تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     12-08-2018

ایران میں شمالی کوریا نہ نکل آئے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کو مزہ چکھانے پر اتارو ہو گئے ہیں۔ تین مہینے پہلے ایران کے جس ایٹمی سودے کو رد کیا تھا‘ اب اسے لاگو کرنے کے لیے انہوں نے ایران پر پابندیاں نافذ کرنا شروع کر دی ہیں۔ اگر ایران نے اب بھی گھٹنے نہ ٹیکے تو وہ نومبر میں ایسی پابندیاں تھوپنے والے ہیں‘ جن سے ایران کا دم پھول سکتا ہے۔ یہ سمجھوتہ ایران اور چھ ممالک کے بیچ ہوا تھا‘ جن میں روس‘ چین‘ فرانس‘ جرمنی اور امریکہ شامل تھے۔ اوباما سرکار کی اسے مکمل حمایت تھی‘ لیکن ٹرمپ نے اپنے چناوی مشن کے دوران ہی اس معاہدے کو خارج کرنے کی بات کہہ دی تھی۔ ٹرمپ کی رائے سے دوسری قوتیں رضا مند نہیں ہیں‘ لیکن وہ سب مل کر بھی ٹرمپ کو اپنی ضد سے ہٹا نہیں سکتیں۔ ایران پر پابندیوں کا اثر پڑنا شروع ہو گیا ہے۔ اکانومی بری طرح سے متاثر ہو رہی ہے اور ایرانی کرنسی کے دام بھی بہت گرتے جا رہے ہیں۔ روزمرہ کی استعمال والی چیزوں کے دام آسمان کو چھونے لگے ہیں۔ تہران‘ اصفہان‘ مشہد جیسے شہروں میں سرکار کے خلاف مظاہرے بھی ہونے لگے ہیں۔ ٹرمپ سرکار ایرانی لیڈروں کو بات چیت کے لیے دعوت بھی دے رہی ہے‘ اور ان پر کمر توڑ پابندیاں بھی لاد رہی ہے۔ اس کی مانگ ہے کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو مکمل طور پر بند کرے اور مغربی ایشیا کے انتہا پسندوں کی امداد سے گریز کرے۔ امریکہ کو اصل اعتراض یہ ہے کہ 2015ء کے ایٹمی معاہدے میں اتنے سوراخ ہیں کہ ان کا فائدہ اٹھا کر ایران کسی بھی دن اپنا بم بنا لے گا۔ ابھی تو ایران کے سونے‘ چاندی اور ڈالر کے استعمال پر بین لگا ہے‘ نومبر سے اس کے تیل فروخت کرنے اور مکمل عالمی تجارت پر بھی بین لگے گا۔ پابندیوں کے اعلان کے بعد ایرانی لیڈروں کا جو رد عمل آیا ہے 'وہ پہلے کی طرح سخت نہیں اور امریکی سرکار بھی سخت الفاظ کا استعمال نہیں کر رہی ہے۔ اس بنیاد پر یہ اندازہ لگانا غلط نہ ہو گا کہ ایران میں بھی‘ شمالی کوریا جیسا کوئی راستہ شاید نکل آئے گا۔ اس نظریے سے بھارت کی سیاست تعجب خیز ہے۔ اگر ایران امریکہ کشیدگی بڑھ گئی تو بھارت کا بھی بہت نقصان ہو گا‘ کیونکہ ہم ایران سے کافی مقدار میں تیل خریدتے ہیں۔ وسطی ایشیا سے بھارت کو جوڑنے والی چاہ بہار بندرگاہ کا تعمیراتی کام بھی کھٹائی میں پڑ سکتا ہے‘ تاہم امکان یہ ہے کہ چین اور روس ان حالات میں ایران کے معاملے میں بڑا رول ادا کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ مانا جا رہا ہے کہ چین امریکی پابندیوں کو قبول نہیں کرے گا‘ وہ ایران سے تیل خریدنا جاری رکھے گا‘ دوسری طرف روس ہے جو ایران کی دفاعی ضرورتیں پوری کرتا رہے گا‘ اس طرح ٹرمپ کی پابندیاں مضحکہ خیز روپ دھار لیں گی۔ وہ ایران کو دباؤ کے نیچے توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
زیادتیوں پر عدالت کے آنسو
بھارتی سپریم کورٹ کے تین ججوں نے نہایت ہی افسوس ناک سوال اٹھا دیا ہے۔ وہ بہار میں ہوئی زیادتیوں پر شنوائی کر رہے تھے۔ انہوں نے سوال پوچھا کہ ملک میں یہ کیا ہو رہا ہے؟ لیفٹ‘ رائیٹ‘ سینٹر ہر جگہ جبر کے واقعات ہو رہے ہیں۔ ہر چھ گھنٹے میں کہیں نہ کہیں سے زیادتی کی خبر آتی ہے۔ بھارت میں اس برس میں اب تک 38947 زیادتی کے واقعات ہو چکے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کی یہ تکلیف بالکل صحیح ہے۔ بھارت میں کوئی جگہ بچی نہیں‘ جہاں زیادتی نہ ہوتی ہو۔ کیا سکول‘ کیا کالج‘ کیا ہسپتال‘ کیا سرکاری دفاتر‘ کیا ریل‘ کیا بس‘ اور یہی نہیں‘ مندر اور عبادت گاہیں بھی زیادتی سے بچ نہیں پائی ہیں۔ ان زیادتیوں کو روکنے کے لیے صوبائی سرکاریں ذمہ دار ہیں‘ لیکن وہ صرف قانونی ذمہ داری ہے‘ یعنی جب زیادتی ہو جائے تو اس کے بعد ان کی کارروائی شروع ہوتی ہے۔ کوئی وقوعہ ہونے سے پہلے اسے روکنے کیلئے قانون کو بروئے کار لانا یا جرم کے سدِ باب کے لئے نئے قوانین بنانا وہ اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اگر زیادتی کرنے والوں کو فوراً پھانسی پر لٹکانے کی روایت قائم کر دی جائے تو اس کے ڈر کے مارے شاید زیادتی کے واقعات کم ہو جائیں گے‘ لیکن یہاں بھی وہ بے بس ہیں۔ اگر عدالتیں اپنا فیصلہ دینے میں برسوں لگا دیں تو سرکاریں کیا کریں گی؟ دنیا کی کوئی بھی سرکار اس طرح کے ظلم کو نہیں روک سکتی‘ لیکن اس جرم کے بار بار ہوتے رہنے کو ضرور روک سکتی ہے‘ جیسے بچیوں کے یتیم خانوں‘ خانقاہوں‘ ہسپتالوں‘ سکولوں‘ کالجوں‘ ریلوں اور بسوں میں سرکار کی کڑی نگرانی اور جانچ کا انتظام کر سکتی ہے۔ بھارتی سرکار کی امداد سے چلنے والے ان اداروں پر نظر رکھ سکتی ہے۔ علاوہ ازیں اچھی تربیت کا اہتمام ہونا چاہئے۔ بچپن سے ایسے خاصیتیں ڈالی جائیں کہ وہ ایسے زیادتی والے کاموں کے خلاف عہد کر لیں۔ پھر دنیا کی کوئی طاقت‘ لالچ‘ کوئی دھمکی اس آدمی کو ہلا بھی نہیں سکے گی‘ کوئی خلاف قانون کام وہ کرنے کا سوچ بھی نہ سکے گا۔ آج بھارت مغرب کی نقل کرنے لگا ہے۔ زیادہ تر سادھو‘ فقیر اپنی خدمت کروانے میں ہی مصروف ہیں۔ لیڈروں کو ووٹ اور نوٹ کے کھیل سے فرصت نہیں ہے۔ ایسے میں ہماری سب سے بڑی عدالت بھارت میں ہو رہی زیادتیوں پر آنسو بہائے‘ تو کسی کو حیرانی کیوں ہو گی؟ اگر لیڈروں کو ووٹ اور نوٹ سے فرصت ملے تو انہیں اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے کہ خواتین پر جنسی تشدد کے واقعات نے سماج کو خوف کا شکار بنا دیا ہے‘ اس کے نفسیاتی نتیجے عدم تحفظ کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ 
ہری ونش کی جیت: اپوزیشن کو جھٹکا
راجیہ سبھا کے وائس چیئرمین کے عہدے کے لیے ہری ونش نارائن سنگھ کی جیت میرے لیے ذاتی خوشی کی بات ہے‘ کیونکہ گزشتہ تیس برسوں میں ایک اچھے صحافی کی طرح انہوں نے اونچا نام کمایا ہے۔ جب چندر شیکھر جی وزیر اعظم تھے تو ان کے پریس کا سارا کام بخوبی نبھایا۔ وہ پہلی بار راجیہ سبھا کے ممبر بنے اور پہلی ہی بار میں اس کے وائس چیئرمین بن گئے۔ صحافت کے شعبہ میں آنے سے پہلے ایک سمجھدار نوجوان کی طرح وہ جے پرکاش کی تحریک میں بھی ہمارے ساتھ رہے ہیں۔ ان کو دلی مبارک باد! ان سے امید رہے گی کہ وہ اپنے کردار سے اپنے عہدہ کی شان بڑھائیں گے۔ یہ تو ہوئی ذاتی بات‘ لیکن ان کی جیت نے بھارتی سیاست میں اپوزیشن کے پول کھول کر رکھ دیے ہیں۔ اگر ساری اپوزیشن متحد ہو جاتی تو اقتدار کے اتحادی کے امیدوار کے طور پر ہری ونش کا جیتنا مشکل ہو جاتا‘ لیکن ہری ونش کی اپنی قابلیت‘ ان کی پارٹی کے لیڈر نتیش کمار کی کوشش اور کانگریس پارٹی کا خراب انتظام‘ کانگریسی امیدوار ہری پرساد کو لے بیٹھا۔
ہری پرساد کو ہری ونش نے ہرایا‘ بیس ووٹوں سے۔ ہری پرساد کو ملے 105 ووٹ اور ہری ونش کو ملے 120 ووٹ! یہ کیسے ہوا؟ راجیہ سبھا میں تو آج بھی اپوزیشن کی اکثریت ہے‘ لیکن وہ جیت نہیں سکا۔ کانگریس پارٹی نے اپنا امیدوار تو کھڑا کر دیا‘ لیکن اس کے لیے زور نہیں لگایا۔ عآپ پارٹی‘ وائی ایس آر پارٹی اور پی ڈی پی نے ووٹ نہیں ڈالے۔ سات ووٹ یونہی کم ہو گئے۔ اڑیسہ کے نوین پٹنایک نے ہری ونش کو پوری حمایت دی‘ کیونکہ ان کی پارٹی بھی جے پرکاش کی پیدا کردہ ہے اور کانگریسی امیدوار ہری پرساد نے بطور افسر اڑیسہ میں کافی خراب پرفارمنس دی تھی۔ اس کے علاوہ بھاجپا نے اپنے اتحاد کے نا مطمئن ممبروں کو پٹائے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ نریندر مودی اور امیت شاہ نے کافی سمجھداری سے اس للکار کو سنبھالا۔ اگر یہی دور اندیشی 2019ء میں بھی بنی رہی اور کانگریس اپنی ضد پر اڑی رہی تو اپوزیشن کو اپنی شکست کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved