گزشتہ پانچ برس سے میاں برادران اور ان کی پارٹی کے ہر چھوٹے بڑے رہنما‘ جن میں دانیال عزیز ‘ طلال چوہدری‘ سعد رفیق اور مریم اورنگ زیب سمیت ‘نا جانے کتنے جھوٹ بولنے والے جیسے ہی کسی ٹی وی چینل کا مائیک دیکھتے ‘ تو ایک ہی رٹ لگانا شروع ہوجاتے کہ ''کے پی کے کی حکومت ہم نے عمران خان کو بخشش میں دی تھی‘ ورنہ ہم اکثریت میں تھے اور اگر ہم چاہتے تو خود حکومت بنا سکتے تھے‘ وہ تو ہمیں ترس آ گیا کہ بے چارہ غالب مارکیٹ میں ہونے والے جلسے کے سٹیج سے گر گیا تھا اور بال بال بچا تھا‘ لہٰذا ہم نے اسے کے پی کے کی حکومت دان دی ‘ ورنہ تو اگر ہم چاہتے‘ تو عمران خان کو2013ء کے انتخابات کے بعد کے پی کے کی حکومت بنانے ہی نہ دیتے‘ کیونکہ وہاں پر مسلم لیگ نواز کی اکثریت تھی‘‘۔
16 اگست 2018ء کو لاہور میں پنجاب اسمبلی کے اندر اور باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مذکورہ طعنہ حمزہ شہباز اور سعد رفیق نے نا جانے کتنی مرتبہ مائیک اور کیمرے کے سامنے آتے ہی کر چکے ہیں ۔اور خیر سے اس احسان عظیم کی یہی گردان میاں نواز شریف بھی نا جانے کتنی مرتبہ کر چکے ہیں۔
ہٹلر کے بہت ہی قریبی جنرل گوئبلز کا نام ‘رہتی دنیا تک تاریخ میں صرف اس وجہ سے زندہ ہے کہ وہ جھوٹ بولنے اور جھوٹ کو سچ کا روپ دینے میں بہت ماہر تھا۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک جھوٹ کو اس قدر دہراتا کہ سننے والے اسے سچ سمجھنا شروع ہو جاتے اور یہ پراپیگنڈے کا ایک ہتھیارتھا ‘جس کی مدد سے اس نے ایک طرف جہاں جرمن عوام کے مورال کو بلندیوں تک رکھتے ہوئے‘ ہٹلر کو ایک ماورائی مخلوق کا درجہ دیئے رکھا‘ تو دوسری جانب جرمنی کے مخالف ملکوں کی افواج ا ور شہریوں میں خوف کی ایک لہرسی دوڑائے رکھی۔
گوئبلز کا قول اور حکم تھا کہ '' جھوٹ کو اس قدر بولو اور بولتے جائو کہ یہاں تک تمہیں بھی یقین ہو جائے کہ یہ سچ ہے‘‘۔
2013ء سے2018ء تک سب یہی سنتے چلے آ رہے ہیں کہ کے پی کے میں عمران خان کی جماعت کو حکومت میاں نواز شریف نے ایک بہت بڑا احسان کرتے ہوئے دی تھی‘ کیونکہ عمران کے مقابلے میں مسلم لیگ نواز کے پاس صوبائی اسمبلی میں اکثریت تھی۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف میں ان کے کسی بھی لیڈر سمیت ہمارے میڈیا کے بھی کسی ایک شخص نے آج تک یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ جناب آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ آپ نے پاکستان تحریک انصاف پر کوئی احسان نہیں کیا ‘کیونکہ مسلم لیگ نواز کو11 مئی2013 ء کے انتخابات میں کے پی کے اسمبلی میں تحریک انصاف کی 57 صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے مقابلے میں صرف16 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔اب دیکھئے کہاں57 اور کہاں16 ؟ ان انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی آپس میں سیٹ ایڈ جسٹمنٹ اور الائنس تھا اور جماعت اسلامی کی سات نشستوں سے ان کی کل تعداد64 ہو گئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ پانچ سال تک جماعت اسلامی اس معاہدے کے تحت کے پی کے حکومت میں جناب سراج الحق سمیت اہم وزارتوں کے ساتھ شامل رہی اور بعد میں انہیں سینیٹر بنوانے میں بھی مدد دی۔
دوسری طرف مسلم لیگ نواز کے ہر چھوٹے بڑے رہنما نے انتہائی ڈھٹائی سے گزشتہ پانچ برس میں ہزاروں مرتبہ عمران خان کی‘ کے پی کے حکومت بارے اس قدر جھوٹ بولا ہے کہ تھکنا تو دور کی بات ہے‘ وہ یہ سفید جھوٹ بولتے ہوئے ذرا سا جھجکتے بھی نہیں۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے'' کچھ شرم ہوتی ‘کچھ حیا ہوتی ہے‘‘۔ انتخابات کے ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف میں 2آزاد اراکین شامل ہونے سے ان کی کل تعداد59 اور جماعت اسلامی کے سات ووٹ شامل کرنے سے66 ہو گئی ‘ جبکہ کے پی کے میں پی پی پی کی 6 مولانا فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام نے 16 ‘آفتاب خان شیر پائو کی قومی وطن پارٹی نے 10 اور اسفند یارولی کی عوامی نیشنل پارٹی نے 5 نشستیں حاصل کیں ۔اب ذرا غور کیجئے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف کے مقابلے میں ان سب جماعتوں کے اراکین کی تعداد سامنے رکھیں‘ تو یہ کل ملا کر53 بنتے تھے۔ا ب اگرمسلم لیگ نواز کا اعتراض سامنے رکھیں‘ تو جناب والا2018ء کے انتخابات میں نواز لیگ129 اور پاکستان تحریک انصاف کے123 صوبائی اراکین منتخب ہوئے‘ خود ہی سوچئے کہ کہاں2013ء کی کے پی کے اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے57اور کہاں مسلم لیگ نواز کے کل 16‘ جبکہ دوآزاد اراکین اسمبلی بھی عمران خان کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔
مسلم لیگ نواز جب سے سیاست میں داخل ہوئی ہے‘ محترمہ بے نظیر بھٹو سے عمران خان تک سب کے خلاف گوئبلز کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے '' جھوٹ بولو بولتے جائواور لگاتار بولتے جائو‘یہاں تک کہ سب سچ سمجھنے لگیں‘‘کے فارمولے پر عمل پیرا ہے۔
16 اگست کو جب پنجا ب اسمبلی کیلئے سپیکر کا انتخاب ہو نے کے بعد چوہدری پرویز الہٰی کے منتخب ہونے کا اعلان ہوا تو ان کے حاصل کر دہ ووٹوں کی تعداد201 تھی ‘جس پر نواز لیگ میں ایک کہرام مچ گیا کہ ہارس ٹریڈنگ ہو ئی ہے۔راقم کا تعلق چونکہ پرنٹ میڈیا سے ہے اور وہ بھی صرف اپنے کالم کی حد تک ہے‘ اس لئے ہماری باتیں سامنے نہیں آتیں‘ لیکن میں نے اپنے 6 اگست کے فیس بک اکائونٹ میں لکھ دیا تھا کہ سپیکر کے انتخاب میں چوہدری پرویز الہٰی ریکارڈ ووٹ حاصل کریں گے اور یہ پوسٹ آج بھی میرے ریکارڈ کا حصہ ہے اور میرے ہزاروں کی تعداد میں فیس بک کے فین اس تحریر کو پڑھ چکے ہیں اور ان میں سے بہت سے دوستوں نے سپیکر کا رزلٹ سامنے آنے پر اس پوسٹ کو میرے ساتھ شیئر بھی کیا ہے۔
سپیکر کے انتخاب سے بہت پہلے میرے پاس مصدقہ اطلاعات تھیں کہ چوہدری پرویز الہٰی سے مسلم لیگ ٰنواز کے 37 اراکین صوبائی اسمبلی رابطے کر چکے ہیں اور ان اراکین صوبائی اسمبلی میں سے کچھ نام ایسے ہیں کہ اگر میں ان کا انکشاف کر دوں تو میڈیا سمیت خود میاں شہباز شریف بھی یقین نہیں کریں گے ‘لیکن میری اب تک کی اطلاعات کے مطا بق انتہائی زیرک میاں شہباز شریف‘ اراکین اسمبلی کی فہرست سامنے رکھے ہوئے ان ناموں کو بار بار دیکھ رہے ہیں‘ جو چوہدری پرویز الہٰی کی وزارت ِاعلیٰ کے دوران ق لیگ کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے اور ان کی جانب سے انہیں بے تحاشا ترقیا تی اور بلدیاتی فنڈز سے نواز گیا گیا تھا۔ جس طرح رائے ونڈ اور ماڈل ٹائون سے میڈیا کے لوگوں کو دی جانے والی بھاری رقوم کی فہرست میرے پاس موجو دہے ‘لیکن کبھی سامنے نہیں لایا‘ کیونکہ ایک دنیا میری دشمن بن جائے گی اور عقلمند کہتے ہیں کہ کسی کے راز کو افشا مت کرو ‘کیونکہ اس میں میرے ہی قبیلے کی عزت کا سوال بھی ہے۔
خیرجن اراکین صوبائی اسمبلی نے چوہدری پرویز الہٰی صاحب کو سپیکر کے لیے ووٹ دیئے ہیں‘ وہ ان کے ایک اشارے پر اپنی نشستیں بھی قربان کرنے کو تیار ہوں گے؛ بشرطیکہ ضمنی الیکشن میں انہیں پنجاب اور مرکزی حکومت کی مکمل سپورٹ ملنے کی واضح یقین دہانی کرا دی جائے‘ اسی لئے پھر کہہ رہا ہوں کہ کچھ نام اگر بتا بھی دوں‘ تو میاں شہباز شریف سن کر سناٹے میں آ جائیں گے۔
آخر میں امید ہے کہ اب پاکستان تحریک انصاف سے اگر اور کوئی نہیں‘ کم از کم فیاض الحسن چوہان‘ مسلم لیگ نواز کو گزشتہ انتخابات کے بعد کے پی کے حکومت والے طعنے کا منہ توڑ جواب ضرور دیں گے۔