تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     18-08-2018

اپنا پرانا موقف تو یاد رکھیے!

گزشتہ کالم کا موضوع تھا '' لکھنے والا کیا لکھے ‘‘۔ ایک بہت اہم نکتہ یہ تھا کہ اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات اور تعصبات کی خاطر کچھ لکھنے والے کس طرح اپنے مؤقف سے منحرف ہو جاتے ہیں ۔ ایک صاحب نے کچھ عرصہ پہلے 100 الفاظ پر مشتمل ایک مختصر لیکن ذومعنی کہانی لکھی تھی جو‘دراصل یہ مغرب کے مقابل خود کو لبرل ثابت کرنے کی ایک کوشش اور شدید احساسِ کمتری کا اظہار تھا۔ بندہ اپنے مؤقفسے کیسے منحرف ہوتا ہے ؟ یہ نئی کہانی میں سنیے۔ لکھتے ہیں: صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فرمایا کہ میں کوئی نشہ استعمال نہیں کرتا ۔ اس لیے کہ شراب پینے والے نہ گاڑی چلا سکتے ہیں اور نہ ملک ۔ وہ غیر ذمے دار لوگ ہوتے ہیں ۔ مقصد عمران خان پہ چوٹ کرنا ہے ۔
ذرا سی بھی عقل رکھنے والا کوئی شخص مصنف کی ذہنی حالت پر افسوس ہی کر سکتا ہے ۔ اس لیے کہ غیر ذمہ دار شخص وہ ہوتا ہے ‘ جو نشے کا عادی ہو جائے ۔ جو کبھی کسی جلسے‘ کسی میٹنگ‘ کسی ٹی وی چینل پر نشے میں دھت نظر آئے۔ اس سے بولا نہ جا رہا ہو‘ چلا نہ جا رہا ہو ۔ ہاں البتہ بندہ اپنے بیڈ روم کے اندر گھس کر کیا کرتا ہے ‘ یہ مغرب میں بھی کبھی کوئی کسی سے نہیں پوچھتا۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ جس ڈونلڈ ٹرمپ کو وہ ذمہ دار شخص ثابت کر رہے ہیں ‘ وہ اپنی انتہا پسندی کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ امریکہ سمیت دنیا بھر کے لیڈروں نے اس پر لعن طعن کی ہے ۔ جبکہ مسلمان ممالک کے باشندوں پر داخلہ بند کرنا اور میکسیکو والوں کو برا بھلا کہنے سمیت ایسے کئی متنازعہ اقدامات اٹھا چکا ہے‘ جن کا خمیازہ امریکہ کو بھگتنا پڑے گا۔ جبکہ ٹرمپ نے اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کر کے جلتے ہوئے مشرقِ وسطیٰ پر تیل بھی چھڑک دیا ہے ۔ صدارتی انتخابی مہم کے دوران ایک دفعہ جب ہیلری کلنٹن باتھ روم گئیں تو ان کے بارے میں ایسے نازیبا الفاظ کہے جو نقل نہیں کیے جا سکتے ۔ ٹرمپ نے اس کے علاوہ بھی کئی مواقع پر خواتین کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے ۔ حیرتوں کی حیرت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سفید فام ہونے کی وجہ سے ان کالے انگریزوں کے لیے ایک ذمہ دار شخص ہے ‘ حالانکہ پوری دنیا چیخ چیخ کر انتہا پسند کہہ رہی ہے ۔کہانی نگار ایک طرف خود کو معتدل جبکہ دوسری طرف عمران خان کو غیر ذمہ دار ثابت کر رہے ہیں ‘ تیسری طرف وہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے انتہا پسند اور مسخرے کو ذمہ دار لیڈر ثابت کر رہے ہیں۔
اس قسم کے احساسِ کمتری کا علاج بھی علم حاصل کرنا ہے ۔ جیسے جیسے آپ کے علم میں اضافہ ہو گا‘ اسی طرح احساسِ کمتری آپ کے اندر سے نکلتا چلا جائے گا۔ چھوٹا قد‘ گوری چمڑی والوں کے سامنے اپنا کالا رنگ‘ انگریزی نہ بول سکنا وغیرہ ‘ یہ سب چیزیں خود بخود تحلیل ہونے لگتی ہیں ۔
ایک زندہ قوم بھوک افلاس میں گزارا کر لیتی ہے لیکن وہ اپنی توہین برداشت نہیں کرتی ۔ جانوروں کو آپ ڈنڈے مار کر کھانا دیں ‘ وہ خوشی سے کھا لیں گے لیکن کسی انسان کو سونے کا نوالہ کھلا کر بھی اس کی توہین کریں ‘ پھر دیکھیں کہ کیسے وہ ساری زندگی آپ کے خلاف نفرت اپنے دل میں لیے پھرتا ہے ۔ 
جنرل پرویز مشرف کا دور زرداری اور شریف عہد سے سو گنا بہتر تھا۔ ایک موقع پر معاشی ترقی کی شرح آٹھ فیصد سے بھی تجاوز کر گئی تھی ۔ قرضے چھ ہزار ارب روپے کی سطح پر روک دیے گئے تھے ۔ ڈالر ساٹھ روپے کا تھا۔ پرویز الٰہی کی قیادت میں ملک بھر میں اتنا ترقیاتی کام ہوا تھا ‘ جتنا تاریخ میں شاید کبھی نہیں ہوا۔ پھر کس وجہ سے جنرل مشرف کو اٹھا کر پھینک دیا گیا ۔ اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ ان پر امریکہ کے سامنے لیٹ جانے کا الزام تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ ڈمہ ڈولا میں ایک مدرسے پر غلطی سے امریکہ نے ڈرون داغ کر درجنوں بچوں کو شہید کر دیا تھا۔ مشرف صاحب کی حکومت نے فرمایا کہ یہ دہشت گرد تھے اور انہیں امریکہ نہیں ‘ پاکستانی فورسز نے مارا ہے ۔ یہ پسپائی کی آخری حد تھی ‘ جس کے بعد قوم نے نہ معاشی ترقی دیکھی ‘ نہ ترقیاتی کام دیکھا‘ نہ رکے ہوئے قرضے دیکھے۔ 
نواز شریف کے دور میں معاشی کارکردگی سی پیک کے باوجود ناقابلِ ذکر رہی۔ ڈالر 100 روپے سے کہیں اوپر چلا گیا۔ قرضے 26 ہزار ارب روپے پہ پہنچ گئے ۔ اقتصادی ترقی کی شرح چھ فیصد بھی نہ ہو سکی ۔ اس کے علاوہ جب کبھی وہ اوبامہ صاحب سے ملتے ‘ بلکہ اوبامہ کیا‘ کسی امریکی سینیٹر سے بھی ملتے تو امریکی حکام ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بات کرتے ۔ نواز شریف صاحب یوں نیچے زمین کی طرف دیکھ رہے ہوتے ‘ جیسے کوئی طالبِ علم اپنے پرنسپل کے فرمودات سن رہا ہو ۔
رجب طیب اردوان کی طرف سے اپنے لیے گیارہ سو کمروں کا محل تعمیر کرنے کے باوجود ترکی کے عوام کیوں ان سے محبت کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ اردوان کبھی غیر ملکیوں سے دبے نہیں ۔ ایک تقریب میں انہوں نے ایسے لہجے میں اسرائیلی وزیراعظم کی طبیعت صاف کی‘ جس لہجے میں امریکی صدر بھی اس سے بات نہیں کر سکتا۔ غزہ کے لیے جانے والے ایک امدادی بحری جہاز پر اسرائیل نے حملہ کیا تو اس پر ایسی کشیدگی پیدا ہوئی کہ اسرائیل جیسے ملک کو معافی مانگنا پڑی۔ 
2015ء میں شام جانے والے روسی طیارے جان بوجھ کر ترکی کے اندر سے گزر نے لگے تھے ۔ یہ ایک دوسرے کی nerves چیک کرنے کی جنگ تھی ۔ ماضی میں کتنی ہی دفعہ نیٹو اور روس کے طیاروں کا آمنا سامنا ہوا۔ کبھی کسی کو دوسرے پر فائر کرنے کی ہمت نہیں ہو سکی ۔ ترکی نے کئی بار روس کو انتباہ کیا۔ آخر جب وہ باز نہ آیا تو ایک دن ایک روسی جنگی جہاز تباہ کر ڈالا۔مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ اس دن پوری دنیا سناٹے میں تھی ۔ میں نے کالم لکھا کہ تیسری جنگِ عظیم شروع ہو سکتی ہے ۔ اس دن پروفیسر رفیق اختر سے ملاقات ہوئی تو استاد نے بتایا کہ روس کبھی بھی ترکی سے جنگ نہیں لڑے گا ۔ ان پر تو ترکی والوں کی ہیبت بیٹھی ہوئی ہے۔ 
نواز شریف سے لے کر زرداری تک ہمارے تمام سیاسی رہنما غیر ملکیوں کے سامنے یتیم نظر آتے ہیں ۔ بار بار وہ اپنی ٹائی درست کر رہے ہوتے ہیں ‘لیکن عمران خان ان غیر ملکیوں کے سامنے شلوار قمیض اور پشاوری چپل پہن کر ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھتا ہے ۔ الٹا یہ غیر ملکی عمران خان سے مرعوب نظر آتے ہیں ۔ عمران خان کوئی نجات دہندہ ہرگز نہیں لیکن دستیاب لیڈروں میں وہی بہتر ہے۔ 
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارے یہ کالے انگریز صاحب آج کل امریکہ میں ہیں اور وہیں سیٹل ہونا چاہتے ہیں۔ بہرحال بد ترین لکھنے والے وہ ہیں ‘ جو حریف پر طنز کرنے کے لیے اپنے پرانے موقف سے منحرف بھی ہو ہا جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

ایک زندہ قوم بھوک افلاس میں گزارا کر لیتی ہے لیکن وہ اپنی توہین برداشت نہیں کرتی ۔ جانوروں کو آپ ڈنڈے مار کر کھانا دیں ‘ وہ خوشی سے کھا لیں گے لیکن کسی انسان کو سونے کا نوالہ کھلا کر بھی اس کی توہین کریں ‘ پھر دیکھیں کہ کیسے وہ ساری زندگی آپ کے خلاف نفرت اپنے دل میں لیے پھرتا ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved