تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     18-08-2018

انتخابات‘ دولت مشترکہ رپورٹ اور اے پی سی

Pakistani General Elections marks Important Milestone despite hurdles یہ ہے تجزیہ دولت مشترکہ کے پاکستان کا انتخابات کے وقت دورہ کرنے والے وفد کا۔ دولت مشترکہ کی سیکرٹری جنرل پیٹریشیا سکاٹ لینڈ کی تجویز کردہ عالمی امور کے ماہرین پر مشتمل دولتِ مشترکہ کے مبصرین کی ایک غیر جانبدار کمیٹی کا وفد‘ جس کے چیئرمین نائجیریا کے سابق صدر جنرل عبدالسلام ابو بکر تھے‘ 18 جولائی کو پاکستان پہنچا تاکہ پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کی شفافیت کو انتہائی قریب سے مانیٹر کیا جا سکے۔ گروپ چیئرمین کے مطابق یہ انتخابات پاکستان کے آئین، الیکشن ایکٹ اور الیکشن رولز 2017ء کی روشنی میں منعقد کرائے گئے۔ دولت مشترکہ سے پہلے یورپی یونین کی 68 رکنی ٹیم نے بھی پاکستان کے حالیہ عام انتخابات کو مثبت اور 'رائے عامہ کی آزادی کیلئے کسی رکاوٹ اور جبر کے بغیر انتخابات‘ کا نام دیتے ہوئے ان پر اپنے بھرپور اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ اور اب دولت مشترکہ کے مبصر گروپ نے بھی اپنی عبوری رپورٹ میں لکھا ہے کہ ان انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کو عوام تک رسائی کا ایک جیسا موقع اور حق دیا گیا۔ انتخابات کے فوری بعد دولت مشترکہ کے مبصرین کے گروپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان کے چاروں حصوں میں سینکڑوں پولنگ سٹیشنوں پر انتخابی طریقہ کار کو انتہائی باریک بینی سے مانیٹر کیا۔ دولت مشترکہ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ان انتخابات پر جو عبوری رپورٹ جاری کی گئی ہے اس کے ایک ایک نکتے کو اگر تفصیل سے دیکھنے کے بعد اس کا تجزیہ کیا جائے تو۔۔۔۔۔ جو کچھ ولی خان گروپ اور مولانا فضل الرحمان سمیت نواز لیگ اور پی پی پی والے ان انتخابات کے بارے فرما رہے ہیں اسے ایک شکست خوردہ اور ہارے ہوئے جواری کے واویلے کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ اپنی بھرپور تیاری اور لائو لشکر کے ساتھ اسلام آباد میں چیف الیکشن کمشن کے سامنے ان سیاسی جماعتوں نے جو زبان استعمال کی اور جس قسم کے الزامات لگائے اس پر صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ ''کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘۔ کیونکہ جس کسی نے بھی اس احتجاجی ریلی کو دیکھا‘ وہ اس لئے قہقہے لگانے پر مجبور ہو گیا کہ گوجر خان سے قومی اسمبلی کا انتخاب جیتنے والے پی پی پی کے راجہ پرویز اشرف اور ان سے اس نشست پر شکست کھانے والے نون لیگ کے راجہ جاوید اخلاص ایک ساتھ کھڑے انتخابات میں دھاندلی کے پُر زور نعرے لگا رہے تھے۔ ریلی میں موجود میڈیا کے بہت سے دوستوں کا کہنا تھا کہ ان انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہاتھوں میں ہاتھ دیئے جب مجمع میں سب کے ساتھ مل کر یہ بھی زور زور سے نعرے لگا رہے تھے تو ان کے چہروں پر وہ خجالت صاف دیکھی جا رہی تھی جو اس وقت ان کے سوئے ہوئے ضمیر کو کچوکے لگا رہی تھی۔
کامن ویلتھ آبزرور گروپ کی 27 جولائی کو جاری کردہ رپورٹ میں ملٹری، پاکستان کی سکیورٹی فورسز، رائے دہندگان، سیا سی جماعتوں، الیکشن کمیشن اور پولنگ سٹاف کی ہمت و جرأت کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تسلیم کیا گیا ہے کہ ان حالات میں جب دہشت گرد سیا سی جماعتوں‘ ان کے امیدواروں اور ووٹرز کو خود کش حملوں سے نشانہ بنا رہے تھے‘ جب الیکشن کمپین میں امیدواروں کو دہشت گردی سے ہلاک کیا جا رہا تھا‘ جب انتخابات میں حصہ لینے والوں کو کسی بھی عوامی شاہراہ پر چلتے ہوئے بم دھماکوں کا نشانہ بنایا جا رہا تھا‘ جہاں ہر لمحہ یہ خدشات ہر ایک کے سر پر سوار تھے کہ ان کے پولنگ کیمپ کو‘ ان کے پولنگ سٹیشن کو دہشت گردی سے تباہ کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔ تو ایسے میں ہر ایک پولنگ سٹیشن پر دیکھے جانے والے ووٹرز کی طویل قطاریں دہشت گردوں کے تمام منصوبوں کو زمین بوس کرتی نظر آتی رہیں اور یہ منا ظر کسی زندہ قوم کی نشانی سمجھے جاتے ہیں جس کا جمہوریت پر پختہ یقین ہوتا ہے اور اس جرأت و بہادری پر یہ پوری دنیا کی جانب سے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے سب کچھ برداشت کرتے ہوئے اپنے جمہوری حقوق استعمال کئے اور اس کیلئے ان کی ملٹری قیادت تمام تر خطرات کو جانتے ہوئے بھی ان کی حفاظت کیلئے سینہ سپر رہی۔
دولت مشترکہ کے مبصرین کا گروپ اپنی رپورٹ میں تسلیم کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ آزاد حیثیت سے ان انتخابات میں حصہ لینے امیدواروں کو بھی وہی مراعات اور مواقع فراہم کئے گئے‘ جو کسی سیا سی جماعت کے انتخابی امیدوار کو حاصل تھے‘ اور یہ لوگ بھی جن کی تعداد قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پچاس سے زائد ہے‘ دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی اپنی انتخابی مہم میں مصروف رہے۔
دولت مشترکہ کے اس مبصر گروپ کی عبوری رپورٹ میں اس بات کا خصوصی طور پر اعتراف کیا گیا ہے کہ اس مرتبہ ٹرن آئوٹ گزشتہ ہونے والے انتخابات سے بہت بہتر تھا اور الیکشن ڈے پر ووٹرز کی طویل قطاروں کے معاملات پر متحارب سیاسی جماعتوں اور گروپوں کے درمیان ہمیشہ سے جو کھینچا تانی اور ایک دوسرے سے ہاتھا پائی کے مناظر دیکھنے کو ملتے تھے اس دفعہ ان کا کہیں بھی وجود نہیں تھا۔ بلکہ مبصرین نے اپنی رپورٹ میں خواتین کی ان انتخابات میں پہلے سے بھی زیادہ دلچسپی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ دولت مشترکہ کے مبصر گروپ کے مطابق بہت سے مقامات پر تو ایسا لگتا تھا کہ خواتین ووٹرز میں مرد ووٹرز سے زیادہ جوش و جذبہ ہے جو کسی بھی ریاست کیلئے باعث اطمینان کہا جا سکتا ہے کہ اس کی خواتین ملکی معاملات میں اس قدر گہری دلچسپی لیتی ہیں۔
دولت مشترکہ کے مبصرین نے اپنی عبوری رپورٹ میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے سرکردہ لوگوں سے جب انتخابی عمل پر بات ہوئی تو ان کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ ''فوج کو پولنگ سٹیشن کے اندر اور باہر نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان کی جگہ پولیس تعینات کی جائے تو وہ بہتر تھا‘‘ اعتراض کرنے والوں میں پنجاب سے مسلم لیگ نواز اور سندھ سے پیپلز پارٹی کے لوگ شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی سمیت سندھ میں فوج کو پولنگ سٹیشن سے اگر دور رکھا جاتا تو بہت بہتر تھا لیکن وہ یہ نہ بتا سکے کہ فوج کے یہ لوگ جو پولنگ سٹیشن کے اندر اور باہر تعینات ہیں ان سے آپ کو کس قسم کی شکایات ہیں؟ مبصرین کا کہنا ہے کہ نواز لیگ چاہتی تھی کہ پورے ملک میں فوج تعینات ہو جائے لیکن پنجاب میں نہ ہو اسی طرح پی پی پی کو شکایات تھی کہ سندھ میں فوج کی تعیناتی غیر ضروری ہے۔ مبصرین نے جب اس ایشو پر پولنگ سٹیشن پر موجود ووٹرز سے پوچھا تو وہ فوج کی تعیناتی پر بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ ۔ کامن ویلتھ کی رپورٹ کے مطابق فوج کی تعیناتی سے امن و امان کے جو نتائج سامنے آئے ہیں اس پر خواتین ووٹرز نے خو شی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو پہلے سے زیادہ محفوظ سمجھ رہی ہیں۔ خواتین کے ساتھ آئے ہوئے مرد حضرات کا کہنا تھا کہ فوج کی موجودگی سے انہیں حوصلہ ملا ہے کہ ان کی خواتین پولنگ سٹیشن کے اندر اور باہر محفوظ ہیں‘ کیونکہ اس سے پہلے کسی ایک سیاسی جماعت کی جانب سے جان بوجھ کر قطاروں میں کھڑی ہوئی خواتین یا ان کے پولنگ سٹیشن کے اندر گھس کر بلوہ کرا دیا جاتا جس سے شریف عورتیں خوف زدہ ہو کر گھروں کو واپس چلی جاتی تھیں۔ چیئرمین دولت مشترکہ مبصر گروپ نائجیریا کے سابق صدر جنرل ابوبکر نے اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ کے آخر میں لکھا ہے:
On behalf of the Group, I wish the people of Pakistan well as they prepare to exercise their democratic right to vote.

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved