ہزاروں سال سے یہ ہوتا آیا ہے اور آنے والے ہزاروں برس کی مدت میں بھی یہی ہوتا رہے گا۔ دنیا کا کوئی بھی اصول کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔ ہم اپنی خواہشات اور امیدوں کی عینک سے دیکھیں تو معاملات کچھ کے کچھ دکھائی دیتے ہیں‘ وگرنہ زمینی حقیقتیں کسی بھی حالت میں‘ کسی بھی طور تبدیل نہیں ہوتیں۔ ہاں‘ اُن پر دکھاوے کی پرت ضرور چڑھ جاتی ہے اور جب تک یہ پرت پہچانی نہ جائے تب تک حقیقت کچھ کی کچھ دکھائی دیتی رہتی ہے۔ یہ سب کچھ ہمیں امریکہ کی بدلتی ہوئی سوچ اور اُس سے بھی زیادہ تیزی سے بدلتی ہوئی حکمت ِعملی کو دیکھ کر یاد آیا ہے۔
ایک حقیقت یہ ہے کہ امریکہ واحد سپر پاور ہے اور اِس کے مقابل دوسری حقیقت یہ ہے کہ واحد سپر پاور کی طاقت کا گراف دن بہ دن گرتا جارہا ہے۔ کئی طاقتیں ابھر رہی ہیں اور اپنا آپ منوانے کے لیے بے تاب بھی ہیں۔ چین کی قوت میں تیز رفتار اضافہ امریکا اور یورپ دونوں کے لیے انتہائی پریشان کن ہے۔ جاپان کو لوگ کسی گنتی میں اس لیے نہیں رکھتے کہ وہ عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنے کے موڈ میں نہیں اور پھر یہ بات بھی ہے کہ اُس کے اندرونی مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ اُسے باہر کی طرف دیکھتے ہوئے‘ بیرونی کردار بڑھاتے ہوئے ڈر سا لگتا ہے۔ اور پھر روس بھی ہے‘ جس نے عظمت ِرفتہ کو بحال کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ روس چاہتا ہے کہ ایشیا میں اپنا کردار بڑھائے۔ چند برسوں کے دوران وہ اس محاذ پر زیادہ فعال دکھائی دیا ہے۔
امریکہ کو اپنی طاقت کے کم ہوتے جانے کا خوب احساس ہے۔ امریکی قیادت ایسی گئی گزری نہیں کہ سامنے کی بات بھی نہ سمجھ سکے۔ خوش فہمی اور غلط فہمی اپنی جگہ اور نِری حقیقت پسندی اپنی جگہ۔ امریکا خالص حقیقت پسندانہ سوچ رکھنے والا ملک ہے۔ اب تک اُس نے دنیا بھر میں جو کچھ بھی کیا ہے وہ اس امر کا مظہر ہے کہ اُس کی قیادت سفّاکی کی حد تک حقیقت پسند ہے اور اِس دائرے سے باہر نکل کر سوچنے کی عادی نہیں۔
امریکہ کی ایک ناگزیر ضرورت یہ ہے کہ جن ممالک کو اُس نے اب تک انتظامی اور معاشی طور پر زیر نگیں رکھا ہے ‘وہ سَرتابی کی جرأت نہ کریں۔ پاکستان بھی ایسے ممالک میں شامل ہے۔ پاکستان میں جب بھی کچھ بدلتا دکھائی دینے لگتا ہے ‘تب امریکہ لنگوٹ کس کر میدان میں آجاتا ہے اور پورا زور لگاکر تبدیلی کو ختم کردیتا ہے یا اُس کا رخ موڑ دیتا ہے۔ حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کی بھرپور کامیابی دیکھ کر امریکہ کی طرف سے پہلا ردِعمل کیا تھا؟ یہ کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینے نہیں دیا جائے گا! کئی عشروں کے دوران بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں کے ہاتھوں پاکستان اور اہلِ پاکستان پر جو کچھ بیتی ہے‘ اُس کا ادراک ایک دنیا کو ہے۔ یورپ نے اپنا راستہ بدلا ہے اور قدر حقیقت پسندانہ انداز سے سوچتے ہوئے ایسے تمام ممالک سے تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دی ہے‘ جن سے ماضی میں تعلقات کشیدہ رہے اور جن کی معاشی مشکلات میں اُس کا بڑا حصہ رہا ہے۔ امریکہ البتہ اب تک پرانی ڈگر پر چل رہا ہے۔ وہ اپنی طاقت برقرار رکھنے کے لیے طاقت ہی کو بروئے کار لارہا ہے۔ پاکستان اور اسی قبیل کے دیگر پس ماندہ ممالک کو زیادہ سے زیادہ دباکر رکھنے کی پالیسی پر اب تک عمل کیا جارہا ہے۔ حد یہ ہے کہ حکمت ِ عملی بھی تبدیل نہیں کی جارہی۔ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کی مخالفت کرکے پاکستان میں تشکیل پانے والی نئی حکومت کو ابتدائی مرحلے ہی میں یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ کچھ زیادہ تبدیل کرنے کا نہ سوچے!
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی قیادت امریکا کی مرضی کے مطابق نہیں چل رہی۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار سے انکار کرتے ہوئے ڈبل گیم کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ جنوری 2017ء میں امریکی قیادت نے پاکستان کی فوجی امداد میں 2 ارب ڈالر تک کی کٹوتی کا اشارا دیا اور اب اعلیٰ عسکری تربیت کے امریکی اداروں سے پاکستانی افسران کو دور کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ''آئی ایم ای ٹی‘‘ کے تحت چلائے جانے والے پروگرامز سے کارلائل‘ پنسلوانیا کے وار کالج سے موجودہ آئی ایس آئی چیف سمیت 37 اعلیٰ فوجی افسران تربیت پاچکے ہیں۔ کئی عشروں سے اس ادارے میں ہر سال پاکستان کے دو اعلیٰ فوجی افسر تربیت پاتے رہے ہیں۔ اب یہ سلسلہ روک دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی عسکری تربیت کے دیگر امریکی اداروں کے دروازے بھی کم و بیش 64 پاکستانی افسرں پر بند کردیئے گئے ہیں۔ یہ پورا پروگرام کم و بیش 24 لاکھ ڈالر کا تھا۔
امریکی اقدام کو چین اور روس سے عسکری اشتراکِ عمل بڑھانے کے اُس معاہدے کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے‘ جو تین دن قبل کیا گیا ہے۔ تازہ ترین امریکی اقدام پر باضابطہ ریاستی سطح کا ردعمل تو اب تک نہیں سامنے آیا ‘تاہم نجی گفتگو میں اعلیٰ فوجی افسران نے کہا ہے کہ امریکا نے مجبور کیا تو قائدانہ نوعیت کی عسکری تربیت کے لیے چین اور روس کی طرف دیکھنا یا دیکھتے رہنا ناگزیر ہوجائے گا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی کامیابی سے صرف امریکا اور یورپ ہی پریشان نہیں‘ بھارت میں بھی تشویش کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ تبدیلی کے نعرے کو ذہن نشین رکھ کر طرح طرح کے مفروضے قائم کیے جارہے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ عمران خان راتوں رات بہت کچھ تبدیل نہیں کرسکیں گے ‘مگر مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کو تو لفظ تبدیلی ہی سے خوف کھانے کا شوق ہے۔ بڑی طاقتیں چاہتی ہیں کہ جن اقوام کو اُنہوں نے اب تک دبوچ رکھا ہے وہاں ''اسٹیٹس کو‘‘ رہے ‘یعنی کوئی بھی جوہری تبدیلی رونما نہ ہو۔ چین اور روس سے پاکستان کی روز افزوں قربت نے مغربی طاقتوں کو مزید بدکنے پر مجبور کیا ہے۔ ایک طرف تو چین‘ روس‘ ترکی اور سعودی عرب سے بڑھتی ہوئی قربت کا عذاب اور دوسری طرف اندرونی سطح پر تبدیلی پسند جماعت کا اقتدار میں آنا ... یہ دونوں حقیقتیں مل کر غضب ڈھا رہی ہیں۔
تبدیلی کا نعرہ عمران خان کے لیے بہت بڑا پلس پوائنٹ سہی ‘مگر چیلنج بھی تو ہے۔ اُنہیں قدم قدم پر اُن کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا‘ جو معاملات کو جوں کا توں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ نظر پھیرنے کا موسم ہے۔ عالمی سیاست و معیشت میں ایشیا کا ابھرنا اور پاکستان کا ایشیا کی طرف جھکنا مغربی طاقتوں کو یکساں طور پر کَھل رہا ہے۔ معاملہ تنے ہوئے رَسّے پر چلنے جیسا ہے۔ توازن رَتّی بھر بگڑا تو گئے کام سے۔ امریکہ اور اُس کی شہہ پر چند چھوٹی طاقتوں نے پاکستان کی نئی حکومت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ ایسے میں عمران خان کو غیر معمولی بالغ نظری اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا اور پھر اُن کے کاندھوں پر قوم کی توقعات کا بوجھ بھی تو ہے۔ ایسے میں امریکا سمیت ہر بڑی طاقت سے ڈیلنگ میں محتاط اور بہت حد تک ''اوپن اینڈیڈ‘‘ رہنا پڑے گا۔ عمران خان یاد رکھیں کہ یہ طلسماتِ اقتدار و اختیار ہے اور اس میں ع
مُڑ کے دیکھو گے تو ہو جاؤ گے‘ تم پتّھر کے!