تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     15-08-2018

قوموں کاعروج اور زوال

قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتاب ہے‘ جس میں زندگی سے متعلقہ حقائق کو نہایت احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ کتابِ حمید کا مطالعہ ہمیں یہ بات سمجھاتا ہے کہ قوموں کو کس طرح عروج اور زوال حاصل ہوتاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں تباہی کا نشانہ بننے والی بہت سی اقوام کا ذکرکیا‘جن کے احوال کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کو بھانپنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ قومیں کیوں زوال پذیر ہوتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام میں قوم نوح‘ قوم عاد اور قوم ثمود کی تباہی کی وجہ یہ بتلائی کہ وہ بداعتقادی کا شکارتھے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کو فراموش کر چکے تھے۔ حضرت نوح‘ حضرت ہود اور حضرت صالح نے جب اُن کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت اور سیدھے راستے کی طرف آنے کی دعوت دی تو وہ اس دعوت کو قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہ ہوئے نتیجتاً وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کانشانہ بنے۔ چنانچہ قوم نوح ایک سیلاب کی زدّ میں آگئی۔قوم عاد کو یہ گمان تھا کہ ہم سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں‘تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نظر نہ آنے والی ہواکو ان پر اس طرح مسلط کیا کہ وہ زمین پر یوں کٹے پڑے تھے جس طرح کھجور کے کٹے ہوئے تنے ہوں۔ قوم ثمود کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے نبی حضرت صالح علیہ السلام نے اللہ کی توحید کی دعوت دی‘ لیکن وہ اس دعوت کو قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔اللہ تبارک وتعالیٰ کے نبی حضرت صالح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے ان کے لیے نشانی کو طلب کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے ایک پہاڑ پھٹا جس میں سے ایک اونٹنی باہر نکلی اور اس نے باہر نکل کر ایک بچے کو جنم دیا۔ ناقۃ اللہ یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نشانی تھی جو بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئی۔ اسی طرح اس کا بچہ بغیر باپ کے پیدا ہوا۔اتنی بڑی نشانی دیکھ سیدھے راستے پر آنے کی بجائے ظالموں نے ناقۃ اللہ کی کنجھوںکو کاٹ دیا تواللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر ایک چنگھاڑ کو مسلط کیا ‘جس کے نتیجے میں وہ قصہ ٔپارینہ بن گئے۔ 
بد اعتقادی کا نشانہ بننے والی ان تین اقوام کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جنسی بے راہ روی میں مبتلا قوم لوط کا ذکر کیا۔اس قوم کے لوگ ہم جنس پرستی کی لعنت میں مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت لوط علیہ السلام دن رات اُن کی اصلاح کے لیے کوشاں رہے‘ لیکن اُن ظالموں نے حضرت لوط علیہ السلام کی کسی نصیحت کو قبول نہ کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرشتے جب خوبصورت مہمانوں کی شکل میں حضرت لوط علیہ السلام کے پاس عذاب کی خبر لے کر آئے تو اس وقت بھی بستی کے لوگوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے ان کے مہمانوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ حضرت لوط علیہ السلام نے ان کو یہ بات سمجھائی کہ میری بیٹیاں اور بستی کی عورتیں تمہارے لیے نکاح کے ذریعے حلال ہیں‘ تم میرے مہمانوں کے بارے مجھے تکلیف نہ دواوراللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ ‘کیا تم میں کوئی نیک آدمی نہیں ہے۔ جواب میں انہوں نے اپنی بدطینت کا ذکر کیا اور کہا کہ ہمیں آپ کی بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں اور آپ جانتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بستی کو اُٹھا کربلندی پر لے جا کر زمین پر پٹخ دیا اور اس پر آسمان سے پتھروں کی ایسی بارش ہوئی کہ ہر مجرم کا نشانہ باندھ کر پتھر اس پر لگتے رہے اور ان کو سنگسار کرکے تباہ وبرباد کر دیا گیا۔ 
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے کاروباری بے اعتدالیوں میں مبتلاقوم مدین کا ذکر کیا۔ جن کی اصلاح کے لیے حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ قوم مدین کے لوگ کم تولتے ‘ کم ماپتے اور دھوکا دہی کرنے کو اپنی کاروباری ترقی کے لیے ضروری سمجھتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام ان کو نصیحت کرتے رہے کہ پورا تولا کرو‘ پورا ماپا کرو۔ وہ حضرت شعیب علیہ السلام کو جواب میں یہ کہتے کہ کیا آپ کی نماز آپ کو اس بات کا حکم دیتی ہے کہ ہم چھوڑ دیں اس چیز کو جس کی پوجا ہمارے آباؤاجداد کیا کرتے تھے یا اپنے مالوں میں اپنی مرضی نہ کر سکیں۔ حضرت شعیب علیہ السلام کے بارے میں ان کا یہ گمان تھا کہ ان کی دعوت پر عمل کرنے کے نتیجے میں خسارہ ان کا مقدر بن جائے گا۔ لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ خسارہ ان لوگوں کا مقدر بنا جن لوگوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی دعوت کو قبول نہ کیا۔نتیجتاً وہ قوم ثمود کی طرح ایک چنگھاڑ کے ذریعے تباہ وبرباد کر دیے گئے۔
قرآن مجید نے فرعون کی تباہی اور بربادی کا بھی ذکر کیا ۔ فرعون زمین پراپنے آپ کو حاکم مطلق سمجھتا تھا۔ وہ بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کر دیا کرتا اور ان کی عورتوں کو چھوڑ دیا کرتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو دعوت دینے اور اس کا احتساب کے لیے اپنے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے بطور نصیحت فرعون اور اس کے قبیلے کو بہت سی عبرت انگیز نشانیاں دکھلائی گئیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کی طرف سے یدبیضاء اورمعجزاتی اعصاء کو لے کر آئے۔ جس میں فرعون کے لیے بہت بڑی نشانی تھی لیکن فرعون نے اس نشانی پر استکبار کا مظاہرہ کیا اور ان دو عظیم نشانیوں کو اس نے جادو کا شاخسانہ قرار دیا۔ جادوگروں کو منادی کر کے ایک میدان میں طلب کیا گیا جہاں پر انہوں نے اپنی رسیوں کو زمین پر یوں پھینکا کہ وہ سانپ بن گئیں۔ لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کاعصاء اژدھا بن کر ان رسیوں کو نگل گیا۔ اس کے بعد بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے فرعون اور اس کے قبیلے پر جوؤں‘ ٹڈیوں‘ مینڈکوں ‘ خون اور طوفان کو مسلط کیا گیا۔ ہر عذاب کو دیکھ کر فر عون ایک مرتبہ ہدایت پر آنے کا ارادہ کرتا لیکن بعد ازاں پلٹ جاتا۔ بالآخر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے وہ وقت بھی آیا جب اس کو غرق آب کر دیا گیا۔ غرق ہوتے ہوئے اس نے یہ الفاظ کہے کہ میں بھی اس ذات پر ایمان لے کرآیا جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور جس پر نبی اسرائیل کا ایمان ہے۔ اس کیفیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کے ایمان کو قبول نہ کیا اور رہتی دنیا تک اس کو نشان عبرت بنا دیا۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں قارون کی تباہی اور بربادی کا بھی ذکرکیا کہ جو اپنے مال کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا سمجھنے کے بجائے اپنے ہنر اور زورِ بازو سے منسوب کیا کرتا تھا ۔ اللہ تبار ک وتعالیٰ نے اس کو اس کے خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا اور اس کو بھی رہتی دنیا تک کے لیے عبرت بنا دیا۔ سورہ کہف میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے دو زمینداروں کا ذکر کیا جن میں ا یک زمیندار بہت بڑا تھا دوسرا اس کے مقابلے میں چھوٹا تھا۔ چھوٹا زمیندار بڑے زمیندار کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید اور سیدھے راستے کی طرف آنے کی دعوت دیتا رہا۔ لیکن بڑے جاگیر دار نے فراوانی کی وجہ سے یوم حساب کا انکار کیا اور یہ بات کہی کہ اگر یوم حساب قائم بھی ہو گیا تو مجھے وہاں بھی دنیا کی طرح فراوانی حاصل ہوگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی سرکشی اور گھمنڈ کی وجہ سے اس کی کھیتی کو تباہ وبرباد کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے 14 ویںپارے میں ایک بستی کی مثال دی جس کے پاس امن‘ اطمینان اوررزق کی نعمت موجود تھی۔ انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان سے رزق‘امن اور اطمینان کی نعمت کو چھین کر ان پر بھوک اور خوف کو مسلط کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید کی سورہ لہب میں ابولہب اور اس کی سرکش بیوی کے ہولناک انجام کا ذکرکیا اور ہمیشہ تباہی اور بربادی کو ان کا مقدر قرار دیا۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کے ساتھ ساتھ بہت سی عروج پانے والی بہت سی ہستیوں کا بھی ذکر کیا۔ حضرت یوسف ‘حضرت طالوت‘ حضرت داؤد‘ حضرت سلیمان‘ حضرت ذوالقرنین علیہم السلام دنیا میں غلبہ اور اقتدار نصیب ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ اس بات پر شاہدہے کہ نبی مہرباں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے روحانی عروج کے ساتھ ساتھ دنیاوی غلبہ بھی عطا فرمایا اور آپ کی حیات مبارکہ ہی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے جزیرۃ العرب میں آپ کی حکومت قائم ہوئی۔ بعد ازاںآپ کے خلفاء نے روم الکبریٰ‘ قیصر وکسریٰ کے اقتدار کو گرا کر پوری دنیا کو نظام اسلام کے تابع کر دیا۔ 
قوموں کے عروج اور زوال کا تجزیہ کرنے کے دوران یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو قوم بداعتقادی اور فسق وفجور کا راستہ اختیار کر لیتی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتی ہے وہ قوم زوال کانشانہ بن جاتی ہے۔ اس کے مدمقابل جو لوگ اصلاح پسندی کی نیت کے ساتھ بڑے مقاصدکے لیے جستجو کرتے رہتے ہیں اورا س راستے میں آنے والی تکالیف پر صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کاشکریہ ادا کرتے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو غلبہ عطا فرما دیتا ہے۔پاکستان ہمارا ملک ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ آزاد ی کی اس نعمت کو ہم نے بڑی جستجو اور محنت کے ساتھ حاصل کیا۔ اس نعمت بے پایاں کو برقرار رکھنے اور زوال نعمت سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم سرکشی‘ گھمنڈ‘ استکبار‘ کفران نعمت کا رویہ اختیار کرنے کی بجائے عاجزی‘ انکساری‘ اخوت‘ بردباری اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری کاراستہ اختیار کریں نتیجتاً اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے دنیا اورآخرت کی سربلندیاں ہمارا مقدر بن جائیں گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں بصیرت عطا فرمائے تاکہ ہم زوال کے راستے کی بجائے عروج کے راستے پر گامزن رہ سکیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved