''جنگ پسندی‘‘ نے امریکا کو دنیا بھر میں ان گنت خرابیاں پیدا کرنے کی راہ سجھائی۔ اور اس راہ پر وہ اتنا آگے جاچکا ہے کہ اسے احترام کی نظر سے دیکھنے والے برائے نام رہ گئے ہیں۔ خود امریکی سرزمین پر بھی اپنی قیادت سے مکمل طور پر متفق ہونے اور قومی پالیسیوں پر فخر کرنے والے امریکیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے۔
یورپ نے بہت پہلے راستہ بدل لیا تھا۔ اُس نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ ہر معاملے میں امریکا کا ساتھ دیتے رہنے کی صورت میں محض خرابیاں پیدا ہوں گی۔ یورپی یونین کے قیام کے ساتھ ہی طے کرلیا گیا تھا کہ ''نرم قوت‘‘ کو بنیاد بناکر آگے بڑھا جائے گا۔ عسکری مہم جُوئی کی گریز کی راہ پر گامزن ہوکر یورپ نے دنیا کو یہ پیغام دینا چاہا ہے کہ اکیسویں صدی میں ہم آہنگی اور اشتراکِ عمل کو بڑھاوا دیا جانا چاہیے۔ یہ سوچ انتہائی معقول ہے اور دنیا بھر میں اپنائی جانی چاہیے مگر ایسا لگتا ہے کہ امریکا ایسا نہیں چاہتا۔
امریکی قیادت نے قدم قدم پر کوشش کی ہے کہ کہیں نہ کہیں ایک آدھ بڑی جنگ جاری رکھی جائے اور چند ایک ممالک میں خانہ جنگی کا دِیا جلتا رکھا جانا چاہیے تاکہ روزی روٹی کا اہتمام ہوتا رہے۔ امریکا نے اپنا صنعتی ڈھانچا اِس طور ترتیب دیا ہے کہ جنگ پسند ذہنیت کو پروان چڑھاتے رہنا لازم ہوچکا ہے۔ سیاست اور معیشت کو آپس میں جوڑنے سے امریکی قیادت کے لیے بیک وقت کئی خطوں میں بگاڑ پیدا کرنا اور ہر وقت چار پانچ ممالک میں خانہ جنگی برقرار رکھنا بنیادی ضرورت بن کر رہ گیا ہے۔
بین الاقوامی اداروں اور اتحادوں کی ساخت کو اپنے حق میں رکھ کر امریکا نے کئی خطوں کو مجبور کیا ہے کہ وہ بات بے بات واشنگٹن کے گن گاتے رہیں یا پھر کسی بھی بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے واشنگٹن کی طرف دیکھا کریں۔ یورپ میں کئی طاقتیں ہیں جو عالمی معیشت میں غیر معمولی حصہ رکھتی ہیں۔ تعلیم و تربیت کا اعلیٰ معیار اور ٹیکنالوجیز کے شعبے میں غیر معمولی پیش رفت یقینی بناکر یورپ نے اپنا راستہ الگ اور مضبوط کیا ہے مگر امریکا کے لیے یہ سب کچھ بہت حد تک ناقابل برداشت ہے کیونکہ یورپ کو وہ ہر معاملے میں ساتھی دیکھنا چاہتا ہے۔ ؎
دیارِ نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مِری وحشتوں کا ساتھی ہو!
امریکا اب یورپ کو ڈرا رہا ہے کہ اُس نے ''نرم قوت‘‘ کی مدد سے جو کچھ پایا ہے اُسے محفوظ یا برقرار رکھنے کے لیے عسکری قوت کا بروئے کار لایا جانا ناگزیر ہے۔ افغانستان‘ عراق‘ لیبیا‘ شام اور یمن کو تاراج کرنے کے بعد اب امریکا کو نئے شکار کی تلاش ہے۔ فی الحال اسے مسلم دنیا میں ایسا کوئی ملک دکھائی نہیں دے رہا جو اس کی مشکل آسان کرسکے۔ ایسے میں اسے معاشی جنگ چھیڑنے کی سوجھی ہے۔ روس اور ترکی سے ٹکرانے کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے۔ اصل معاملہ تو چین کا ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی قوت کے سامنے بند باندھنا امریکی پالیسی میکرز کے لیے بہت بڑا دردِ سر ہے۔ جاپان کو بفر زون کی حیثیت سے استعمال کرکے بھی امریکا بحر الکاہل کے خطے میں اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں خاطر خواہ حد تک کامیاب نہیں ہوسکا۔ ایران پر نئی پابندیاں عائد کرنے کے بعد امریکا نے چین سے فولاد کی درآمد پر ڈیوٹی بڑھادی۔ ایران پر عائد کی جانے والی پابندیاں کئی امریکی حلیفوں (بلکہ حاشیہ برداروں) کو بھی متاثر کر رہی ہیں‘ ان میں بھارت بھی شامل ہے۔ دوسری طرف چین سے چھیڑی جانے والی معاشی جنگ کے دوسرے مرحلے میں ترکی کو نشانے پر لیا گیا ہے۔ ترکی اس لیے زد پر آگیا کہ وہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں چین کا معتبر حلیف اور معاون ہے۔ نشانے پر تو پاکستان کو بھی لیا جاسکتا تھا مگر ہم ہاتھیوں کی لڑائی میں محض میدان کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس لڑائی میں کھلاڑی کی حیثیت سے حصہ لینا ہمارے بس کی بات نہیں۔
ترک مصنوعات کی درآمد پر ڈیوٹی غیر معمولی حد تک بڑھاکر امریکا نے ترک کرنسی لیرا کو بحران سے دوچار کردیا ہے۔ 10 اگست کو امریکا نے ترکی کے خلاف جن معاشی اقدامات کا اعلان کیا ان سے ڈالر کے مقابلے میں ایک ہی دن میں لیرا کی قدر 16 فیصد گھٹ گئی۔ اس کے بعد 13 اگست کو مزید 12 فیصد کی گراوٹ آئی۔ ایک سال کے دوران ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی قدر میں 50 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔
آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک جزیرہ نہیں۔ سب کے مفادات جڑے ہوئے ہیں‘ یہی سبب ہے کہ ترک لیرا کی گراوٹ نے کئی ممالک کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ ترک سٹاک مارکیٹ اور بازارِ زر پر امریکی اقدامات کے شدید منفی اثرات مرتب ہونے ہی تھے‘ سو ہوئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کی سٹاک مارکیٹ اور بازارِ زر بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ 13 اگست کو بھارت میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ڈیڑھ فیصد کی ریکارڈ کمی واقع ہوئی جس کے نتیجے میں ڈالر کی قدر 69.91 روپے کی ریکارڈ سطح تک جاپہنچی اور سٹاک مارکیٹ میں کم و بیش 300 پوائنٹس کی کمی واقع ہوئی۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے 971 کروڑ روپے کے شیئرز فروخت کردیئے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ترک مالیاتی بحران برقرار رہا تو بھارتی بازارِ زر بھی شدید منفی اثرات محسوس کرتا رہے گا۔
کیا امریکا کسی نئی سرد جنگ کی تلاش میں ہے؟ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے ساتھ ہی سرد جنگ ختم ہوئی۔ اس کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلم دنیا کو تاراج کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ چین اور اس کے ہر کھرے حلیف کو نشانے پر لینے کی پالیسی تیار کرلی گئی ہے۔ یوں ایک نئی اور طویل سرد جنگ یقینی بنائی جائے گی۔ چین کو سپر پاور بننے سے روکنے کے لیے جو حکمتِ عملی اپنائی جارہی ہے وہ کسی عالمگیر ''گرم جنگ‘‘ کو بھی جنم دے سکتی ہے۔
امریکا کی طاقت کا گراف گر رہا ہے۔ اس گراف کو بلند کرنے کے لیے وہ نرم خُوئی اور شائستگی اپنانے کے بجائے مزید سرکشی کا مظاہرہ کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ یورپ مہذّب انداز سے آگے بڑھنا چاہتا ہے تو اس کی راہ میں دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں‘ اسے راہ اور ذہن بدلنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ امریکی قیادت چاہتی ہے کہ جنگ پسند ذہنیت ترک نہ کی جائے۔ وہ اپنے حلیفوں کو بہر طور اپنے ساتھ دیکھنا چاہتا ہے۔ ایسے میں معاملات کے درست ہونے کی توقع کیونکر کی جاسکتی ہے؟
ون بیلٹ ون روڈ کے اعلان کے ساتھ ہی امریکا نے چین کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ دی ہے۔ یہ سب کچھ چین کو معاشی اعتبار سے کمزور کرنے سے کہیں زیادہ کسی حقیقی‘ گرم جنگ کے لیے اکسانے کی خاطر ہے۔ چین کو انتہائی محتاط رہتے ہوئے کسی بھی نئی سرد یا گرم جنگ کی طرف جانے سے بچنا ہے۔ بین الاقوامی سیاست و معیشت کے حوالے سے یہی اس کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یورپ کو بھی تنے ہوئے رسّے پر چلنا ہے۔ چین اور یورپ کا امریکا کے مقابل ڈٹے رہنا عالمی امن و استحکام اور ترقی کا بنیادی تقاضا ہے۔ نرم قوت کو بچانے کے لیے عسکری سطح پر تیاریاں ضرور جاری رکھی جائیں‘ تاہم ہر معاملے میں اولیت نرم قوت ہی کو دی جانی چاہیے ‘تاکہ دنیا مزید خرابیوں سے محفوظ رہ سکے۔