معاملات کو درست کرنے کے بہت سے طے شدہ طریقے ہوتے ہیں۔ ان طریقوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے‘ معاملات درست کرنے کی کوششیں بالعموم کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہیں‘ مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی بھی طے شدہ‘ تسلیم شدہ طریقہ کام نہیں آتا اور معروف ڈگر سے ہٹ کر کچھ کرنا پڑتا ہے۔ کھیل کے میدان میں ایسا ہی تو ہوتا ہے۔ میچ جس ٹیم کے ہاتھ سے نکل رہا ہو ‘وہ کچھ نہ کچھ ایسا کرتی ہے‘ جو حیرت انگیز ہو۔ مخالف ٹیم پر اس کا فوری اثر مرتب بھی ہوسکتا ہے اور مطلوب نتائج بھی یقینی بنا سکتا ہے۔ کرکٹ کے مقابلوں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ اگر کوئی بیٹسمین جم کر کھیل رہا ہو اور ٹیم کے ریگیولر اور مستند باؤلرز سے کسی بھی سطح پر متاثر نہ ہو رہا ہو تو کسی ''بے قاعدہ‘‘ باؤلر کو آزمایا جاتا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ یہ حربہ نہ صرف یہ کہ کام کر جاتا ہے‘ مگر میچ کا پانسا بھی پلٹ دیتا ہے۔
بین الریاستی معاملات میں بھی اس نوعیت کی ''وائلڈ کارڈ انٹری‘‘ بہت کام آتی ہے۔ ہر وہ معاملہ کچھ نہ کچھ مطلوب نتائج دے جاتا ہے‘ جس میں استعجاب کا پہلو مضمر ہو۔ جب بھی کسی کو غیر متوقع صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تب معاملات ہاتھ سے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ بین الریاستی معاملات میں جب کسی بڑی قوت کو اپنے سے کہیں چھوٹے‘ یعنی کمزور ملک کے ہاتھوں کسی غیر متوقع صورتِ حال کا سامنا ہوتا ہے‘ تب اُس پر حیرت کا ایک پہاڑ سا ٹوٹتا ہے اور معاملات ڈانوا ڈول ہونے لگتے ہیں۔
امریکا اب بھی سپر پاور ہے‘ مگر صرف اتنا کہہ دینے سے حقیقت بیان نہیں ہو جاتی۔ امریکا کی طاقت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ یہ بھی دو دھاری تلوار والا معاملہ ہے۔ ایک طرف تو امریکا کی طاقت گھٹ رہی ہے اور دوسری طرف چین اور دیگر حریفوں کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جدید ترین علوم و فنون کے پھیلاوے سے ایک انقلاب برپا ہوچکا ہے۔ کل تک پچھواڑے میں پڑے ہوئے ممالک بھی اب سامنے آکر منہ دینے کی بات کر رہے ہیں اور اُن کے لہجے میں بھرپور اعتماد موجود ہے۔ یہ گویا قدرت کی طرف سے اِس امر کی طرف اشارا ہے کہ سیر کے لیے سوا سیر پیدا ہوچکے ہیں اور سیاست و معیشت میں چوہدری کا کردار ادا کرتے رہنا امریکا کے لیے زیادہ دیر ممکن ہوگا نہ مفید۔
چین کا راستہ روکنے کی کوشش میں امریکا بہت سے ایسے اقدامات کر رہا ہے‘ جو انتہائی معکوس نتائج پیدا کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ امریکی پالیسی میکرز جو کچھ بھی سوچتے اور تجویز کرتے ہیں وہ سب کا سب معقولیت کی حدود میں ہوتا ہے۔ کبھی کبھی وہ اندازے کی غلطی بھی کر جاتے ہیں یا پھر اپنے زعم میں بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ بالکل سامنے کی بات بھی دکھائی نہ دے تو عقل کا ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ امریکا اپنی کسی غلط پالیسی کو بھانپنے کے بعد غلطی تسلیم کرنے کے بجائے اُسے درست ثابت کرنے پر تُل جاتا ہے۔ تمام خرابیاں اُسی وقت شروع ہوتی ہیں‘ جب کسی بالکل غلط بات کو بالکل درست ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوڑی کا زور لگایا جائے۔
ترکی ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ اس ابھرتی ہوئی معیشت نے امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں سے مرعوب نہ ہونا طے کر رکھا ہے۔ ترکی کو دو عشروں کے درمیان پنپنے والی ایسی قیادت ملی ہے‘ جس نے معاملات کو اپنے حق میں کرنے کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ ترکوں نے عسکری قیادتوں کے جبر سے گلو خلاصی کے لیے بہت کچھ سہا ہے۔ اب پھل کھانے کا وقت ہے۔ ایسے میں امریکا ترکوں کو سبق سکھانے کی حسرت میں مرا جاتا ہے۔ منتخب حکومت کو ''راہِ راست‘‘ پر لانے کے لیے امریکا ایسے اقدامات کر رہا ہے‘ جن سے دوسروں کے ساتھ ساتھ خود اُس کے لیے بھی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔
امپورٹ ٹیرف کے معاملے میں امریکا اور ترکی کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے۔ ترک حکومت نے ایک امریکی پادری کو تحویل میں لے رکھا ہے‘ جس پر منتخب حکومت کے خلاف 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت میں اہم کردار ادا کرنے کا الزام ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ پادری کو چھوڑ دیا جائے۔ یہ انا کا مسئلہ بھی ہے اور امریکی بالا دستی ثابت کرنے کا سوال بھی۔ امریکی قیادت سے یہ بات ہضم نہیں ہو پارہی کہ اُس کا کوئی شہری کسی چھوٹے ملک میں قانون کی بالا دستی کا ''شکار‘‘ ہو۔ ترک قیادت چاہتی ہے کہ معاملہ متعلقہ قوانین اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق طے کیا جائے۔
ترکی سے فولاد اور ایلومینیم کی درآمدات پر ڈیوٹی بڑھاکر امریکا نے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ جو بھی اُس سے ٹکرائے گا‘ وہ پاش پاش ہو جائے گا۔ بادی النظر میں معاملہ تو یہی ہے۔ یہ الگ بات کہ ترکی نے بھی جوابِ آں غزل کے طور پر امریکا سے الیکٹرانکس کی درآمدات پر 25 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی قیادت کو اندازہ نہ تھا کہ ترکی جیسے کو تیسا کا اصول اپنائے گا۔ کہاں امریکا اور کہاں ترکی؟ ٹھیک ہے‘ مگر جھیلنے اور برداشت کرنے کی بھی ایک حد تو ہوتی ہی ہے۔ ترک قیادت نے معاملات کا گہری نظر سے جائزہ لے کر پوری کوشش کی ہے کہ امریکا کا دباؤ غیر ضروری حد تک برداشت نہ کیا جائے اور اس کوشش میں اس کا ساتھ دینے والوں کی بھی کمی نہیں۔ امریکی اقدامات کے نتیجے میں ترک کرنسی لیرا کی گرتی ہوئی قدر کو سہارا دینے کے لیے قطر نے آگے بڑھ کر 15 ارب ڈالر کی ہنگامی امداد کا اعلان کیا ہے۔ یہ گویا امریکا کے لیے پیغام ہے کہ وہ کسی بھی ملک کو دبوچنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرے اور معقولیت کی حدود میں رہنا سیکھے۔
کیا واقعی ترک اس پوزیشن میں ہے کہ امریکا کو منہ دے سکے؟ یقینا نہیں۔ تو کیا وہ دوسروں کے کاندھے پر رکھ کر بندوق چلانا چاہتا ہے؟ ایسا بھی نہیں ہے۔ دوسروں کا کاندھا استعمال کرنے کی ایک حد ہوتی ہے۔ ترک قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ کسی بڑے سے ٹکرانا ہے ‘تو اپنے ہی بل پر ٹکرانا ہے۔ ہاں‘ حلیفوں سے اشتراکِ عمل لازم ہے۔ یہ تو امریکا بھی کرتا ہے۔ وہ یورپ کو ساتھ ملائے بغیر آگے بڑھنے سے گریز کرتا ہے۔ ایشیائی قوتیں چاہتی ہیں کہ امریکا اب اِس خطے کے ساتھ افریقا میں بھی اپنے اثرات کا دائرہ محدود کرے۔ چین‘ روس اور ترکی اُس کے سامنے ڈٹ گئے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ عرب دنیا میں بھی چند ریاستیں چاہتی ہیں کہ امریکا حد میں رہنا سیکھے۔ یورپ کا تصادم سے گریز بھی حوصلہ افزاء حقیقت ہے۔ ایسے میں امریکا کو بھی کچھ نہ سیکھنا چاہیے۔ سعودیہ اب تک اغلاط کو دہرانے کی راہ پر گامزن ہے۔ امریکا کا بے جا ساتھ دے کر وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ خطے میں اپنی نام نہاد بالا دستی کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
اپنے پادری کو بچانے کے لیے امریکا نے جو تادیبی اقدامات کیے ہیں‘ اُن سے نبرد آزما ہونے کا آپشن اپناکر ترکی نے امریکا کے خلاف میچ میں ''وائلڈ کارڈ انٹری‘‘ تو دی ہی ہے‘ ایشیا و افریقا کی تمام ابھرتی ہوئی قوتوں کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو‘ جیسے کو تیسا کی راہ پر سفر کیا جائے تاکہ طاقتور کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی توفیق نصیب ہو! امریکی پالیسی میکرز کے لیے ترکی نے گریبان میں جھانکنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ گھٹتی ہوئی طاقت کے ساتھ صرف بڑھک ماری جاسکتی ہے‘ دوسروں کو انگوٹھے تلے دباکر نہیں رکھا جاسکتا۔