تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     17-08-2018

حکومت اپوزیشن تعلقات اور نئی حکومت

کیا پی ٹی آئی کی نئی حکومت اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے میں کامیاب ہو جائے گی؟ قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں جو مناظر دیکھنے میں آئے ان کے پیش نظر یہ محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نہ صرف اس کی ضرورت محسوس کرتی ہے بلکہ ان کے لیے سنجیدگی سے کوشش بھی کر رہی ہے۔ جہانگیر ترین، فواد چودھری اور پی ٹی آئی کے نامزد سپیکر برائے قومی اسمبلی اسد قیصر (جو اب سپیکر منتخب ہو چکے ہیں) پر مشتمل وفد کی ایاز صادق اور سید خورشید شاہ سے ملاقات اور قومی اسمبلی کے سپیکر کو بلا مقابلہ منتخب کرنے کی درخواست اس کا ثبوت ہے۔ اگرچہ عمران خان کی پارٹی اس میں کامیاب نہیں ہو سکی، تاہم افتتاحی اجلاس کے موقع پر پی ٹی آئی کے چیئرمین اور نامزد وزیر اعظم عمران خان نے آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کے ساتھ ہاتھ ملا کر یہ عندیہ دیا ہے کہ حکومت اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہاں ہے۔ لیکن جیسا کہ سپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب سے ظاہر ہو گیا ہے‘ پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کی تجویز قبول نہیں کی۔ اگر آئندہ بھی نئی حکومت پیپلز پارٹی یا اپوزیشن سے کسی مسئلے پر تعاون کی خواہش مند ہو گی تو اس کے جواب میں پی ٹی آئی کو کیا ملتا ہے، اس کا بہت حد تک انحصار خود نئی حکومت کے رویے پر ہو گا۔ اب تک پی ٹی آئی نے جو رویہ اختیار کیا‘ ڈر ہے کہ اس کے نتیجے میں وہ نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ ایم کیو ایم کی حمایت سے بھی محروم ہو سکتی ہے۔ مثلاً ابھی پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم (پاکستان) کے معاہدے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ پی ٹی آئی کراچی کے صدر فردوش شمیم نقوی نے بیان داغ دیا کہ پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم کے ساتھ خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری کی بنیاد پر معاہدہ کیا ہے‘ کیونکہ عمران خان کو وزیر اعظم منتخب کرانے کیلئے مطلوبہ تعداد میں ووٹ پورے نہیں ہو رہے تھے‘ ورنہ جہاں تک ایم کیو ایم پر پی ٹی آئی کے الزامات اور تنقید کا تعلق ہے، وہ ان پر قائم ہیں۔ اس بیان کا ایم کیو ایم نے سخت نوٹس لیا اور اس کے ایک رہنما فیصل سبزواری نے کہا کہ اس قسم کے بیانات سے دونوں پارٹیوں کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ایک اور رہنما نے کہا کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے معاہدے کو جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے اور ابھی سے پی ٹی آئی کی طرف سے اس کا تمسخر اڑایا جا رہا ہے۔ پیشتر اس کے کہ اس مسئلے پر ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان مزید بیان بازی ہوتی اور دونوں پارٹیوں کے تعلقات خراب ہوتے، پارٹی چیئرمین نے مداخلت کر کے نقوی صاحب کو فی الحال مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔ نقوی صاحب نے کہا: پارٹی چیئرمین نے کہا ہے کہ ابھی تلواریں نیام سے باہر نکالنے کا وقت نہیں آیا۔ پیپلز پارٹی‘ جو سیٹوں کے لحاظ سے قومی اسمبلی میں تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے، آگے چل کر پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے کئی مواقع پر ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے‘ کیونکہ اپوزیشن کا حصہ ہونے کے باوجود وہ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت یعنی پاکستان مسلم لیگ نون کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کیلئے تیار نہیں۔ مثلاً وزیر اعظم کے انتخاب میں کیا پیپلز پارٹی، اپوزیشن کے امیدوار شہباز شریف کو ووٹ دے گی؟ اس بارے میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کیونکہ افتتاحی اجلاس کے موقعہ پر جب یہی سوال پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو سے پوچھا گیا تو وہ اس کا جواب گول کر گئے تھے۔ اسی طرح یہی سوال جب زرداری سے پوچھا گیا تو انہوں نے اس کا ہاں یا ناں میں جواب دینے کی بجائے کہا کہ وقت آنے پر سب معلوم ہو جائے گا‘ حالانکہ انتخابی مہم کے دوران میں پیپلز پارٹی نے بھی اپنے امیدواروں پر ''خلائی مخلوق‘‘ کی طرف سے دبائو کی شکایت کی تھی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرح پیپلز پارٹی نے بھی انتخابی دھاندلیوں کی شکایت کی ہے۔ 8 اگست کو دونوں پارٹیوں نے مل کر الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے احتجاج‘ اور چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔ سابق صدر زرداری جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی مرکز اور پنجاب میں پی پی پی کی مدد کے بغیر حکومت تو بنا سکتی ہے‘ لیکن حکومت کے استحکام اور قانون سازی کیلئے اسے کسی دوسری بڑی سیاسی جماعت کی مدد درکار ہو گی اور پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی کی یہ ضرورت پوری کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی ایوانِ زیریں میں اپوزیشن کے ساتھ ہونے کے باوجود اپنے فیصلوں میں آزاد رہنا چاہتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے پی پی پی کی اس پالیسی کو جمہوریت کی خدمت اور پارٹی مینی فیسٹو میں درج پارٹی کے مقاصد کے حصول کی کوشش قرار دیا ہے۔ مگر مبصرین کی نگاہ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ محاذ آرائی‘ جو کہ ناگزیر نظر آتی ہے‘ میں پیپلز پارٹی ہر معاملے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ساتھ نہیں دے گی۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی کسی ایسے اقدام کی حمایت نہیں کرے گی جس کا فائدہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ہو۔ اس صورتحال سے پی ٹی آئی فائدہ اٹھا سکتی ہے اور پی پی پی کو ساتھ ملا کر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طرف سے قومی اسمبلی کے اندر اور باہر ''دھاندلی کے خلاف بھرپور‘‘ احتجاج کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ لیکن عمران خان سولو فلائٹ لینے کے عادی ہیں۔ جبکہ سیاست میں کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی سے کام لیا جاتا ہے‘ مگر پیپلز پارٹی کے ساتھ اگر پی ٹی آئی ہاتھ ملا بھی لے، تب بھی اسے پاکستان مسلم لیگ کی طرف سے ٹف چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ہر محاذ پر جنگ کرنے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ ان کے سامنے ایک پلیٹ فارم تو پارلیمنٹ کا ہے۔ دوسرے انہوں نے پارلیمنٹ سے باہر بھی احتجاجی جلسوں اور ریلیوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا۔ اس کے ساتھ ہی سابق وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں ایک قانونی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے‘ جو لاہور ہائی کورٹ میں دھاندلیوں کے خلاف مقدمات دائر کرے گی۔ اس کیلئے 38 حلقوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ یہ حلقے جنوبی اور وسطی پنجاب کے علاوہ سندھ اور لاہور میں واقع ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کے مطابق ان حلقوں میں دھاندلی کے ٹھوس شواہد موجود ہیں‘ جنہیں عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ اس کا صاف مطالبہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) قانونی اور سیاسی دونوں محاذوں پر پی ٹی آئی کے خلاف جنگ کا آغاز کرے گی اور عمران خان کی حکومت کے ساتھ ان کا وہی رویہ ہو گا جو پی ٹی آئی کے چیئرمین نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ گزشتہ برسوں میں روا رکھا تھا۔ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت کیلئے اس جنگ سے کہیں زیادہ سنگین خطرہ اس وقت پیدا ہو گا جس میاں محمد نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز ضمانت پر جیل سے باہر آئیں گے۔ بیشتر مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر سابق وزیر اعظم اور ان کی بیٹی جیل میں نہ ہوتے تو انتخابات کا نتیجہ مختلف ہوتا۔ اس لیے جب وہ جیل سے باہر آئیں گے تو سیاست میں تلاطم ضرور پیدا ہو گا۔ کم از کم مسلم لیگ (ن) میں نیا حوصلہ و جذبہ اور جوش پیدا ہو جائے گا۔ حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کی زیر صدارت پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی کا جو اجلاس ہوا تھا، اس میں لیگی کارکنوں کی طرف سے کی گئی تقریروں سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا رینک اینڈ فائل اب بھی نواز شریف کو پارٹی کا سب سے قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں۔ اور وہ اس گھڑی کے انتظار میں ہیں کہ کب نواز شریف جیل سے باہر آئیں اور پارٹی کے نیم مردہ جسم و جان میں ایک نئی روح پھونکیں۔ نئی حکومت بھی اس گھڑی کے بارے میں فکر مندی سے سوچ رہی ہو گی۔ قیاس یہی ہے کہ آنے والے پانچ برسوں میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اور محاذ آرائی کی کیفیت چھائی رہے گی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved