تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     13-08-2018

زعم ِ تقویٰ

زعم ِتقویٰ ایک کیفیت ہے ۔ انسان جب نماز پڑھتا ہے ۔ ڈاڑھی رکھتااور شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر کر لیتاہے ‘تویہ وہ وقت ہوتاہے ‘ جب انسان کا ازلی دشمن ‘ اس کا نفس اس کے اندر اپنی نیکی کا خمار پیدا کرتاہے ۔ جب وہ بغیر ڈاڑھی والے لوگوں کو میوزک سنتے ہوئے دیکھتاہے ‘تو وہ ان پر تحقیر آمیز نگاہ ڈالتاہے ۔اکثر مبلغین لوگوں کی تربیت اس طرح سے کرتے ہیں کہ جب کسی بغیر ڈاڑھی یا بغیر برقعے والی کو دیکھو تو اسے گمراہ سمجھو ۔ یوں بزعم ِ خود نیک لوگوں کی پہلی نگاہ ہی ایسی افسوس اور تحقیر بھری ہوتی ہے کہ یہ گناہگارردِ عمل کی نفسیات کے تحت respond کرتاہے ۔
دوسری طرف وہ اکثر افراد جو کہ لوگوں کو دین کی طرف بلانا چاہتے ہیں‘ وہ دنیا سے کٹے ہوئے ‘ عصر حاضرسے نا آشنا ‘ دنیاوی تعلیم میں صفر ہوتے ہیں ‘ جبکہ قرآن میں بار بار عقل استعمال کرنے‘ زمین وآسمان کی تخلیق پر غور کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ قرآن کی آیت کا ترجمہ ہے : ''اور وہ غور کرتے ہیں ‘ زمین و آسمان کی تخلیق میں ۔بارش کو ‘ دن اور رات کے بدلنے کو خدا فرماتاہے کہ اس میں عقل والوں کے لیے نشانی ہے‘‘۔ جبکہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ‘ انہیں بد ترین جانور کہا گیا ہے ۔ حضرت داتا گنج بخشؒ نے فرمایا تھا کہ ہر علم میں سے اتنا حاصل کرو‘ جتنا خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہے ۔
جس شخص کو فلکیات اور Earth Sciencesکی الف ب بھی نہیں آتی ‘ وہ کیازمین و آسمان کی تخلیق پہ غور کرے گا ؟آج کے مسلمان جب بھی نیک ہونے کی خواہش کرتے ہیں ‘ وہ دنیا سے کٹ جاتے ہیں ۔ مصلے اٹھا کر صحرائوں میں نکل جاتے ہیں ۔ اپنے جنگی طیارے نہیں بناتے ۔ اپنااسلحہ بھی کفار سے خریدتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جب بھی ہم نیک ہونے کی خواہش کرتے ہیں ‘دوسروں کو گناہگار اور قابلِ سزا سمجھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ کو شہید کرنے والے خارجیوں سے لے کر عصر حاضر کے طالبان اور ایران کے ملا تک ‘ سب اپنی نیکی کے خمار میں مست اور دوسروں کو گناہ گار اور کافر سمجھتے رہے ہیں ۔
جماعت کو اس حال تک پہنچانے میں ایک بہت بڑا کردار زعمِ تقویٰ نے ادا کیا ہے۔حد یہ تھی کہ پانچ سال تک پاکستان تحریکِ انصاف والوں کے ساتھ پختونخوا میں اقتدار میں ہونے کے باوجود سوشل میڈیا پر یہ خود کو پاکباز اور پی ٹی آئی والوں کو گناہگار قرار دیتے رہے ۔ قرآن کہتاہے کہ خود کو پاکباز مت کہو‘ خدا کو معلوم ہے کہ کون کتنا پاکباز ہے ۔ دو دن پہلے ایک اہم جماعتی نے یہ Statusپوسٹ کیا کہ برطانیہ میں نشے سے مرنے والوں کی اہم ترین وجہ کوکین کا استعمال ہے ۔ یہ کپتان پر چوٹ تھی اور جب پاکستان تحریکِ انصاف والوں نے اس پر respond کرنا شروع کیا تو پھر موصوف فرمانے لگے کہ میں نے کسی کا نام نہیں لیا۔ آپ چور ہیں اور آپ کی ڈاڑھی میں تنکا ہے ۔ ان سے گزارش کی کہ دوسروں کو گناہگار سمجھنے کی اس روش نے ہی جماعت کو اس حال تک پہنچایا ہے کہ پورے ملک میں اسے بمشکل چار پانچ سیٹیں ملتی ہیں ۔ اپنی پارسائی کے لبادے میں سے نکل کر گناہگاروں تک رسائی اختیار کریں‘ جنہوں نے ویٹ دینا ہوتا ہے ۔
عمران خان اس وقت قابلِ سزا قرار پا سکتے ہیں ‘ جب انہیں مجمع ِعام ‘ ٹی وی یا کسی تقریب میںنشے میں کبھی دیکھا گیا ہو ۔ ایسا کبھی بھی نہیںہوا۔جو لوگ خود کو نیک سمجھتے ہیں ‘ عبادات کرتے ہیں‘ ان کی ایک عظیم اکثریت عقل کو طلاق دے دیتی ہے ۔ ان کا خیال یہ ہوتاہے کہ اب ہم نیک ہوگئے ہیں ‘ اس لیے کامیابیاں ہماری جھولی میں خودبخود گرنے لگیں گی ۔ ان '' نیک ‘‘ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعدا د یہ سمجھتی ہے کہ اسلحے کے بل پر مخلوق کوسیدھا کیا جا سکتاہے ۔ یہی وجہ ہے افغانستان کے طالبان اور القاعدہ سے لے کر بوکو حرام تک ‘سب مخلوق کو اذیت دینے کا سبب ہی بنتے ہیں اور اسلام کو بدنام کرنے کا بھی ۔ جماعت اور اخوان المسلمین تک سب نے یہ قسم اٹھا رکھی ہے کہ عقل سے کام نہیں لینا۔ صدر مرسی کے خلاف ملک میں مظاہرے جاری تھے ۔ ایسے ہی مظاہرے پہلے اخوان المسلمین کے حق میں بھی ہوتے رہے تھے ؛ حتیٰ کہ وہاں آرمی چیف نے یہ بیان جاری کیا کہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں اگر حالات نہ سنبھلے‘ تو فوج مداخلت پر مجبور ہوگی ۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب صدر مرسی نئے انتخابات کا اعلان کرتے اور دوبارہ الیکشن جیت کر اپنے مخالفین کی بولتی بند کرتے ۔ اس کے علاوہ بھی کئی اقدام اٹھائے جا سکتے تھے ۔ وہ ٹک ٹک دیدم ‘ د م نہ کشیدم کی تصویر بنے بیٹھے رہے ۔ افغانستان میں نیٹو افواج کی بماری سے لے کر لیبیا تک ‘ کہیں بھی مسلمان افواج لڑنے کے لیے تیار نہیں تھیں ۔ فضائیہ تو نہ ہونے کے برابر تھی۔ ملا عمر سے لے کر معمر قذافی اور صدام حسین تک ‘ سب کے پاس غاروں یا ٹنلز میں چھپنے کے علاوہ کوئی بھی حکمتِ عملی موجود نہیں تھی ۔
یہ زعمِ تقویٰ اور پارسائی کی نفسیات ہر کہیں موجود ہے۔ ایک واٹس ایپ گروپ میں ‘ میں شامل تھا۔ ایک شخص اکثر ایک دعا شیئر کرتا‘ جس کے آخری الفاظ اس طرح کے ہوا کرتے : اے خدا میری چاہت‘ عشقِ رسولؐ اورمحبت الٰہی !!۔ ایک دن ایک صاحب نے سب کے سامنے ان سے یہ فرمایا کہ یہ دعا تو آپ اکیلے میں بھی مانگ سکتے ہیں ۔ سب کے سامنے کیوں مانگتے ہیں ؟ کیا آپ کے دل میں حب جاہ نے ڈیرے لگا لیے ہیں؟ آپ بد اخلاقی اور بدگمانی کے لیول کا اندازہ لگائیں ۔کچھ دیر تک تو دوستوں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی ‘ جب باز نہ آئے‘ تو پھر طبیعت صاف کرنی پڑی ۔اس سے کسی حد تک افاقہ ہے ۔ یہ زعم ِ تقویٰ ہر کہیں ہے ۔ سید منور حسن تو اس زعم ِ پارسائی میں اتنے اندھے ہو چکے تھے کہ پاک فوج کے جوانوں کو شہید ماننے پر تیار نہیں تھے ۔ خودکش حملوں کی مذمت پر تیار نہیں تھے ‘ پھر دیکھیں ‘ قوم نے انہیں کس گمنامی کے حوالے کیا ۔ 
جماعت والوں کی شکست ِ فاش کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کا جیتنے کا تاثر ختم ہو چکا ہے۔ یہ تاثر بہت اہم ہوتا ہے ۔ اس تاثر کی وجہ سے جیتنے والے امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور ایک عام ووٹر ووٹ دیتا ہے ۔ لیڈر کے اندر ایک رعب ہونا ضروری ہے ۔ سراج الحق تو اپنی کلاشنکوف والی تصویر میںبھی مسکین لگتے ہیں ۔ دوسری اہم وجہ اقتدار میں آزما لیا جانا ہے ۔ کوئی بھی سیاسی جماعت جب اقتدار حاصل کر لیتی ہے‘ تو پھر عوام اس کی کارکردگی کے بل پر اس سے نفرت یا محبت کرنے لگتے ہیں۔ طیب اردوان اور مہاتیر محمد جیسے لوگوں کو تو بار بار فتح حاصل ہوتی ہے ‘ جبکہ صدر زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے اقتدار کا جو حال ہوا‘ وہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔ جماعت کو بھی یہ موقع 2003 ء سے 2008ء تک دو صوبوں میں ایم ایم اے کی حکومت کی صورت میں ملا۔ اس کا انجام یہ تھا کہ مولوی صاحبان نے مشرف کو اسمبلیوں کی تحلیل کا اختیار دیا۔ آخر قاضی صاحب مستعفی ہو کر ایک طرف روانہ ہوئے اور مولانا فضل الرحمن دوسری طرف‘جبکہ دونوں دھڑے ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کر رہے تھے ۔ یہ تھا‘ اس مقدس اتحاد کا انجام ۔ زعم ِتقویٰ ایک کیفیت ہے ۔ انسان جب نماز پڑھتا ہے ۔ ڈاڑھی رکھتااور شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے اوپر کر لیتاہے ‘تویہ وہ وقت ہوتاہے ‘ جب انسان کا ازلی دشمن ‘ اس کا نفس اس کے اندر اپنی نیکی کا خمار پیدا کرتاہے ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved