تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     03-04-2013

خون آشام ثقافت

بلوچستان کے پشتون، بلوچ اور براہوی قبائل میں ایک رسم مدتوں سے چلی آرہی تھی۔ یہ رسم امیر سے امیر اور غریب سے غریب گھرانے میں شادی کے ساتھ لازم وملزوم سمجھی جاتی تھی۔ چاہے مکان بنانے کے لیے پیسے نہ ہوں اور کسی جھگی میں ٹھکانہ ہو، پانی کے لیے سرکاری نل کا کنکشن نہ لے سکے اور اس کے گھر والے سرکاری یا نجی ٹیوب ویل سے پانی بھر کر لائیں، بچوں کو سکول داخل نہ کرواسکے، بیمار کے علاج کے لیے زکوٰۃ کے پیسے ڈھونڈتا پھرے، لیکن جب دلہن کو لے کر گھر میں داخل ہوتا تو ہوائی فائرنگ پر ہزاروں روپے کی گولیاں خرچ کر دیتا۔ ہوائی فائرنگ کا ایک کمال یہ ہے کہ جب یہ گولیاں آسمان میں دُور تک جا کر واپسی کا سفر اختیار کرتی ہیں تو ان کی رفتار انتہائی تیز ہوتی ہے کیونکہ اس میں زمین کی کشش ثقل بھی شامل ہوجاتی ہے۔ وہ بندوق سے نکلی ہوئی گولی سے زیادہ تیزی کے ساتھ سفر کرتی ہوئی زمین پر گرتی ہے۔ کوئی انسان اس کی زد میں آ جائے تو یہ جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ جس انسان کو لگتی ہے وہ بے خبر ہوتا ہے۔ وہ نہ اپنے دفاع میں ادھر ادھر ہوسکتا ہے نہ اس کی زد سے بچنے کے لیے کہیں بھاگ سکتا ہے۔ ہرروز اندھی گولی کا شکار ہونے والے لوگوں کی میتیں اٹھتیں تھیں۔ نہ قاتل کے نام کاپتہ اور نہ ہی کوئی ایف آئی آر‘ لیکن ثقافت کے نام پر یہ ظالمانہ کھیل جاری تھا۔ 1987ء میں جب میں پشین شہر میں تعینات ہوا تو سردار خیر محمد ترین وہاں سے ممبر اسمبلی تھے۔ میں نے ان کے ساتھ دیگر قبائلی معتبرین کے ساتھ اس ظالمانہ ثقافتی رسم پر کئی گھنٹے گفتگو کی۔ میرا سوال یہ تھا کہ آپ پشتون کب سے ہیں۔ جواب ملا کئی ہزار سال سے۔ میں نے کہا لیکن بندوق کو ایجاد ہوئے تو صرف سوڈیڑھ سو سال ہوئے ہیں، پھر یہ ثقافت کا حصہ کیسے بن گیا کہ دلہن کو گھر میں لائو تو ہزاروں رائونڈ ہوائی فائرنگ میں چلائو۔ کوئی فیصلہ نہ ہوسکا اور میں چمن میں اسسٹنٹ کمشنر مقرر ہو گیا۔ میرے لیے یہ خوفناک تجربہ تھا کہ چمن کی سرحد یعنی خوجک پہاڑ کے دامن میں میرے استقبال میں ہوائی فائرنگ کی گئی۔ میں نے سوال کیا تو جواب ملا ہم تو ہر خوشی میں ایسا کرتے ہیں۔ میں نے دفتر پہنچتے ہی دفعہ 144کے تحت اس پر پابندی لگادی۔ ثقافت کے ٹھیکیدار پشتون ثقافت کے نام پر ایک دم اکٹھے ہوگئے۔ جام غلام قادر وزیراعلیٰ تھے، بات وہاں تک جاپہنچی۔ میرا سوال صرف ایک تھا‘ اگر آپ ذمہ داری لیتے ہیں کہ ایک شخص بھی ناحق مارا گیا تو آپ ذمہ دار ہوں گے اور یہ خون آپ کے نام لکھاجائے گا تو یہ سلسلہ جاری رکھیں۔ جام صاحب مرنجامرنج آدمی تھے‘ مسکرانے لگے اور کہا، اچھا چلیں آپ انہیں صرف تین فائر کرنے کی اجازت دے دیں۔ میں نے کہا‘ اس کے لیے تحریری اجازت لینا ہوگی اور جگہ اور وقت بھی بتانا ہوگا تاکہ اگر کوئی زخمی یا قتل ہوتو مقدمہ درج ہوسکے۔ لیکن میرے واپس پہنچنے کے اگلے دن جام صاحب سریاب روڈ سے گزررہے تھے کہ ان کی گاڑی ایک جلوس کی زد میں آئی اور اس پر پتھرائو ہوگیا۔ انتظامیہ سے ناراض جام صاحب نے کوئٹہ کے اسسٹنٹ کمشنر کا تبادلہ کردیا اور مجھے فوراً چارج لینے کے لیے کہا۔ میں ابھی سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ جونیجو حکومت برطرف ہوئی، ضیاء الحق کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا‘ 1988ء کے الیکشن آئے اور پھر ایک ماہ کے لیے ظفراللہ جمالی اور پھر نواب بگٹی وزیراعلیٰ بن گئے۔ اس دوران عام انسان ہوائی فائرنگ کے نام پر ہونے والی ثقافتی رسم سے مرتے رہے۔ کوئٹہ شہر میں ویسے بھی فیصلے اعلیٰ ترین سطح پر ہوتے ہیں، اس لیے میں دم بخود یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ نواب اکبر بگٹی سے ایک پرانا تعلق اس زمانے سے تھا جب میں بلوچستان یونیورسٹی میں لیکچرر تھا۔ ان کی شام بلکہ رات گئے تک جاری رہنے والی محفلوں میں دنیا بھر کے علمی، سیاسی اور ثقافتی موضوعات پر گفتگو ہوتی اور نواب صاحب انتہائی محبت سے مجھے یاد فرماتے ۔ میں اس ہلاکت خیز ثقافتی رسم کے بارے میں اعدادوشمار لے کر ان کے پاس جاپہنچا۔ ایک انتہائی شاندار منتظم ہوتے ہوئے انہوں نے فوراً اس پر پابندی لگادی۔ یوں تو یہ پابندی دفعہ 144کے تحت ہی لگائی گئی تھی لیکن تمام مجسٹریٹوں سے درخواست کی گئی کہ ضمانت دینے کے لیے قطعاً نرمی نہ برتی جائے۔ سب سے پہلا شخص جو ہوائی فائرنگ کرنے کے جرم میں پولیس نے گرفتار کیا وہ خود وزیراعلیٰ نواب اکبر بگٹی کے گارڈز کا سالار ایوب بلوچ تھا۔ نواب بگٹی نے اس کی رہائی کے لیے کوئی بات کی اور نہ ہی اپنے فیصلے کو بدلا۔ بلوچ ، پشتون اور براہوی جو کبھی ثقافت کے نام پر شور مچاتے تھے اس عظیم منتظم کے سامنے مہر بلب تھے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس وقت میڈیا نہ تھا‘ اس ثقافتی رسم کو رنگا رنگ ایڈیشنوں کے طورپر شائع کرنے والے اخبار بھی نہ تھے اور نہ ہی لائیو کوریج کرنے والے ٹیلی ویژن چینل تھے۔ اس طرح ثقافت کے نام پر قتل کو جائز قرار دینے والی کوئٹہ کی سول سوسائٹی مدتوں اندھی گولیوں کے قتل سے محفوظ رہی۔ شاید لاہور میں کسی کو بے خبری میں آنے والی بسنت کی ڈوروں اور گردنوں سے بہتے لہو کا کوئی احساس نہیں۔ جب یہ رسم اپنے عروج پر تھی اور ہوٹلوں اور عمارتوں کی چھتیں لاکھوں روپے کے کرائے پر چڑھتی تھیں تو اس دور میں خونی ڈور سے قتل اور زخمی ہونے والوں کی تعداد دیکھیں تو خوف آتا ہے۔ 1995ء میں 6افراد قتل اور دوسوشدید زخمی ہوئے، 1996ء میں 7ہلاک اور 250شدید زخمی، 1997ء میں 30ہلاک اور 800زخمی، 1998ء میں 6ہلاک اور 500زخمی ہوئے، مشرف دور آیا تو این جی اوز، سول سوسائٹی اور سیکولر اخلاقیات نے اسے عروج پر پہنچایا اور پہلے ہی سال یعنی 2000ء میں 8ہلاک اور 718زخمی ہوئے جبکہ 2001ء سے 2005ء تک 42لوگ ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ پھر سپریم کورٹ میدان میں آئی لیکن کبھی پابندی اور کبھی آزادی۔ یہ آنکھ مچولی چلتی رہی۔ پولیس کے چھاپے شروع ہوئے۔ حیرت ہے کہ پابندی کے ان برسوں میں بھی 30افراد ہلاک ہوئے۔ لیکن اب ثقافت کے نام پر ایک دفعہ پھر اس کا آغاز کیا جانے والا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آج اٹلی کے وزیراعظم ثقافت کے نام پر کہیں کہ ہم گلیڈی ایٹر کا کھیل دوبارہ شروع کرتے ہیں اور ایک پہلوان کو بھوکے شیر یا بھیڑیے کے سامنے لڑنے کے لیے ڈالتے ہیں۔ اس تہوار میں بھی رنگا رنگی تھی۔ سٹیڈیم میں روم کے بادشاہ وزیروں کے ساتھ موجود ہوتے تھے۔ لاکھوں تماشائیوں کی تالیاں، نعرے اور خوشیاں دیکھنے کے قابل ہوتی تھیں۔ اس دوران گلیڈی ایٹر کے جسم کے چیتھڑے اُڑ جاتے تھے۔ اب لاہور میں رنگا رنگی ہوگی۔ ڈھول بجیں گے۔ ماڈل اور اداکارائیں تصویریں بنوائیں گی، لیکن ڈور تو کسی غریب پیدل چلنے والے، سائیکل سوار یا موٹرسائیکل سوار کی گردن پر چلے گی۔ نوحہ و ماتم تو اس کے گھر ہوگا۔ اس اندھے قتل کی ایف آئی آر کس کے خلاف درج کی جائے گی۔ کیا کوئی ذمہ داری لے گا کہ یہاں بسنت منائو، اگر کوئی قتل ہوگیا تو قتل کا مقدمہ مجھ پر درج کرائو!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved