ریوا گوجون کا نام عالمی میڈیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اعلیٰ پائے کی تجزیہ کار ہیں۔ترکی کے حالیہ معاشی بحران پر مفصل تجزیہ کیا ہے‘ جوقارئین کی دلچسپی کے لئے پیش خدمت ہے۔
''معیشت دان اور ماہرین اقتصادیات ایک بار پھر اس ہر دلعزیز اور آمرانہ چیستان (معمے) کو سمجھنے کی کوششوں میں ہیں‘ جس کا نام رجب طیب اردوان ہے اور جو ترکی کا صدر ہے۔ ترک کرنسی لیرا نئی خوفناک گہرائیوں کی جانب گامزن ہے ۔ بہت سے لوگ بے یقینی کے ساتھ ایک دوسرے سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ ایسی صورتحال میں 850 بلین ڈالر کی معیشت کا محافظ کیسے اتنا لاپروا ہو سکتا ہے کہ سرمایہ کاروں کو علی الاعلان ریاست کا دشمن قرار دے؟ ترکی کی کرنسی 'لیرا‘ ڈالر کے مقابلے میں اپنا وزن ہلکا کر تی جا رہی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے امکانات میں کمی کے خدشات کے بعد ترک لیرا‘ ڈالر کے مقابلے میں مزید نیچے آ گیا ہے۔ بے یقینی کے ساتھ ایسے سوالات کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت یہ الزام کیوں عائد کر رہی ہے؟ کہ ہم پوری دنیا میں معاشیات کو درہم برہم کرنے کی سازش کر رہے ہیں؟ تاکہ ترکی کو مالی لحاظ سے زوال پذیر کیا جا سکے جبکہ سرمایہ کاروں کے بارے میں اس طرح کی بمباسٹک زبان کا استعمال ہے ‘جو مزید سرمائے کے ملک سے فرار کا باعث بن رہا ہے؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ اگر اس سے لیرا کا بخار ہو سکتا ہے تو اردوان‘ امریکی پادری کے حوالے سے ایک سادہ سفارتی بارگین کیوں نہیں کر لیتے؟ ترک حکومت نے ایک امریکی پادری‘ جس پر دو سال پہلے اردوان کے خلاف بغاوت کی منصوبہ بندی کا الزام ہے‘ کو حال ہی میں 21 ماہ کے لئے نظر بند کر دیا ہے۔ اس معاملے پر امریکہ اور ترکی کے مابین تنازع چل رہا ہے۔
اردوان کے آج کے رویے اور طرز عمل کو سمجھنے کے لئے ہمیں 15برس پیچھے جانا پڑے گا۔ اس وقت ترکی ایک بڑے مالی طوفان کا سامنا کر رہا تھا۔ اس طوفان نے ترک بینکوں کی سرگرمیوں کو لپیٹ کر رکھ دیا تھا ‘ جس کی وجہ سے حکومت‘ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے اربوں ڈالر کی مدد حاصل کرنے پر مجبور ہو چکی تھی۔ سیاسی لحاظ سے بھی ترکی ایک اہم موڑ پر پہنچ چکا تھا۔ اسلامی نکتہ نظر کی حامل جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی)اس وقت نئی نئی قائم ہوئی تھی اور 2002ء میں ہونے والے انتخابات میں اس نے شاندار کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ کامیابی زیادہ تر استنبول کے ضلع کاسم پاسا کی گلیوں سے اٹھنے والے ایک جھگڑالو اور پرہیز گار سیاست دان کے بلند آہنگ کرشمے کی مرہون منت تھی۔ استنبول کے میئر کے طور پر اور 2003ء میں وزیر اعظم بننے کی پوزیشن میں آنے کے موقع پر عاجزانہ طرز عمل رکھنے والے اور پُر عزم اردوان نے‘ اپنے سیاسی دعدوں سے عوام کے ابہامات کو مکمل طور پر دور کر دیا۔ اس وقت اردوان نے ترک عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں معاشی اصلاحات نافذ کرے گا۔ کرپشن کے خلاف جنگ شروع کرے گااور جمہوری مسلمانوں کے طور پر ملک میں مذہبی رواداری کے کلچر کو فروغ دے گا۔
ترک عوام تیزی سے بڑھتے ہوئے افراط زر سے تنگ آ چکے تھے۔ ان کے خیال میں پُرانی سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے بد انتظامی کی حد کر دی تھی۔لہٰذا وہ ایک بڑی تبدیلی کیلئے خود کو ذہنی طور پر تیار کرچکے تھے۔ اسی لئے انہوں نے اردوان کی باتوں پر یقین کر لیا ۔ اور تبدیلی آبھی گئی ۔ 2002ء سے 2007ء کے درمیانی پانچ برسوں میں ترکی کے گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ کے بڑھنے کی رفتار سات فیصد تھی اور یہ حیرت انگیز تھی‘ کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب عالمی سطح پر اقتصادی بحران سر ابھار رہا تھا۔ ان برسوں میں ترکی میں فی کس آمدنی میں چار گنا اضافہ ہوا‘ جس کے نتیجے میں ایک نئی اور رجائیت پسند متوسط طبقے کا ظہور ہوا۔ اس عرصے میں مغربی دنیا اس تیزی سے فروغ پذیر مارکیٹ کو دلچسپی اور حیرت سے دیکھ رہی تھی اور اس ساری صورتحال کا مشاہدہ کر رہی تھی۔ ترکی اس وقت ایک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت تھی اور مشرق اور مغرب کے درمیان ایک پُل بننے کیلئے تیار تھی۔ 2001ء میں ترکی میں بینکوں کا جو بحران پیدا ہوا‘ اس نے حکومت کو کڑے اقدامات کرنے پر مجبور کر دیا تھا اور اصلاحات کے راستے میں پھنسا ہوا نظر آتا ۔ اس وقت یعنی 2005ء میں ترکی نے یورپی یونین میں شامل ہونے کے لئے رسمی بات چیت کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ لیکن مغرب نے اس بات کا ادراک کرنے میں سستی سے کام لیا کہ ترکی سرد جنگ کے بعد کے زمانے کی نیند سے بیدار ہو رہا ہے۔ مغرب اس بات کو محسوس کرنے میں بھی خاصا سست ثابت ہوا کہ اسلام کی بنیاد پر قائم سیاسی ماڈل کے تحت ترکی ایک بڑی ابتری کا شکار ہونے والا ہے‘ جس کا آغاز امریکہ نے اس کے مشرقی پچھواڑے میں عراق کی جنگ شروع کرکے کر دیا ہے۔ مغرب کے اس ناسٹیلجیا پر مبنی نکتہ نظر میں پہلے ہی دراڑیں پڑنا شروع ہو چکی تھیں کہ دنیا کے ایک ہنگامہ خیز خطے میں اس کا ایک سیکولر اور مستحکم اتحادی موجود ہے۔
بحران کے تناظر میں اردوان کی مانیٹری اور فسیکل پالیسی کو سخت کرنے کے خلاف زہر انگیز مزاحمت کو سمجھنے کے لئے ایک سادہ سی حقیقت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے: اس نے اپنی سیاسی شہنشاہیت ایک ایسے دور میں بنائی جب ملک تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور معیشت فروغ پذیر تھی‘ چنانچہ وہ اس معاشی ماڈل سے الگ ہونے سے متنفر رہا‘ جس نے اسے اتنی کامیابی سے نوازا تھا۔ سود کی شرح کم کرنے اور رکھنے‘ کھپت کی شرح میں اضافے ‘ بھاری پورٹ فولیو کی وجہ سے حاصل ہونے والے معاشی فوائد اور حکومت کی جانب سے شروع کئے گئے بڑے تعمیراتی منصوبوں نے اسے وہ بنیادی لوازمات فراہم کر دئیے ‘جو ایک ایسا نیٹ ورک بنانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں‘ جو اس کی نگرانی میں چلتا رہے۔ اردوان نے اپنی سیاسی بیس کو محفوظ بنانے کیلئے بڑی تیزی سے اور بڑی ہوشیاری کے ساتھ کام کیا۔ سب سے پہلے اہم علاقوں میں اپنی تابعداری پیدا کی اور پھر کلیدی اداروں میں سیکولر ایلیٹ کو اپنے وفاداروں سے بدل دیا۔ اس کے بعد اردوان نے نہایت سختی کے ساتھ فوج کے سیاسی اثر و رسوخ کو نیوٹرلائز کر دیا۔ اور بالآخر گولن تحریک کے اپنے سابق اسلام پسند اتحادیوں کو بھی راستے سے ہٹا دیا۔
اردوان نے اقتدار میں آنے سے پہلے جو اینٹی کرپشن بینر لہرایا تھا‘ وہ بتدریج اقربا پروری کے گمبھیر مظاہروں میں تبدیل ہو گیا۔ اس کی زیر نگرانی ترکی میں اقربا پروری عام ہو گئی۔ چونکہ ترکی کے یورپی یونین میں شامل ہونے کا معاملہ ترجیحات میں شامل تھا اور اردوان نے ادارہ جاتی غلبے کو مستحکم کیا تھا‘ اس لئے ترک لیڈر بڑی آسانی سے اس قابل ہو گیا کہ ایک وسیع تر اینٹی کرپشن لہر پیدا کر سکتا‘ جو اس کے دوسرے ابھرتے ہوئے دشمنوں اور مخالفین کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جاتی۔ طاقت کو مجتمع کرنے کے لئے قلبی حمایت کے حوالے سے جذباتی وابستگی پیدا کرنا اور معیشت کو ٹھیک کرنے کے معاملات کو ٹالتے رہنے نے‘ اردوان کو خوب فائدہ پہنچایا۔ اردوان ترکی کے گہرائی تک منقسم الیکٹوریٹ کے لئے چاہے جتنا بھی کسی جانب مرتکز ہو جائے‘ اسے آدھے الیکٹوریٹ کی حمایت ہر صورت میں حاصل رہی ہے۔ الیکٹورل مارجن کو جتنا کم کرنے کی کوشش کی گئی‘ اتنا ہی اردوان ہر کوشش کے نتیجے میں پہلے سے زیادہ طاقت ور بنتا چلا گیا اور اس کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ کس طرح 2017ء میں اپنی طاقت میں اضافے اور اپنی میعاد میں اضافے کیلئے ریفرنڈم کرایا گیا؟ اس سے یہ وضاحت بھی ہو جاتی ہے کہ اردوان کیوں معیشت کے ایک پُرانے ماڈل کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں؟ اس ماڈل نے اردوان کے اوپر کی جانب چڑھائی کی رفتار تیز کر دی ہے‘‘۔ (جاری)