تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     15-08-2018

تماشا لگانے کا فن

اگرچہ نیب کے انیس برس قبل قیام سے اب تک کسی کو اس ادارے سے امیدیں نہیں رہیں۔
شروع کے چند ماہ‘ جب جنرل مشرف واقعی احتساب کے موڈ میں تھے، کچھ ہل جل ہوئی تھی۔ پھر جنرل مشرف کو بھی سیاست کا چسکا لگ گیا۔ کسی نے سمجھایا‘ یہ اقتدار روز روز نہیں ملتا‘ وہ بھی کسی آرمی چیف کو‘ بہتر ہو گا کرپشن کے خلاف جس نیب کو لانچ کیا تھا‘ اسی نیب کو استعمال کرو ‘ تمام کرپٹ لوگوں کو دوبارہ کلین چٹ دے کر اپنے ساتھ ملا لو اور طویل حکومت کرو۔ 
ماضی میں نیب کا جو بھی چیئرمین رہا‘ وہ زیادہ تر حکمرانوں کا ہی غلام رہا۔ جنرل مشرف نے چار چیئرمین نیب لگوائے تو زرداری اور نواز شریف نے بھی اقتدار میں آتے ہی اپنے وفادار تلاش کیے۔ نیب کا ریکارڈ کرپشن ختم کرنے میں زیادہ نہیں رہا۔ ہاں پاکستان میں کرپشن بڑھ گئی ہے تو اس میں نیب کا ہاتھ ہے۔ جب نیب نہیں بنا تھا‘ تب بھی پاکستان میں کرپشن کو برا سمجھا جاتا تھا۔ افسران سے لے کر سیاستدانوں اور عام انسانوں تک سب لوگ ڈرتے تھے کہ وہ پکڑے نہ جائیں‘ لوگوں کو پتا نہ چل جائے۔ چھپ چھپا کر کرپشن ہو رہی تھی۔ اگرچہ سیاستدان اور بیوروکریٹس کرپشن کر رہے تھے لیکن معاشرے نے ابھی کرپشن اور کرپٹ کو قبول کرنا شروع نہیں کیا تھا۔ مجھے یاد ہے‘ جنرل مشرف کے نیب سے پہلے اگر ہم کرپشن سکینڈل بریک کرتے تھے تو پورے اسلام آباد میں اقتدار کی غلام گردشوں میں زلزلہ آ جاتا تھا۔ ہلچل مچ جاتی۔ وزیر اعظم آفس ہو یا اسمبلی‘ وہاں شور مچ جاتا۔ شام تک پریس ریلیز کی تیاری ہوتی۔ وزیر ہوتا تو جواب طلبی‘ اور اگر سیکرٹری ہوتا تو شام تک اسے بدل دیا جاتا۔ چاہے مقصد سزا دینا نہ ہو‘ لیکن ایک میسیج ضرور دیا جاتا تھا کہ ہر حکومت کرپشن کے خلاف ہے‘ چاہے وہ حکومت اور اسے چلانے والے خود ہی خاموشی سے بڑے پیمانے پر کرپشن کیوں نہ کر رہے ہوں۔ لیکن ان بیس برسوں میں معاشرے میں کرپشن اور کرپٹ کی جو قبولیت میں نے دیکھی‘ وہ حیران کن ہے۔ نیب کی صرف ایک شق نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ پلی بارگین کے تحت اگر آپ نے ایک ارب روپے کی کرپشن کی ہے‘ تو پچاس ساٹھ کروڑ روپے واپس کر دیں‘ اور جا کر عیش کریں۔ باقی پانچ دس کروڑ روپے نیب کے وہ افسران اپنی جیب میں ڈال لیتے تھے جو اس پلی بارگین کے فوائد ایک سمری کی شکل میں تیار کرتے تھے۔ نیب کے ابتدائی دنوں میں ہی ایل پی جی سکینڈل کی تحقیقات شروع ہوئیں تو ایل پی جی کنگ کو پکڑا گیا۔ موصوف نے تیس کروڑ روپے کی پلی بارگین کی اور بارہ کروڑ روپے کی پہلی قسط جمع کرائی۔ آج تک دوسری قسط نہیں دی۔ اس ایل پی جی کنگ نے ایک نیا کام کیا۔ نیب کے اس ملزم نے نیب کے افسران کی بولی لگا دی۔ تین چیئرمینوں کو اس نے ایل پی جی کے کوٹے دے کر اپنے ساتھ کاروبار میں ملا لیا۔ باقی کے افسران‘ جو نیب میں تھے‘ انہیں بھی ایل پی جی کوٹے دیے۔ یوں وہ افسران جو کبھی اپنے ملزم سے پیسے ریکور کر رہے تھے‘ اب اس ملزم کے کاروباری ساتھی بن چکے تھے۔ 
پلی بارگین کا یہ نقصان ہوا کہ عوام میں کرپشن کو ایک حقیقت مان لیا گیا۔ معاشرے کو یہ میسیج گیا کہ آپ نے اگر کرپشن کی ہے تو کوئی بات نہیں‘ ہم سے بات کریں‘ ہم آپ کو بہترین ڈیل آفر کریں گے۔ اگلی دفعہ آپ کوشش کریں کہ نہ پکڑے جائیں۔ یوں اربوں کی کرپشن کرنے والوں سے چند کروڑ روپے لے کر انہیں رہا کئے جانے کی وجہ سے کرپٹ اور کرپشن‘ دونوں عام ہونے لگے۔ دھیرے دھیرے نیب کا خوف لوگوں کے دلوں سے نکل گیا۔ ایک دن وہ بھی آیا کہ جنرل مشرف دور میں دو ہزار دو کے الیکشن کے نتیجے میں بننے والی کابینہ میں آدھے وزیر نیب کے ملزم اور ضمانتوں پر تھے۔ یوں یہ ادارہ ایک ایسا ہتھیار بن گیا‘ جو جنرل مشرف نے سیاسی طور پر استعمال کیا اور خوب کیا۔ 
اس کے بعد جب سیاستدانوں کی باری لگی تو انہوں نے بھی یہ کام کیا۔ زرداری‘ گیلانی اپنا چیئرمین نیب لائے اور اپنے کیسز سیٹل کرانے شروع کیے۔ زرداری نے نیب کی مدد سے ایک اور کام کیا۔ لندن سے اپنا جیمز بانڈ ہائی کمشنر واجد شمس الحسن جینوا بھیجا‘ جس نے فلمی انداز میں ایک آپریشن کرکے وہاں زرداری اور بینظیر بھٹو کے خلاف صندوقوں میں بند منی لانڈرنگ کے ثبوت چوری کر لیے۔ دوسری طرف پنڈی نیب میں جو بھی دستاویزات پڑی تھیں‘ انہیں چوری کر لیا گیا۔ یوں نیب کی عدالتوں سے زرداری اس وقت بری ہو گئے‘ جب ان کے وکیل نے رولا ڈال دیا کہ جناب نیب کے پاس تو اصلی دستاویزات ہی نہیں ہیں۔ نیب کے ڈپٹی چیئرمین وسیم افضل عدالت کے کٹہرے میں دہائیاں دیتے رہ گئے کہ وہ سب اصلی دستاویزات نیب کے پاس چھوڑ گئے تھے۔ زرداری نے وہ بانس ہی توڑ دیا‘ جس سے احتساب کی بانسری بج سکتی تھی‘ اور یوں وہ بری ہو گئے۔ 
نواز شریف نے بھی نیب کے ساتھ یہی معاملہ کیا۔ اگرچہ ماضی میں وہ سیف الرحمن کے ساتھ مل کر احتساب سیل کے نام پر اپنے مخالفوں کو جیلوں میں قید کرتے رہے‘ ججوں کے ذریعے فون پر ہی سزائیں سنواتے رہے‘ لیکن ان کو یہ داد دیں کہ جن جرائم پر وہ دوسروں کو سیف الرحمن اور ججوں سے سزائیں دلوا رہے تھے‘ وہی جرائم وہ خود بہت عرصہ پہلے کر چکے تھے۔ جب نواز شریف بینظیر دور میں اسمبلی میں ان کا سرے محل سکینڈل بریک کر رہے تھے‘ تو اس سے دو سال پہلے ہی لندن کے دل میں فلیٹس خرید چکے تھے۔ وہ خود آف شور کمپنیاں بنا چکے تھے‘ لیکن زرداری اور بینظیر بھٹو کا ٹرائل کرا رہے تھے۔ نیب کا بد ترین دور نواز شریف دور میں تھا جب قمر زمان چوہدری کو چیئرمین لگایا گیا۔ قمر زمان چوہدری نے نیب اور احتساب کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ ہر کرپٹ کو انہوں نے کلین چٹ دے دی۔ 
تاہم موجودہ چیئرمین نے توقعات کے برعکس کچھ کام کرنا شروع کیا اور لوگوں کو کچھ امید بندھ گئی‘ لیکن اب جو کچھ سامنے آ رہا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ ادارہ کبھی نہیں سدھر سکتا۔ جس عمارت کی بنیاد ہی غلط رکھی گئی‘ ہو وہ بھلا کیسے سیدھی ہو سکتی ہے۔ ایک بونگی اس وقت ماری گئی اور بہت بھد اڑی تھی جب محض ایک جھوٹی خبر پر سوئوموٹو لے لیا کہ نواز شریف نے چار ارب ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی تھی‘ اور بقول نیب کے یہ بات ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں بتائی گئی تھی۔ بعد میں پتا چلا کہ وہ سب جھوٹ تھا۔ 
اب نیا کام کیا ہے‘ جس پر پوری قوم دنگ ہے۔ ایک غیر ملکی لڑکی ایوا‘ جس نے پاکستان میں ٹورازم کو پروموٹ کرنے کے لیے بہت کام کیا ‘ اس کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ پی آئی اے کے ایک چھوٹے سے جہاز کے اندر اور باہر پاکستانی جھنڈے کو لپیٹ کر رقص کر رہی ہے۔ اس پر نیب نے فوراً سخت پریس ریلیز جاری کی کہ کارروائی ہوگی اور ملزمان کو سزا ملے گی۔ حیرانی ہوتی ہے کہ ان عہدوں پر کیسے کیسے لوگ بیٹھ گئے ہیں۔ جب میری نیب کے ترجمان سے بات ہوئی تو بولے security breach ہوئی تھی‘ اور اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا تھا۔ میری ہنسی چھوٹ گئی کہ بھلا کب سے نیب نے سکیورٹی کا ٹھیکہ لے لیا ہے؟ 
یہ وہ بیمار ذہنیت ہے جو اس ملک کو اس حالت میں لے آئی ہے۔ ایک غیر ملکی لڑکی کے پاکستانی پرچم کو لپیٹ کر رقص کرنے کو بھی جرم بنا لیا گیا ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں پچھلے پندرہ بیس برس میں غیر ملکی ٹورسٹ آنے کو تیار نہیں ہے۔ اوپر سے داد دیںبعض پاکستانی میڈیا چینلز کو جن کی غیرت جاگ اٹھی‘ جن کے اپنے مارننگ شوز ایک شریف انسان نہیں دیکھ سکتا۔ 
مجھے لگتا ہے ہم بیمار ہو چکے ہیں۔ ہمیں ہر سیدھی بات بھی اب غلط لگتی ہے۔ اگر اس لڑکی کا رقص دیکھیں تو آپ کی اپنے وطن اور سبز پرچم سے محبت مزید گہری ہو جاتی ہے۔ دنیا بھر میں قومیں خوشی سے بے حال ہو جاتی ہیں اگر ان کے ہاں کوئی غیر ملکی ان کے پرچم کو لپیٹ کر رقص کرے اور یہاں نیب نے سخت سزا دینے کا اعلان کیا ہے۔ 
کرپٹ لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے جو اس ملک کو لوٹ گئے‘ ان پر نیب خاموش رہی لیکن ایک غیر ملکی لڑکی نے پاکستان کا پرچم پہنچ کر رقص کر لیا تو نیب سے لے کر میڈیا تک سب کی غیرت جاگ گئی۔
خود کو تماشا بنانے کا سلیقہ سیکھنا ہو تو کوئی ہم سے سیکھے!

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved