تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     03-04-2013

جمہوریت؟

جمہوریت آرہی ہے مگر اندیشہ یہ ہے کہ سوئے مقتل روانہ ہونے کے لیے۔ جمہوریت اچھی، سب سے اچھی ۔ ظاہر ہے کہ اس کا کوئی متبادل نہیں مگر معاشروں کو اپنی بقا کے لیے کچھ اخلاقی اصول درکار ہوتے ہیں ۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ وہ اصول کہاں ہیں اور ان کے پاسدار کہاں ؟ آسودگیئِ سوختہ جاناں ہے قہر میرؔ دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ زندگی یہی ہے ، امید اور اندیشوں کے درمیان۔ ناکامی کا خوف کبھی اس طرح گھیر لیتاہے کہ دور دور تک تاریکی کے سو اکچھ دکھائی نہیں دیتا۔ کبھی امیدکی مشعلیں فروزاں اور اس طرح کہ چہار طرف چراغاں سا ہو جاتاہے ۔ ظفرمندی کا علَم لہراتا ہے اور یہ تصوّر بھی عجیب لگتاہے کہ دیارِ د ل میں کبھی یاس نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔ اللہ کی رحمتوں کا شکر ادا نہیں ہو سکتا ۔آدمی اگر غور کرے تو نعمتیں زیادہ اور آزمائشیں کم ہیں ۔ ہم خود بھٹکتے ہیں، آموختہ بھُلا دیتے ہیں۔ سوچے سمجھے ، جانے پہچانے قرینوں کو خیر باد کہہ دیتے ہیں ، حماقتوں کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں جب آزمائش اُترتی ہے تو گلہ مند ہوتے ہیں ۔ زندگی یہی ہے ، یہی زندگی ہے ۔ پچھلے ہفتے ، جب کپتان سخت ذہنی اذیت سے دوچار تھا، میں نے اس سے یہ کہا: تکلیف اگر بُری چیز ہوتی تو رحمتہ اللعالمینؐ تک کبھی نہ پہنچتی ، جو اللہ کو سب سے زیادہ عزیز تھے۔ اس نادرِ روزگار ادیب پائیلو کوئلو نے کیا اچھی بات کہی تھی ، بار بارجو دہرانی چاہیے: زندگی میں غلطی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ، بس سبق ہوتے ہیں ۔ اگر ہم سیکھنے سے انکار کر دیں تو بار بار وہ انہیں ہمارے لیے دہراتی ہے ۔ سب سے زیادہ ہوش مند وہ ہے ، جو دوسروں سے سبق سیکھے ۔ عربوں کا محاورہ یہ ہے : السّعیدمن وعظ بغیرہ۔ سعید وہ ہے ، جو دوسروں کے تجربات سے استفادہ کرے ۔ اس درجے کی سعادت تو شاذ و نادر ہوتی ہے۔ کم از کم یہ تو ہونا ہی چاہیے کہ آدمی خود پر بیتنے والے واقعات سے سبق حاصل کرے ۔ ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ قوموں کے مزاج ہوتے ہیں ، جو صدیوںمیں تشکیل پاتے ہیں اور آسانی سے بدلتے نہیں۔ مسلم برّصغیر ، خاص طور پر اس خطّہ ارض میں، جو 65برس سے پاکستان ہے ، ہم ایک خاص اندازِ فکر کے لوگ ہیں ۔ زندگی کی باگ اپنے ہاتھ میں ہم نے کبھی پکڑی ہی نہیں ۔ ہمیشہ ہم کسی نجات دہندہ کے انتظار میں رہتے ہیں ۔ خدا نے زندگی کو اس طرح نہیں بنایا کہ کوئی ایک شخص قوموں کی نجات یا عذاب کا باعث بن جائے ؛اگرچہ بعض اوقات بظاہرایسا نظر آتاہے مگرہوتا نہیں۔ بے شمار پیچیدہ، تاریخی، سماجی اور معاشی عوامل ہوتے ہیں جو ہمارا حال تعمیر کرتے اور مستقبل کے امکانات کی صورت گری کرتے ہیں ۔ یہ سطور لکھ چکا تو سیڑھیاں اترا کہ ٹائپ کرنے کے لیے بلال الرشید کے حوالے کر وں ۔ میں نے اپنی پوتیوں کو دیکھا۔ایک کھلونوں سے کھیلتی ہے ۔دوسری اپنی چھوٹی سی کرسی اٹھائے ایک کمرے سے دوسرے کو روانہ ۔ ایسی فراغت اور شادمانی صرف بچوں کو نصیب ہوسکتی ہے ، کسی عاقل و بالغ کو نہیں ۔ انسان اس لیے پیدا کیے گئے کہ آزمائے جائیں ۔ انہیںشعور اور ارادہ بخشا گیا ، مہلت دی گئی کہ غور و فکر سے کام لیں اور فیصلے صادر کریں ۔ علّت و معلول کے رشتے میں حیات بندھی ہے ۔ ہر عمل کا ایک نتیجہ ہے اور ایک ردّعمل ۔ جو بویا ہے ، وہ کاٹنا پڑتاہے ، جو کرڈالا ہے ،وہ بھگتنا ہوتا ہے۔ آدمی کے لیے اس خاکداں میں وہی کچھ ہے ، جس کی اس نے کوشش کی۔ معجزوں کے زمانے گزر گئے اور سچ پوچھئے تو معجزوں کے زمانے کبھی نہ تھے ۔ دنیا کے بہترین لوگ بھی ابتلا سے گزرتے ہیں اور گزر کر ہی سرخرو ہوتے ہیں ۔ اپنے ملک اور معاشرے کو ہم نے برباد کر لیا ہے کہ لیڈروں پر ہم انحصار کرتے ہیں ۔ وہ لیڈر ، جن کا درحقیقت ہم انتخاب نہیں کرتے ۔ دو امیدوار ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ دو نوں گئے گزرے اور ان میں سے ایک کا انتخاب ہمیں کرنا ہوتاہے ۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان تو یہ ہے کہ جو شخص کسی منصب کا امیدوار ہو ، وہ اس کے لیے نا اہل (مفہوم)۔ ہم نے مگر اس پر غور کرنے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ مغرب نے جزوی طور پر اس اصول کو اپنایا کہ خود سے کوئی امیدوار نہیں ہو سکتا ۔ پارٹی کے سامنے وہ خود کو پیش کرے گا اور فیصلہ وہ کرے گی ۔ کسی اور نے نہیں ، جدید برطانوی تاریخ کے دو ممتاز لیڈروں مارگریٹ تھیچر اور ٹونی بلئیر کو خود ان کی پارٹیوں نے مسترد کر ڈالا۔ جائو، اب تم ہمارے کسی کام کے نہیں ۔ من مانی کرتے ہو ، جماعت کی ترجیحات اور عوامی مفاد کا خیال تمہیں نہیں ۔ بالکل برعکس ، ہم بادشاہ پالتے ہیں ۔ اسی پر اکتفا نہیں ، ان کی اولادوں کو تخت پر بٹھاتے ہیں ۔ مان لیا کہ ذوالفقار علی بھٹو بڑے لیڈر تھے مگر ان کی بیگم اور صاحبزاد ی کا استحقاق کیا تھاکہ خاندانی جائیداد کی طرح ، پارٹی ان کے سپرد کر دی گئی ۔ سامنے کاسوال ہے مگر بڑے بڑے دانشور اس پر غو رکرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ۔ عبدالغفار خان سے کسی کو کتنا ہی اختلاف ہو مگر اپنے بل پر وہ لیڈر بنے تھے ۔ اب ان کا پوتا مگرکس حساب میں ؟ مولانا مفتی محمود بجا مگر مولانا فضل الرحمٰن کو اہلِ دیو بند نے کس لیے مرحوم کا تاج و تخت سونپ دیا؟ بے بسی کے ساتھ اہلِ دانش یہ کہتے ہیں : کیا کیجئے ، قوم کا مزاج یہی ہے ۔ ارے بھائی ، قوم کا مزاج بدلنا ہی تو آپ کی ذمّہ داری ہے۔ طالبِ علم اگر نالائق ہو تو کیا استاد یہ کہہ کر صبر کرلے گا کہ تعلیم کی توفیق اسے نہیں۔ دریائوں پہ بند باندھے جاتے ہیں تو نہریں نکلتی ہیں اور بلندیوں پر گرنے والی برف میدانوں میں پھول کھلاتی ہے ۔ جدوجہد ہی تو زندگی ہے ، تعلیم ، تدریس اور تربیت ۔ خود اپنی اور پھر دوسروں کی ۔ برنارڈ شا نے کہاتھا: دنیا کو بدلنے کے لیے اذہان میں انقلاب لازم ہے اورسب سے پہلے خود اپنے اندازِ فکر میں ۔ جمہوریت، جی ہاں جمہوریت ہی‘ مگر یہ کیسی جمہوریت ہے کہ پانچ سال تک پیپلز پارٹی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر لاکھوں ووٹروں کوسرکاری خزانے سے رشوت دیتی رہی ۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ نون لیگ طالبِ علموں میں لیپ ٹاپ بانٹتی رہی ، پھر شمسی توانائی کے آلات۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ترقیاتی منصوبوں ، سڑکوں ،عمارتوں اور پلوں کی تعمیر میں ہر سال کم از کم 200ارب روپے ہڑپ کر لیے جاتے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ان 37لاکھ لوگوں میں سے ، جو ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، صرف 7لاکھ دیتے ہیں ۔ دانشور فکرمند ہے کہ سیکولر ، ترقی پسند اور روشن خیال پیپلز پارٹی کو طالبان سے خطرہ ہے ۔ وہ جلسے منعقد نہیںکر سکتی ۔ اس فکر مندی میں ہم ان کے ساتھ ہیں ۔ بڑا ظلم ہے ، واقعی بڑا ظلم مگر اس کی رتّی برابر فکر بھی انہیں ہرگز نہیں کہ ان روشن خیالوں ، ان ترقی پسندوں نے ملک کو چراگاہ بنا دیا۔ مالی سال 2013ء کے اوّلین آٹھ مہینوں میں ٹیکس ہدف سے 400ارب روپے کم وصول ہوسکا۔ اس لیے کہ موزوں لوگ مقرر نہ کیے گئے ۔ اس لیے کہ ہر سطح پر سفارش کارفرما رہی ۔ فیصلہ کرنے والے بے حس اور سفاک تھے ۔ ملک برباد ہوتا ہے تو ہوتا رہے ، میری پسند کا لیڈر اور میری پسند کی جماعت آجائے۔ میرے تعصبات کی آبیاری ہو ۔ میں اپنی انا کو گنّے کا رس پلا سکوں۔ جمہوریت آرہی ہے مگر اندیشہ یہ ہے کہ سوئے مقتل روانہ ہونے کے لیے ۔ جمہوریت اچھی ، سب سے اچھی ۔ ظاہر ہے کہ اس کا کوئی متبادل ہی نہیں مگر معاشروں کو اپنی بقا کے لیے کچھ اخلاقی اصول درکار ہوتے ہیں ۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ وہ اصول کہاں ہیں اور ان کے پاسدار کہاں ؟ آسودگیئِ سوختہ جاناں ہے قہر میرؔ دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved