تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-08-2018

پڑوس کا ’’روہنگیا‘‘

خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ جو کچھ میانمار (برما) نے کیا‘ وہی کچھ بھارت بھی کرنا چاہتا ہے۔ تناظر اور عواقب کی پرواء کیے بغیر ایسا جُوا کھیلا جارہا ہے‘ جس میں برائے نام شکست بھی بہت کچھ داؤ پر لگاسکتی ہے۔ میانمار میں نام نہاد منتخب حکومت نے روہنگیائی نسل کے لاکھوں مسلمانوں کو کسی جواز کے بغیر ''بے ریاست‘‘ بنانے کی ٹھانی اور ایسا کر گزری۔ دنیا چیختی رہی‘ مگر میانمار کی سیاسی و عسکری قیادت پر کچھ خاص اثر نہ ہوا۔ روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر ملک سے نکلنے پر مجبور کیا گیا۔ دوسری طرف بنگلہ دیش نے اُنہیں قبول کرنے سے انکار کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک بڑے انسانی المیے نے جنم لیا اور ہزاروں مسلمان کسمپرسی کی حالت وطن سے نکلے اور تاریک راہوں میں مارے گئے اور اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ شہادتوں کی درست اور مصدقہ تعداد بھی دستیاب نہیں اور عالمی برادری کو جتنا اظہارِ رنج و غم کرنا چاہیے تھا اُس کا عشرِ عشیر بھی نہ کیا۔ 
بڑی طاقتیں بہت سے چونچلے اپناتی ہیں۔ بھارت ابھرتی ہوئی علاقائی طاقت ہے۔ جو کچھ کرنا چاہیے‘ اُس سے دامن کَش رہتے ہوئے وہ ایسا بہت کچھ کر رہا ہے‘ جس کے کرنے کا وقت آیا ہی نہیں۔ کسی طاقتور پر تو بس چلتا نہیں۔ کمزور کی گردن ہاتھ میں آسانی سے آ جاتی ہے‘ اس لیے اُسی کو دبوچنے میں ''آنند‘‘ محسوس کرنے پر اکتفا کیا جارہا ہے۔ بھارت کے انتہا پسند ہندو اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے مسلمانوں کو نشانے پر رکھتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کا ہَوّا دکھاکر عام اور سادہ لوح ہندو کو خوفزدہ کیا جاتا ہے اور یوں ووٹ بینک برقرار رکھا جاتا ہے۔ یہ کھیل ڈھائی تین عشروں سے جاری ہے۔ سیکولر قوتیں بھی اب پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ 
چند برسوں کے دوران انتہا پسند ہندو بات بات پر مسلمانوں کے خلاف جانے کو اپنی کامیابی کا واحد ذریعہ اور طریقہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز کردی گئی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں ایک یا دو کروڑ نہیں‘ 22 کروڑ سے زائد ہیں اور معاشرے کے اتنے بڑے حصے کو الگ تھلگ کرنے کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مسلمانوں کے خلاف اِشو تلاش کیے جاتے تھے۔ اب مستقل‘ پائیدار اور سدا بہار نوعیت کے اِشو تیار کرلیے گئے ہیں۔ گائے کی حفاظت کے نام پر کسی کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے کا بھی ہی معاملہ ہے۔ اگر کوئی مسلمان دودھ دوہنے کے لیے بھی گائے خرید کر لے جارہا ہو تو اُسے تشدد کا نشانہ بنانا اور بعض کیسز میں شہید کردینا پیدائشی حق اور فرض سمجھ لیا گیا ہے۔ 
لِنچنگ ‘یعنی ہجوم کے ہاتھوں کسی کو تشدد کا نشانہ بنانا اور موت کے گھاٹ اتار دینے کا رجحان ڈیڑھ دو برس کے دوران اتنی تیزی سے اور اتنے بڑے پیمانے پر پروان چڑھا ہے کہ میڈیا اور نمایاں سیاسی و سماجی شخصیات کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس دیپک مِشرا کو بھی کہنا پڑا ہے کہ لِنچنگ کسی بھی حال میں برداشت نہیں کی جانی چاہیے اور ریاستیں حکومت اس حوالے سے لائحۂ عمل ترتیب دے کر مرکزی حکومت سے رابطے میں رہیں۔ 
مسلمانوں کو ہر وقت نشانے پر رکھنے کے حوالے سے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیر اعظم نریندر مودی کو غیر معمولی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گائے کی حفاظت کے نام پر انتہا پسند ہندوؤں نے 15 سے زائد ریاستوں میں جتھے تشکیل دیئے ہیں ‘جو کسی بھی وقت کسی بھی بہانے سے کسی بھی مسلمان کو نشانہ بناتے ہیں اور انتظامیہ محض تماشائی بنی رہتی ہے۔ بے لگام ہجوم کے آگے کچھ کرنے کی جسارت اس لیے نہیں کی جاتی کہ مرکزی حکومت یہی چاہتی ہے۔ ووٹ بینک کی سیاست میں ایسے ہی تماشے ہوا کرتے ہیں۔ 
بے لگام ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا معاملہ اب اس حد تک بے لگام ہوچکا ہے کہ خود وزیر اعظم مودی کو بھی کہنا پڑا ہے کہ کسی بھی محرّک کے تحت ہجوم کے ہاتھوں کسی کو تشدد کا نشانہ بنانا سراسر خلافِ قانون ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کو ایک انٹرویو میں نریندر مودی نے کہا کہ قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی۔ 
زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ جن ریاستوں میں ہندو اِزم برائے نام رہا ہے‘ وہاں بھی لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفرت کے بیج بونے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مشرقی ریاست مغربی بنگال اور جنوبی ریاستوں کیرالا‘ تامل ناڈو اور کرناٹک میں مسلم مخالف جذبات برائے نام رہے ہیں مگر بی جے پی نے ایک عشرے کے دوران ان ریاستوں کے ہندوؤں کو بھی شمالی بھارت کے غالب سیاسی رجحان ‘یعنی مسلم دشمن ہندو ازم کے رنگ میں رنگنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ 
اب شمال مشرقی بھارت کی ریاستوں کو نشانے پر لیا گیا ہے۔ آسام بھی اُن بھارتی ریاستوں میں سے ہے ‘جن کی سرحد بنگلہ دیش سے ملتی ہے۔ آسام میں صدیوں سے بسے ہوئے نسلی بنگالی مسلمانوں کو اب شہریت کے حق سے محروم کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کے نام پر مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دیا جارہا ہے یا پھر آسام سے نکل کر مغربی بنگال میں بسنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے اس معاملے پر مرکزی حکومت سے براہِ راست ٹکرانے کی جسارت کی ہے۔ معاملہ اس حد تک بگڑا ہے کہ بی جے پی کے صدر امیت شاہ کو مغربی بنگال میں ریلی اجتماعات سے خطاب کرنا پڑا ہے‘ تاکہ ممتا بینرجی کی ترنمول کانگریس کے مقابل کمزور پڑنے کا تاثر رفع کیا جاسکے۔ آسام میں دو چار ہزار نہیں‘ بلکہ 40 لاکھ سے زائد افراد کی شہریت پر سوالیہ نشان لگادیا گیا ہے اور ان میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ مہا راشٹر اور دیگر ریاستوں میں بسے ہوئے بنگالی مسلمانوں کو بنگلہ دیشی قرار دے کر الگ تھلگ کرنے کا عمل بھی‘ شدید و غیر شدید انداز سے‘ عشروں پر محیط ہے۔ 
آسام کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا عمل اتنے بے ڈھنگے انداز سے شروع کیا گیا ہے کہ نیو یارک ٹائمز نے بھی ایک تجزیے میں بھونڈے پن کی نشاندہی کرتے ہوئے مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ہرتوش سنگھ بال کے ایک مضمون میں آسام کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی پالیسی کو بھارتی حکومت کی طرف سے اپنا ''روہنگیا اِشو‘‘ کھڑا کرنے کی کوشش کہا گیا ہے۔ میانمار میں چند لاکھ مسلمانوں کا معاملہ تھا۔ آسام میں 38 لاکھ سے زائد مسلمانوں کو ''بے ریاست‘‘ بنانے کی سازش کی جارہی ہے‘ جو بہت بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہے۔ یوگا گرو بابا رام دیو بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے پر تُل گئے ہیں۔ اُنہوں نے ''خبردار‘‘ کیا ہے کہ بنگلہ دیش سے در اندازی نہ روکی گئی‘ تو بھارت میں مزید 10 کشمیر اُٹھ کھڑے ہوں گے! 
سابق مرکزی وزیر ششی تھرور نے انتہا پسند ہندوؤں کی غیر دانش مندانہ پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر مسلمانوں کو یونہی نشانے پر رکھا جاتا رہا ‘تو بھارت میں کئی پاکستان نمودار ہوں گے! بے لگام ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور موت کے گھاٹ اتارنے کے واقعات کو ششی تھرور نے قومی بدنصیبی قرار دیا ہے۔ مودی سرکار کی حماقت پسندی یہ ہے کہ وہ اپنا ووٹ بینک برقرار رکھنے کے لیے بچی کھچی قومی یکجہتی کو بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کر رہی۔ معاملات کی درستی کے لیے بھارت میں ہر مذہب و رنگ و نسل کے اعتدال پسند لوگوں کے ساتھ ساتھ اہلِ دانش کو بھی کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved