تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-08-2018

… کوئی چُوک ہوئی ہے

سوال بہت سے ہیں‘ جن کے جواب ڈھونڈے بغیر چارہ نہیں‘ مگر افسوس کہ جواب کے بارے میں سوچنا تو ایک طرف رہا‘ کسی جواب کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جارہی۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ سوال البتہ اہم ہے۔ سوچ کا سانچا تبدیل کیے بغیر معاملات درست ہوتے نہیں۔ اگر کوئی سوچنے کی اہمیت ہی کو تسلیم نہ کرتا ہو تو سوچے گا کیوں؟ جو لوگ بے سوچے (اور سمجھے) زندگی بسر کرنے کے عادی رہے ہوں‘ وہ بھلا کیوں چاہیں گے کہ دماغ پر زور دے کر اپنے ٹخنوں میں درد پیدا کریں! 
پاکستان کہاں تھا‘کہاں پہنچ گیا اور جہاں پہنچا ہے‘ وہاں کیوں اور کس کے باعث پہنچا ہے‘ یہ تمام سوال بہت اہم ہیں۔ سوچے بغیر کام چلتا نہیں‘ مگر ہم چلانا چاہتے ہیں۔ ایک دنیا اس بات کو بخوبی سمجھتی ہے کہ جب تک سوچ تبدیل نہیں ہوگی‘ تب تک کسی بھی شعبے میں کسی بھی سطح کی اصلاح کی راہ ہموار نہ ہوگی‘ مگر ہم ایسا سوچنے کے لیے شاید مائل ہی نہیں۔ 
ٹائمز آف انڈیا کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر روہت سرن نے ایک تجزیے میں پاکستانیوں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے ابتدائی بیس برس کی شاندار کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس قوم نے بے سر و سامانی کی حالت میں ہوتے ہوئے بھی معیاری زندگی بسر کی اور دنیا کو حیران کردیا۔ روہت سرن کے نزدیک یہ بات انتہائی حیرت انگیز تھی کہ جب پاکستان قائم ہوا تب دوسروں کے ساتھ ساتھ خود قائد اعظم کا حوصلہ بھی شکستہ سا تھا ‘کیونکہ جیسا ملک وہ چاہتے تھے ویسا نہیں بن پایا تھا۔ بہت کچھ تھا‘ جو پاکستان کے حصے میں آنا چاہیے تھا‘ مگر نہ آیا۔ اثاثوں کی تقسیم میں ڈنڈی ماری گئی۔ پاکستان‘ جس حالت میں قائم ہوا وہ کوئی بہت حوصلہ افزاء حالت نہ تھی۔ اور پھر قائد اعظم ایک سال کے اندر چل بسے۔ اگر وہ مزید جیتے تو قوم کو تیزی سے خوش حالی اور استحکام کی طرف بڑھتی ہوئی دیکھ کر حیران رہ جاتے۔ پاکستانیوں نے پہلے دو عشروں کے دوران قابلِ رشک حد تک اچھی زندگی بسر کی۔ مجموعی طور پر پوری قوم میں جوش و جذبے کی بہار تھی۔ لوگ پرمسرت انداز سے جیتے تھے۔ پریشانیاں ضرور تھیں‘ مگر اُن سے گھبرانے کی بجائے اُن سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ لوگوں میں تھا۔ لوگ مسائل کا رونا روتے رہنے کی بجائے اُنہیں حل کرنے پر زیادہ متوجہ رہتے تھے۔ 
روہت سرن کو اس بات پر حیرت ہے کہ بھارت جیسے مضبوط اور ہزاروں سال کی تاریخ رکھنے والے ملک کے مقابل ایک نو زائیدہ ریاست ہونے کے باوجود پاکستان نے خود کو ترقی کا اہل ثابت کر دکھایا۔ 
روہت سرن لکھتے ہیں کہ پہلے دو عشرے قابلِ رشک حد تک بامقصد اور پرمسرت تھے۔ بعد کے پانچ عشروں میں معاملات خرابی کی نذر ہوئے۔ کیوں؟ یہ ایک طویل بحث ہے۔ اس وقت پاکستان میں فی کس آمدن 1580 ڈالر سالانہ ہے‘ جبکہ بھارت کی فی کس آمدن 1820 ڈالر سالانہ ہے۔ 1965ء میں پاکستان میں اوسط عمر 49.6 برس اور بھارت میں 44.4 برس تھی۔ اس وقت پاکستان میں اوسط عمر 66.5 سال اور بھارت میں 68.6 سال ہے۔ 1975ء پاکستان کی مجموعی قومی آمدن میں برآمدات کا حصہ 10.9 فیصد اور بھارت کا 5.7 فیصد تھا۔ آج پاکستان کی مجموعی قومی آمدن میں برآمدات کا حصہ 8.2 فیصد اور بھارت کا 18.9 فیصد ہے۔ 1965ء میں پاکستان کے نو زائیدہ بچوں میں اموات کا تناسب 218.8 فی ہزار جبکہ بھارت میں 228.3 فی ہزار تھا۔ آج پاکستان میں یہ تناسب 78.8 اور بھارت میں 43 فی ہزار ہے۔ 15 تا 19 سال کی عمر کی لڑکیوں کے حوالے سے
1975 میں پاکستان میں شرح پیدائش 108.3 اور بھارت میں 108.8 تھی۔ آج یہ شرح پاکستان میں7 37.7 اور بھارت میں 24.5 ہے۔ 
اعداد و شمار کی روشنی میں جائزہ لیجیے ‘تو پاکستان کی بُری حالت دیکھ کر دکھ بھی ہوتا ہے اور حیرت بھی۔ پہلے دو عشروں کے دوران قوم کا جذبہ جوان تھا۔ کچھ کر دکھانے‘ کر گزرنے کا عزم کم و بیش ہر دل میں موجود تھا اور اس کے مظاہر بھی دکھائی دیئے۔ علوم‘ فنون‘ فنونِ لطیفہ‘ کھیل اور دیگر تمام شعبوں میں پاکستانیوں نے غیر معمولی مہارت اور مشقت کا مظاہرہ کیا ‘جس سے دنیا حیران رہ گئی۔ 
ایک نو زائیدہ ریاست کی حیثیت سے پاکستان نے جو کچھ پہلے دو عشروں کے دوران کر دکھایا تھا وہ اس قدر حیرت انگیز تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ بھی مسحور و مبہوت ہوئے بغیر نہ رہتے تھے‘پھر ایسا کیا ہوا کہ قوم نے ترقی کی ڈگر سے ہٹ کر پس ماندگی اور واماندگی کی راہ پر گامزن ہونے کا فیصلہ کرلیا؟ وہ جذبہ‘ وہ ارادہ‘ وہ ولولہ کیا ہوا؟ سب کچھ جھاگ کے مانند کیوں بیٹھ گیا؟ کچھ نہ کچھ تو ایسا ہے‘ جس کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ ایک قوم کی حیثیت سے پاکستانی خاصے بلند مقام تک پہنچنے کے بعد اچانک نیچے آگئے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے نظر انداز کردیا جائے۔ ہر معاملے میں نظریۂ سازش کو بروئے کار لاکر سوچنے والے اس نکتے پر بھی غور کریں کہ انسان کسی بھی معاملے میں قصور وار ہو یا نہ ہو‘ ذمہ دار تو وہی ہوتا ہے! 
روہت سرن نے لکھا ہے کہ پاکستانی قوم کا زوال اُس وقت شروع ہوا جب فوجی اقتدار ختم پر آیا۔ جنرل ایوب خان کے دور میں پاکستان بہت مستحکم تھا۔ انہوں نے ایک عشرے کے دوران پاکستان کے لیے بہت کچھ کیا۔ اس طور کی بحث میں دو تین نکات فراموش کردیئے جاتے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ قوم کا جذبہ بلندی پر تھا۔ ایسے میں قائدانہ صلاحیت کا حامل کوئی بھی شخص قوم کو ترقی‘ استحکام اور خوش حالی کی طرف لے جاسکتا تھا اور لے بھی گیا۔ ایوب خان نے مجموعی طور پر ایک اچھا دور گزارا‘ تاہم یہ نکتہ فراموش کردیا گیا ہے کہ حقیقی قیادت کے ابھرنے کی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔ یہی سبب ہے کہ فطری جوش و جذبے کا ایک فطری چکّر پورا ہونے پر جب قوم کو قیادت کی ضرورت پڑی تب وہ ناپید تھی! روہت سرن لکھتے ہیں کہ پاکستان میں فوجی اقتدار کے دور میں آئندہ کے لیے جو تیاری کی جانی چاہیے تھی‘ وہ نہیں ہو پائی۔ جمہوریت کی راہ ہموار ضرور کی گئی‘ مگر تب قوم اس کے لیے تیار ہی نہ تھی۔ 
عوام کیا چاہتے ہیں؟ یہ کہ ان کے تمام بنیادی مسائل حل ہوں اور بہتر زندگی بسر کرنے کی راہ ہموار ہو۔ ٹھیک ہے‘ عوام یہ چاہتے ہیں ‘مگر وہ اس سے ہٹ کر اور کچھ زیادہ بھی تو چاہتے ہیں۔ حقیقی سیاسی قیادت میں بالغ نظری کا ہونا لازم ہے۔ دور اندیشی نہ ہونے کی صورت میں ہر معاملہ محض کوتاہ بینی کی نذر ہو جاتا ہے اور ہمارے ہاں یہی تو ہوتا آیا ہے۔ 
روہت سرن لکھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کے خلاف کردیا گیا ہے۔ بھارت میں جو لوگ ریاستی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہیں ‘ان سے کہا جاتا ہے کہ پاکستان چلے جائیں۔ یہی معاملہ پاکستان کا بھی ہے۔ 
بات سیدھی سی ہے ہمیں سوچنا ہے کہ ابتداء اچھی ہونے کے باوجود ہم آگے کیوں نہ بڑھ پائے۔ ؎ 
مَے خانے میں زاہد سے کوئی چُوک ہوئی ہے 
جانے کے قدم اور تھے‘ آنے کے قدم اور 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved