تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     18-08-2018

تبدیلیـ: حقیقت یا دل پسند سوچ

آج کل نئے پاکستان کا بڑا چرچا ہے۔ مگر یہ بنے گا کیسے؟ یہ وہ سوال ہے ، جو سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں۔ کچھ لوگ تجسس سے، کچھ فکر مندی سے، اور کچھ لوگ طنزیہ انداز میں یہ سوال اٹھا رہے ہیں۔ نیا ملک بنانے یا نظام نو کی تشکیل کے لیے اس کی ہر ایک اینٹ بدلنی پڑتی ہے۔ مگر اس کی بنیادی اینٹ نظام تعلیم ہوتا ہے، جس کو بدلے بغیر نئے سماج کی تعمیر خیالی پلائو یا دل پسند سوچ سے زیادہ کچھ نہیں۔
تعلیم میں ہم جب اصلاحات کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ماہرین عموماً جو تجاویز پیش کرتے ہیں وہ ذریعہ تعلیم، نصابِ تعلیم اور اساتذہ کرام کی تعلیم و تربیت کے ارد گرد گھومتی ہیں۔ ان چیزوں میں بہتری سے یقینا مروجہ نظام تعلیم میں کچھ بہتری ضرورآ سکتی ہے۔ لیکن اس سے ہمارے نظام تعلیم میں پائے جانے والے بنیادی نقائص دور نہیں ہو سکتے ہیں، اور نہ ہی معیارِ تعلیم میں کوئی قابل ذکر بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ماضی میں اس طرح کے اقدامات ہوتے رہے ہیں، جس سے مجموعی طور کوئی بڑا فرق نہیں پڑا۔ اس سلسلے میں ہمیں دنیا میں تعلیم کے معیار اور اس کے نتائج کے اعتبار سے عالمی رینکنگ دیکھنی ہو گی۔ اس رینکنگ سسٹم کے گہرے جائزے کے بعد ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ تعلیمی معیار کے اعتبار سے دنیا کے پہلے دس ملکوں میں کس ملک نے کم از کم وقت میں کم از کم وسائل صرف کر کے سب سے اچھے نتائج حاصل کیے۔ ہمیں اس بات کا بھی جائزہ لینا ہو گا کہ جو ملک اس رینکنگ میں پہلے دس نمبروں پر آتے ہیں، انہوں نے یہ معیار کیسے حاصل کیا۔ اس طرح کی جانچ پرکھ کے بعد ہم ایک ماڈل کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اور پھر اپنی ضروریات، بساط اور اوقات کے مطابق اس میں تبدیلی کر کے اس ماڈل کو اپنا سکتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی یاد رکھنا پڑے گا کہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ایک پسماندہ اور معاشی مشکلات کے شکار ملک میں پہلی دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک کے معیار کی تعلیم فراہم کرنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ ایسا صرف تخلیقی سوچ اور غیر متزلزل ارادے سے ہی ممکن ہے۔ فن لینڈ اور ناروے دنیا کے ان پہلے دس ممالک میں شامل ہیں، جن کا معیار تعلیم اوج کمال پر ہے، اور کچھ اس انداز سے کہ انتہائی منفی ذہن اور ہر چیز میں بلا وجہ کیڑے نکالنے کی عادت میں مبتلا لوگ بھی ان کے معیار تعلیم میںکوشش کے باوجود کسی نقص یا کمی کی نشان دہی نہیں کر سکتے۔ فن لینڈ اور ناروے کے دو الگ الگ تعلیمی ماڈل ہیں، مگر ان دو الگ الگ ماڈلز کے باوجود دونوں کے نتائج اور حاصلات تقریباً یکساں ہیں۔ ناروے کا ماڈل بڑی حد تک امریکی نظام تعلیم کے ساتھ مماثلت رکھتا ہے۔ یہ نظام کافی مہنگا ہے اور تیسری دنیا کے کسی غریب ملک کے لیے مناسب نہیں؛ البتہ فن لینڈ کا ماڈل سامنے رکھ کر ایک لمبے اور کٹھن سفر کی ابتدا کی جا سکتی ہے۔ یہ نظامِ تعلیم نتائج اور معیار کے اعتبار سے بہت بلند ہے، اور اخراجات کے حوالے سے امریکہ اور ناروے سے کہیں زیادہ سستا ہے۔ 
کوئی بھی ماڈل اپنانے سے پہلے ایک بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ فن لینڈ ہو یا ناروے، جاپان ہو یا امریکہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ہوش مند ممالک میں بچوں کو کم از کم ابتدائی تعلیم اپنی مادری زبان میں دی جاتی ہے۔ ان میں فن لینڈ جیسی چھوٹی زبانیں بھی ہیں جن کو بولنے والوں کی تعداد چند ملین سے زیادہ نہیں۔ مادری زبان کی اہمیت اور افادیت پر کئی ماہرینِ نفسیات اور ماہرینِ لسانیات بڑی تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کر چکے، اور اس موضوع پر ٹنوں کے حساب سے لٹریچر موجود ہے، مگر پاکستان میں اکثر دانشوروں کی سوچ میں بہت الجھائو ہے۔ قومی زبان، سرکاری زبان اور مادری زبان کے درمیان باہمی تعلق اور اس باب میں عوام کے حقوق اور ریاست کے فرائض کے بارے میں ہمارے خیالات واضح نہیں ہیں۔ اس موضوع پر مزید وقت ضائع کیے بغیر اتنا عرض کر دینا ضروری ہے کہ آپ بے شک اردو اور انگریزی کو قومی اور سرکاری زبانیں قرار دیں‘ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس کی پڑھائی لازمی قرار دیں، لیکن بچوں کو ان کی ابتدائی تعلیم ان کی مادری زبان میں دیے بغیر وہ نتائج کبھی نہیں حاصل کیے جا سکتے، جو ترقی یافتہ دنیا میں سامنے آرہے ہیں۔ ساری دنیا کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں۔ دنیا کی ہر کامیاب، مہذب اور ترقی یافتہ قوم اپنے بچوں کو مادری زبان میں ہی تعلیم دیتی ہے ، اس سلسلے میں کوئی ایک بھی قابل ذکر استثنا نہیں ہے۔ 
ہمارے نظام تعلیم میں دوسرا بڑا نقص یہ ہے کہ یہ فرسودہ امتحانی نظام پر کھڑا ہے۔ کتاب پر مبنی امتحانات ہوتے ہیں، اور طلبا کو کسی قسم کے مواد سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ ایک فرسودہ اور بہت حد تک ناکام نظام ہے، جس سے رٹا اور نقل کا رجحان فروغ پاتا ہے۔ 
فن لینڈ ایک ایسا ملک ہے، جس نے سب سے پہلے اس امتحانی نظام کو مسترد کیا ، جو بیشتر مغربی ممالک میں رائج تھا۔ ان کے حقیقی امتحانات چودہ پندرہ سال کی عمر میں جا کر شروع ہوتے ہیں۔ چھٹی جماعت تک ان کا کوئی ٹیسٹ یا امتحان سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ پہلا لازمی ٹیسٹ جو سب بچوں کو دینا پڑتا ہے، اس کے لیے ان کی عمر سولہ سال ہونا ضروری ہے۔ تیس فیصد طالب علم کلاس کے علاوہ ٹیوشن اور دوسری فالتو امداد حاصل کرتے ہیں۔ یہاں سائنس کی کلاسز میں طلبا کی تعداد سولہ سے زیادہ نہیں ہوتی تاکہ سب کو پریکٹیکل کے مساوی مواقع میسر ہوں۔ اس کے باوجود فن لینڈ میں ایک طالب علم پر اٹھنے والے اخراجات امریکہ کی نسبت تیس فیصد کم ہوتے ہیں۔ فن لینڈ میں دوسرے ممالک کی نسبت ہائی سکول ڈراپ آئوٹ بہت کم ہوتے ہیں۔ ہائی سکول پاس کرنے والے طلبہ کی شرح ترانوے فیصد سے زائد ہے۔ یہاں کے چھیاسٹھ فیصد طالب علم کالج جاتے ہیں‘ اور تقریباً تینتالیس فیصد طلبا پیشہ ورانہ سکولوں میں جاتے ہیں۔ 
فن لینڈ میں اساتذہ کی تعداد نیویارک کے برابر ہے ، مگر فن لینڈ میں ان اساتذہ کو صرف چھ لاکھ طلبا پڑھانے کو ملتے ہیں، جبکہ نیویارک میں ان اساتذہ کو گیارہ لاکھ طالب علم پڑھانے ہوتے ہیں۔ 
جس کو ہم نصاب کہتے ہیں، اور جس پر ہم سب سے زیادہ جھگڑتے ہیں، اس کا یہاں کوئی سرے سے وجود ہی نہیں، اس کی جگہ یہاں ایک وسیع اور ڈھیلی ڈھالی گائیڈ لائن ہے، جس کی روشنی میں اساتذہ خود نصاب کا انتخاب کرتے ہیں۔ 
ہمارے ہاں اساتذہ کے انتخاب میں میرٹ کی دھجیاں بکھیرنے کا چلن عام رہا ہے۔ ایک زمانے میں تو یہ عالم ہو گیا تھا کہ جو شخص اور کچھ نہیں کر سکتا تھا‘ استاد لگ جاتا تھا۔ بزرگ اکثر پوچھا کرتے کہ بیٹے کوئی کام ملا ہے یا ابھی تک ماسٹر ہی لگے ہوئے ہو۔ عموماً کلاس کے سب سے کمزور اور سست طالب علم اس نگری کا رخ کرتے تھے۔ فن لینڈ میں بہترین دماغ استاد لگتے ہیں۔ یہاں اساتذہ کا انتخاب پہلے دس نمبر پر آنے والے بہترین طلبا میں سے سو فیصد میرٹ پر کیا جاتا ہے۔ ہر استاد کے پاس ماسٹرز کی ڈگری ضروری ہے۔ استاد کی اوسط شروعاتی تنخواہ تقریباً تیس ہزار ڈالر ہے، مگر تجربہ کار اساتذہ کی تنخواہیں دوسرے کالج گریڈ کی نسبت کئی گنا زیادہ ہیں۔ اساتذہ کو سماج میں ڈاکٹرز، پروفیسرز اور وکلاء کے برابر مقام دیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر مقابلے کی ٹیسٹ میں سائنس، پڑھائی اور حساب میں فن لینڈ کے بچے ہر سال پہلے یا پہلی چند میں سے کسی ایک پوزیشن پر آتے ہیں۔ 
حاصلِ کلام یہ ہے کہ تبدیلی کی کنجی تعلیم ہے۔ نظامِ تعلیم، نصابِ تعلیم اور ذریعۂ تعلیم میں بنیادی تبدیلی اس سمت میں پیش قدمی کی پہلی شرط ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ سماج کے بہترین دماغ بطور اساتذہ بھرتی کیے جائیں۔ ایک پرائمر ی سکول کے استاد اور کالج کے لیکچرار کا مقام و تکریم مساوی ہو تو اس میدان میں حیرت انگیز تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ نا قابل یقین نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved