جناب اعتزازاحسن ایک بڑے وکیل ہیں اور ہماری سیاست میں کئی بار بڑا کردار بھی ادا کر چکے ہیں۔ان کے والد گرامی چودھری محمد احسن ایک بڑے زمیندار ہونے کے باوجود تحریک پاکستان میں سرگرم رہے اور گجرات کے بت کدے میں اذان دینے کا شرف حاصل کرنے والوں میں نمایاں ہوئے۔اعتزازاحسن کی دھوم برسوں پہلے یوں مچی کہ انہوں نے سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے باوجود ’’ملازم احسن‘‘ بننے سے انکار کردیا اور کوچۂ وکالت میں چلے آئے۔عدالتوں میں ’’مشقِ سخن‘‘ بھی جاری رکھی اور سیاست چونکہ خون میں تھی، اس لئے اس ’’مشقت‘‘ میں بھی مبتلا ہوگئے۔ سیاست انہوں نے روایتی زمینداروں کی طرح نہیں، ایک روشن ضمیر کارکن کی طرح کی۔ذوالفقار علی بھٹو سے رشتہ جوڑا، پنجاب کی صوبائی کابینہ تک پہنچے،لیکن جب 1977ء کی انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک چلی تو احتجاجاً مستعفی ہوگئے اور اپنی عزت میں اضافہ کرلیا۔اس کے بعد تحریک استقلال میں شامل ہوئے، ایک عرصہ پیپلزپارٹی سے دور رہنے کے بعد پھر بے نظیر بھٹو کے مصائب نے ان کا دل اپنی طرف کھینچ لیا۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کو جنرل پرویز مشرف نے نشانہ بنانے کی کوشش کی تو اعتزاز احسن سینہ تان کر کھڑے ہوگئے۔ چیف جسٹس کا مقدمہ انہوں نے عوام میں بھی لڑا اور سپریم کورٹ میں بھی۔دیکھنے والے عش عش کر اٹھے، ان کا قد لمبا ہو گیا… وکلاء نے 2008ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، پیپلزپارٹی کی طرف سے ان کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کا اعلان ہوا، مسلم لیگ(ن) ان کی حمایت پر کمربستہ تھی، یوں وہ دونوں بڑی جماعتوں کے ’’مشترکہ امیدوار‘‘ بن چکے تھے ، ان کی کامیابی سو فیصد یقینی تھی، لیکن انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا ڈسپلن نہیں توڑا۔اس کی قیمت ان کو زرداری دربار سے دوری کی صورت میں ادا کرنا پڑی،تاہم انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔عدلیہ بحالی تحریک میں وہ نوازشریف کے ہم سفر ہوئے اور اپنی منزل پالی۔ اس سب کے باوجود ان میں کچھ ایسا ضرور موجود ہے، جو ان کو مقامِ رفعت پر ٹکنے نہیں دیتا۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی وکالت کی انہوں نے ہامی بھرلی اور ایک سو روپیہ فیس لے کر جو کچھ عدالت میں اور عدالت کے باہر کہتے رہے، اس پر ان کے بہت سے مداح دانتوں میں انگلیاں لینے پر مجبور ہوگئے۔ان کی وکالت میں اور بھی کئی مقام ایسے آئے، جنہوں نے ان کی شہرت کو بلند نہیں کیا۔اب وہ خائن اور بددیانت امیدواروں کے وکیل بن کر ٹی وی سکرین پر چہکے ہیں تو ان سے اچھی توقعات رکھنے والوں کو مایوسی ہوئی ہے۔اگر وہ باقاعدہ فیس لے کر کسی کا مقدمہ لڑ رہے ہوتے تو ان سے اختلاف کے باوجود، ان کے حقِ وکالت کا انکار نہیں کیا جا سکتا تھا، لیکن اس وقت تو فی سبیل اللہ فساد پر تلے نظر آ رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ دستور کی دفعہ 62اور 63کے معیار پر تو قائداعظمؒ بھی پورے نہیں اترتے۔اگر آج کے انتخابات میں وہ امیدوار ہوتے تو ان کو بھی ’’ڈس کوالیفائی‘‘ کردیا جاتا۔ اعتزازصاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ 62اور63 کی روح دیانت اور امانت ہے۔ قائداعظم کی دیانت اور امانت پر آج تک ان کے دشمن بھی انگلی نہیں اٹھا سکے۔ان کی آمدنی کے ایک ایک پیسے کا حساب رکھا جاتا تھا، جو آج بھی تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہے۔اس میں ایک پیسہ بھی کسی مشکوک ذریعے سے داخل نہیں ہوا۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ جنوبی ایشیائی سیاست میں ان کے مقابلے کا صادق اور امین آج تک پیدا نہیں ہوا، تو اس میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں ہوگا۔جہاں تک ذاتی زندگی کا تعلق ہے تو ایسی متعدد شہادتیں موجود ہیں، جو واضح کرتی ہیں کہ ان کا اپنے رب سے گہرا تعلق تھا۔مولانا حسرت موہانی جو برصغیر کے شاید سب سے بڑے ’’انقلابی مسلمان‘‘ تھے، وہ اپنے بے باک اور دبنگ لہجے کی وجہ سے ممتاز ہی نہیں ممتاز تر تھے۔مسلم لیگ کے اجلاسوں میں قائداعظمؒ سے بھڑ جاتے تھے اور بعض اوقات ان کی رائے کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ان کی گواہی محفوظ ہے کہ ایک رات قائد کے ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے، رات کے آخری پہر میں رونے اور گڑگڑانے کی ہلکی ہلکی آواز قائد کے کمرے سے آنے لگی تو انہوں نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا، وہ سربسجود تھے اور گڑگڑا، گڑگڑا کر (مسلمان قوم کی آزادی کے لئے) دعائیں مانگ رہے تھے۔ قائد کو اسلامی شعائر کا اتنا خیال ہوتا تھا کہ 21رمضان کو گاندھی جی سے یہ کہہ کر ملنے سے انکار کردیا کہ یہ حضرت علیؓ کا یوم شہادت ہے۔ قائداعظم کی وفات پر شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا تھا کہ اورنگزیب عالمگیر کے بعد مورخ کی آنکھ نے (برصغیر پاک و ہند میں) اتنا بڑا مسلمان نہیں دیکھا۔ مولانا عثمانی جمعیت العلمائے اسلام کے بانی صدر، اور مفسر قرآن تھے۔تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنما تھے اور قائداعظمؒ کو قریب سے دیکھنے کا شرف رکھتے تھے۔ان کے مذکورہ فقرے کی معنویت پر غور کیا جائے تو اس کی گہرائی واضح ہوتی جاتی ہے۔ اعتزاز احسن اور ان کے ہم نوائوں سے اتنی گزارش ہے کہ وہ رائے جو بھی رکھیں،تاریخ سے نہ کھیلیں اور قائداعظمؒ کو بھی اپنی سیاست میں نہ گھسیٹیں۔ قائداعظمؒ ایک اور بس ایک تھے، ان سے پہلے اور ان کے بعد ، ان جیسا (اس خطے میں)نہ کوئی پیدا ہوا ہے، نہ ہوگا۔ اعتزاز صاحب ہوں یا کوئی اور صاحب، ان کو قائد سے کوئی نسبت ہو ہی نہیں سکتی: خاک کو آسماں سے کیا نسبت؟ غالب نکتہ داں سے کیا نسبت؟ (یہ کالم روزنامہ ’’دُنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved