تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     16-08-2018

ہر تبدیلی ’انقلاب ‘نہیں ہوتی!

انقلاب اور اصلاح میں فرق ہے۔ تبدیلی کی ہر ایک شکل کو انقلاب نہیں کہا جا سکتا۔ موجودہ حالات میں پاکستان میں چھوٹی موٹی تبدیلی تو آ سکتی ہے، مگر کسی سچے عوامی جمہوری یا قومی جمہوری انقلاب کے سرِ دست کوئی امکانات نہیں ہیں۔ انقلاب کوئی بے نام چیز نہیں ہوتی۔ ہر انقلاب کا ایک نام اور کام ہوتا ہے۔ 
انقلاب کے لیے چار چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ پہلی چیز ایک انقلابی نظریہ ہے۔ انقلابی نظرئیے سے مراد وہ مربوط خیالات ہوتے ہیں، جو کسی سماج کے بنیادی ڈھانچے کو بدل کر ایک نئے سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے کی تعمیر کا روڈ میپ پیش کرتے ہیں۔ انقلابی نظریہ کسی نظام کی مرمت، اس میں بہتری یا اس میں اصلاحات کے بجائے پورے نظام کو سمیٹ کر اس کی جگہ ایک نئے نظام کی تعمیر پر اصرار کرتا ہے۔
انقلاب کے لیے دوسری شرط ایک انقلابی پارٹی ہوتی ہے۔ انقلابی پارٹی کو مزکورہ بالا نظرئیے کی روشنی میں منظم کیا جاتا ہے۔ انقلابی نظریہ پارٹی کا منشور ہوتا ہے۔ پارٹی اس نظرئیے کی روشنی میں سماج کو بدلنے کا پروگرام لے کر عوام میں نکلتی ہے۔ پارٹی کا کیڈر اور اس کے عام کارکن تک سب نظریاتی تعلیم اور شعور سے مسلح ہوتے ہیں۔ وہ سیاست میں واضح طور پر اپنے دوست اور دشمن کے درمیان فرق کر سکتے ہیں، اور کسی قسم کے سمجھوتے کے بغیر آگے بڑھنے اور انقلاب برپا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔
انقلاب کے لیے جو تیسری چیز درکار ہوتی ہے‘ وہ انقلابی لیڈر ہے۔ یہ کوئی ایک شخص بھی ہو سکتا ہے، اور اجتماعی قیادت کی شکل میں پارٹی کا کوئی ادارہ بھی، جیسے سپریم کونسل، مجلس شوریٰ، پولٹ بیورو اور اس طرح کے دوسرے سپریم ادارے۔ لیڈرشپ خواہ شخصی ہو یا اجتماعی اس کا انقلابی نظرئیے اور شعور سے مسلح ہونا ضروری ہے، اور اس میں کسی قسم کے سمجھوتے کے بغیر انقلاب برپا کرنے کا عزم بھی لازم ہے۔
انقلاب کی چوتھی شرط انقلاب کے لیے معروضی اور موضوعی حالات کا انقلاب کے حق میں سازگار ہونا ہے۔ یعنی جس مخصوص سماج کے اندر انقلاب کی بات ہو رہی ہے، وہاں کے سماجی، معاشی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہوں کہ ان میں اصلاح کی گنجائش نہ ہو اور صورتحال پورے ڈھانچے کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے کی متقاضی ہو۔ 
دنیا کے ہر قابل ذکر انقلاب میں یہ چاروں شرائط موجود تھیں۔ یعنی انقلاب کے بنیادی لوازمات موجود تھے؛ چنانچہ دنیا انقلابات کے ایک پے در پے سلسلوں سے گزری۔ ان میں دنیا کا پہلا بڑا، بلکہ دنیا کو ہلا دینے والا انقلاب ولادیمر لینن کی قیادت میں سال انیس سو سترہ کا روسی انقلاب تھا۔ اس انقلاب نے زارِ روس کی تمام باقیات اور نشانیوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ اس انقلاب کے لیے مارکسزم کی شکل میں ایک انقلابی نظریہ، بالشویک پارٹی کی شکل میں ایک منظم سیاسی جماعت، لینن کی شکل میں ولولہ انگیز، جہاندیدہ اور دانشور قیادت موجود تھی۔ انقلاب کے لیے حالات سازگار تھے اور زارِ روس کے ہاتھوں ملک کے اندر جبر، استحصال اور غربت کی خوفناک شکلیں عوام کو آمادۂ بغاوت کر چکی تھیں۔ انقلاب کے دوران روس کے پرانے اور فرسودہ جاگیرداری اور زارِ شاہی نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک نیا نظام قائم کیا گیا۔ 
اسی سلسلے کا دوسرا بڑے پیمانے کا انقلاب مائو زے تنگ کی قیادت میں انیس سو انچاس میں چین میں برپا ہوا۔ اس انقلاب نے بھی چین کے پرانے سماجی و معاشی ڈھانچے کو یکسر بدل کر اس کی جگہ مائو ازم اور سوشلزم کی شکل میں ایک بالکل نیا نظام متعارف کروایا۔ اس طرح مشرقی یورپ اور کوریا سے لے کر لاطینی امریکہ تک انقلابوں کے ایک طویل سلسلے میں پرانے اور فرسودہ نظاموں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا گیا‘ اور اس کی جگہ بالکل نئے سماجی اور معاشی ڈھانچے قائم ہوئے۔ ان سب ملکوں میں ایک مقامی انقلابی پارٹی، نظریہ، لیڈر اور سازگار حالات تھے۔ ان انقلابوں میں قدرِ مشترک یہ تھی کہ انہوں نے اپنے اپنے ملکوں سے پرانے بادشاہی نظام کی باقیات، جاگیرداری نظام اور مذہبی اجارہ داروں کا خاتمہ کر کے ایک نیا ڈھانچہ ترتیب دیا۔ سوائے ایک آدھ ملک کے یہ سارے ممالک یکے بعد دیگرے نئی تبدیلیوں کے نذر ہوتے گئے۔ یہ وہ انقلاب تھے جو ایک باقاعدہ نظرئیے، ایک منظم پارٹی اور ایک نظریاتی رہنما کی قیادت میں پربا ہوئے۔ ان انقلابات کے ذریعے کچھ ممالک نے تاریخ کے ناقابل یقین کارنامے بھی سرانجام دئیے۔ روس اور چین میں کروڑوں لوگوں کو انتہائی مختصر عرصے میں نہ گفتہ بہ غربت سے باہر نکال گیا۔ ابتدا میں جس برق رفتاری سے سماجی و معاشی ترقی ہوئی وہ ناقابل یقین ہے۔ 
دنیا میں کچھ ایسے انتہائی اہم انقلاب بھی رونما ہوئے، جن کے پاس کوئی ایک منظم پارٹی یا کوئی ایک لیڈر نہیں تھا، لیکن اپنے اثرات کے حوالے سے یہ دنیا کو ہلا دینے والے انقلاب تھے۔ ان میں سال اٹھارہ سو اٹھتالیس کے یوریپن انقلاب بھی شامل ہیں۔ یہ انقلاب فرانس، جرمنی، آسٹریا، اٹلی‘ پولینڈ اور ہنگری میں رونما ہوئے۔ اپنی ماہیت کے اعتبار سے ان میں سے کچھ جمہوری انقلاب تھے۔ سال سترہ سو انانوے کے فرانسیسی انقلاب کا شمار بھی دنیا کے اہم ترین انقلابات میں ہوتا ہے۔ یہ انقلاب دس سال کے عرصے تک جاری رہا، جس میں مختلف پارٹیوں اور رہنمائوں نے کردار ادا کیا۔ اس انقلاب کے ذریعے ایسے اقدامات کیے گئے جنہوں نے فرانس اور پورے یورپ کی جدید تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ 
امریکی انقلاب کو بھی دنیا کے دس بڑے انقلابات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ یہ انقلاب طویل عرصے پر محیط ہے، جو سترہ سو پینسٹھ میں شروع ہو اورسترہ سو چوراسی تک جاری رہا۔ اس انقلاب میں امریکی عوام نے برطانیہ کی شہنشاہیت اور برطانوی پارلیمنٹ کے اختیارات ماننے سے انکار کیا‘ اور عوام کے حق حکمرانی اور جمہوری حقوق کے لیے اقدامات کیے۔
پاکستان میں اس وقت کوئی بڑی سیاسی پارٹی انقلاب پر یقین نہیں رکھتی۔ تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے رہنما موجودہ نظام میں کسی بنیادی تبدیلی کے خواہش مند نہیں۔ اس کے بر عکس وہ نظام کی مرمت، اصلاح اور اس میں بہتری کے ذریعے تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ بلاول بھٹو کا سوشل ڈیموکریٹک نظریہ البتہ ایک استثنا قرار دیا جا سکتا ہے، مگر پیپلز پارٹی کے پرانے رہنمائوں اور عام کارکن کو اب تک سوشل ڈیموکریسی اور اس کی برکات سے کسی نے آگاہ نہیںکیا۔ مزدور‘ کسان اور عوامی ورکرز پارٹی جیسی چھوٹی پارٹیاں عوامی جمہوری انقلاب کی بات کرتی ہیں، ان کے پاس نظریہ تو ہے، مگر تنظیم اور قیادت کا مسئلہ ہے؛ تاہم جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ان میں یہ بڑی مثبت تبدیلی آ رہی ہے کہ وہ عوامی دھارے میں شامل ہو کر ایک پُرامن جمہوری جہدوجہد کے ذریعے ملک کے سماجی اور معاشی ڈھانچے کو بدلنے کی سوچ اپنا رہی ہیں۔ سندھ، بلوچستان، پختونخوا اور آزاد کشمیر میں بھی کچھ بائیں بازو کے چھوٹے موٹے گروہ موجود ہیں، مگر وہ قیادت کے قحط الرجال بلکہ بحران کی وجہ سے تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر کر غیر موثر ہوتے جا رہے ہیں۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ انقلاب و اصلاح میں فرق ہے۔ عمران خان کسی انقلاب نہیں، بلکہ بتدریج تبدیلی یعنی اصلاح اور بہتری کی بات کرتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ نظام کو مرمت کر کے اسی سے کام لیا جائے۔ ایسا کرنا یقینا ممکن ہے، مگر اس کے نتائج ظاہر ہے محدود ہوں گے۔ مگر یہ اچھی ابتدا ہے۔ تبدیلی کی خواہش موجود ہے‘ اور یہ خواہش موجود رہنی چاہیے۔ چھوٹی موٹی تبدیلی ہی سہی، مگر اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو ایک حقیقی انقلاب کے لیے حالات سازگار ہوتے جائیں گے۔ اور ہو سکتا ہے مستقبل میں کوئی ایسی پارٹی ابھرے جس کے پاس درست نظریہ اور رہنما بھی ہو اور وہ پاکستان میں عوامی جمہوری انقلاب‘ شہری آزادیوں، انسانی حقوق اور مساوات پر یقین رکھتی ہو، اور ان مقاصد کی تکمیل کے لیے انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہو جائے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved