دی۔ اب وہ بیٹھا روتا رہتا ‘ یہ کوشش کرتا کہ انتونیا کے اندر کی ماں پوری طرح سے بیدار ہو جائے ۔ جب وہ اس سے رونے کی وجہ پوچھتی تو وہ کہتا ''میرے بابا مر گئے ہیں ‘‘ ۔ وہ اسے خود سے چمٹا لیتی ۔ کئی ماہ تک وہ روتا رہا اور وہ اسے چپ کراتی رہی ۔ وہ اسے بتاتا رہا کہ اس کے بابا مر گئے ہیں ۔ آخر وہ دن آیا‘ جب اسے چپ کراتے کراتے وہ خود رونے لگی ۔ ایغور پاشا نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں رو رہی ہے ؟ اس نے کہا ''میرے بابا بھی مر گئے ہیں ‘‘۔ انتونیا کے دماغ نے بالاخر اپنے باپ کی موت کو قبول کر لیا تھا۔ایغور پاشا اپنی یاداشتوں میں لکھتا ہے کہ انتونیا کا باپ غیر معمولی طور پر محبت کرنے والا باپ تھا۔ انتونیا اب اکثر اپنے باپ کی قبر پر بیٹھی رہتی تھی ۔ پھر وہ اس سے چمٹ جاتی اور پوچھتی کہ کہیں وہ اسے چھوڑ تو نہیں جائے گا ۔ بالاخر اسے ایک نئے باپ کی ضرورت تھی ۔ اس کی خوش قسمتی تھی کہ ایغور پاشا وہاں موجود تھا ۔نفسیات کی تاریخ کا یہ عجیب ترین کیس تھا‘ جس میں ایک انجان مریضہ بچّی کی محبت میں روتے رہنے کی وجہ سے ایک ماہرِ نفسیات کی بینائی متاثر ہوئی تھی ۔
لوگوں کے لیے ایک بہت حیران کردینے والی بات یہ تھی کہ پروفیسر ڈاکٹر ایغور پاشا کی بیوی نے کیونکر اپنے شوہر اور اپنی بیٹی کے باپ کو ایک غیر لڑکی سے شئیر کیا۔ اصل بات یہ تھی کہ پروفیسر کی سگی بیٹی اور انتونیا ‘ دونوں کی شکل پروفیسر کی بیوی پر تھی۔ ان دونوں میں پروفیسر ڈاکٹر ایغور پاشا کی شباہت نہیں تھی ۔ 
نوٹ: ایغور پاشا‘ انتونیا‘ ڈاکٹر جوناتھن اورخواجہ منگتا سمیت یہ سب کردار اور افسانے میں خود اپنے پاس سے لکھتا ہوں ۔ یہ کہیں کسی بھی کتاب سے نہیں لیے گئے۔ اکثر اوقات جب مجھے اس طرح کا کوئی خیال سوجھتا ہے تو میں اسے اپنے پاس موبائل فون میں لکھ لیتا ہوں ۔ یوں اب میرے پاس لکھنے کے لیے ڈیڑھ دو سو آئیڈیاز جمع ہو چکے ہیں ۔

نفسیات کی تاریخ میں ہمیشہ سے ایسا ہوتا آیا ہے کہ بڑے نفسیات دان اپنے کسی مریض کو لا علاج بیماری میں لمحہ لمحہ مرتے دیکھتے ہیں ۔ پاشا کی زندگی میں یہ وقت آچکا تھا۔پاشا جب واپس گھر پہنچا تو صدمے اور بخار کی شدت سے بری طرح کانپ رہا تھا ۔ کئی دن تک وہ بستر پہ پڑا رہا۔ اس اثنا میں اس کی بیوی بھی سکول جاتی اور اس بچّی کو دیکھتی ہے ‘ جس کی شکل غیر معمولی طور پر اس کی اپنی بیٹی سے ملتی تھی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved